یادوں کے دریچے سے، فاروق اعظم انصاری

Farooq Azam Ansari

Farooq Azam Ansari

تحریر : منور راہی
وارثوں نے اک کفن دو گززمیں کے ماسوا کر دیا رخصت دیا لعل و گُہر کچھ بھی نہیں فاروق اعظم انصاری کو اپنے انتقال کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا بخوبی اندازہ تھا ۔ اس لئے انہوں نے جیتے جی مندرجہ بالا شعر کہہ کر اپنی ڈائری میں قید کردیا۔ اس شعر میں شاعر نے اس دار فانی کی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مرنے کے بعد سوائے دو گز زمین کے انسان اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جاتا۔ اپنی ساری دولت یہیں چھوڑ جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ دوسروں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ بھلائی کرتا رہے۔ زندگی ہے تو موت آنی ہے ۔ دنیا میں ہر دن لاکھوں انسان پیدا ہوتے ہیں اور تقریباً اتنے ہی لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ انسان خالق کائنات کے آگے بے بس ہے کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا ہے۔

دنیا جب سے بنی ہے یہ سلسلہ جاری ہے ، مرتے تو سبھی ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی موت افرادکو رونے پر مجبور کردیتی ہے۔ ایسی ہی شخصیت کے مالک فاروق اعظم انصاری صاحب تھے۔ ان کی شخصیت گونا گوں اہمیت کی حامل تھی۔ ان کی شاعری سماج کو آئینہ دکھاتی ہے ۔ بحیثیت انسان وہ نیک صفت اور ہر دلعزیز اور ملنسار تھے۔محبت سے لوگوں سے ملتے ، اپنے چھوٹوں کو دعائیں دیتے، اپنے ادارے میں کبھی کسی کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آئے ۔ ہمیشہ اپنے بڑوں سے سیکھنے اور چھوٹوں کو کچھ سکھانے کی سعی کرتے رہے۔ اردو سے انہیں والہانہ محبت تھی ۔ اپنی ادبی صلاحیتوں اور نیک نامی کی وجہ سے ادبی حلقوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ فاروق اعظم انصاری کے تعلق سے ذہن میں یادو ں کی پوری بارات موجود ہے لیکن اس مختصر سے تاثراتی مضمون میں یہ ممکن نہیں کہ سب کا بیان ہوسکے۔

فاروق اعظم مرحوم کے انتقال سے ادبی حلقہ کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی بہت جلد ممکن نہیں۔ مرحوم نے اپنے استاد محترم رہبر چندن پٹوی کے نام سے ١٩٩١ء میں بزم رہبر نام کی تنظیم کا قیام عمل میں لایا تھا اور اسی بزم کے زیر اہتمام بزم میں شامل تمام شعراء کی نگارشات کو ایک کتابی صورت میں ”عکس سخن” کے نام سے شائع کروایا تھا۔ مرحوم عکس سخن کی دوسری جلد کو مکمل کرنے میں آخری سانس تک مصروف رہے۔ انہوں نے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہچانے کے لئے نوجوان شاعر منور عالم راہی کو اس کی ذمہ داری دی تھی۔ رمضان کے سبب اور دیگر مصروفیتوں کی وجہ کر منور راہی اس کتاب کو شائع نہیں کر واسکے۔

Literacy

Literacy

فاروق اعظم انصاری کی ہی شخصیت رہی کہ انہوں نے بزم کے زیر اہتمام ١٩٩١ء سے لے کر ٢٠١٦ء تک دو سو سے زائد ماہانہ شعری نشست کا انعقاد کرایا۔ اتنے بڑے پیمانے پر شعری نشست کا انعقاد کروانا اپنے آپ میں ایک عظیم صلاحیت کا ضامن ہے۔ ساتھ ہی وہ شہر میں تشریف لانے والے ہندوستان کے معروف شعراء کے اعزاز میں بھی پروگرام کا انعقاد کرواتے رہے۔ فاروق اعظم انصاری نے بزم رہبر اور ادب کی ترقی کے لئے جو کچھ کیا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ان کے نامکمل کاموں کی تکمیل ہی ان کے لئے صحیح خراجِ عقیدت ہے۔ ایک شاعر نے اپنے خیالات کا اظہار ان اشعار میں کیا ہے:
موت تجھ پہ یقین ہے میرا
زندگی پر ہے اعتبار نہیں
یہ تو بس آخری ہے قصہ
میرا کر تم انتظار نہیں

اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں سحری سے فراغت کے بعد انھیں اپنے پاس بلا لیا۔ سولہ برسوںکے تعلقات میں دوست کی طرح ، کتنی باتیں ان سے وابستہ ہیں جو بھلائی نہیں جاسکتیں۔ مرحوم سے میری آخری ملاقات آکاش وانی دربھنگہ کے اسٹوڈیو مشاعرہ میں ہوئی جہاں میں ، پروفیسر عبدالمنان طرزی، فاروق اعظم انصاری ، عرفان احمد پیدل وغیرہ موجود تھے۔ انہوں نے بہت ساری دعائیں دیں اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے کاموں کو ترقی دیتا رہے ۔ ان کا چہرہ آج بھی میری نظروں کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ نیک انسانوں کو اپنے پاس جلد بلا لیتے ہیں۔

ALLAH

ALLAH

آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں ہمیشہ ہم لوگوں کے ساتھ جڑی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور اہل خانہ کو صبر جمیل دے۔
اس سلسلے میں بزم رہبر کے سابق سکریٹری منور عالم راہی نے اپنے شعری تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا :
دستِ اجل نے توڑا باغِ ادب سے گل پھر
ہر انجمن سخن کی مغموم ہوگئی ہے
اس کو نہ روئیں راہی کیونکر بھلا سخنور
اعظم سی شخصیت جو معدوم ہوگئی ہے

تحریر : منور راہی