یاداشت

Brain And Memory

Brain And Memory

تحریر: شاہد شکیل
انسان کی سب قیمتی چیز اسکی یاداشت ہے کیونکہ اسی کے بل بوتے پر دنیا بھر کا نظام قائم ہے اگر انسان اپنی یاداشت کے سہارے چند سیکنڈ کے اندر فیصلہ نہ کرسکے تو شدید مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہمارے دماغی سسٹم میں یاداشت یعنی میموری سٹور کرنے کیلئے ایک بہت بڑی اور لامحدود ہارڈ ڈرائیو فکس ہے جس میں ہم ساری عمرکی معلومات اور یاداشت سٹور کرتے ہیں لیکن یاداشت کو ذخیرہ کرنے کیلئے ہمارے دماغ کی اس اَن لمیٹڈ ہارڈ ڈسک میں بھی تین اقسام کی کیٹا گریز ہیں جنہیں بالترتیب مختلف مقام اور معلومات کے اعداد وشمار کو مد نظر رکھتے ہوئے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔

انسانی دماغ ایک ایسی مشین ہے جو نہ کہ صرف ماضی ،حال بلکہ مستقبل کی بھی مثلاً آنے والے سال میں گرمیوں کی چھٹیاں کوسٹا ریکا یا بالی میں منائی جائیں گی کو منظم سسٹم کے تحت سٹور کر تی ہے لیکن دور جدید میں انسان فارغ ہوتے ہوئے بھی اتنا مصروف ہوگیا ہے کہ اسے سر کھجانے کی فرصت نہیں اور ہر اس معمولی اور غیر معمولی چیز کو دماغ میں ذخیرہ کرنے کی بجائے مشین مثلا سمارٹ فونز وغیرہ کا سہارا لیتا ہے،میموری کو سٹور کرنے کیلئے دماغ کا درست زاویئے اور نظریے سے فنکشن کرنا لازمی ہے نہیں تو معلومات تو ہونگی لیکن ذخیرہ نہیں کی جا سکیں گی بلکہ آٹو میٹک ڈیلیٹ ہو تی رہیں گی۔

جزوی طور پر ابتدائی اور مکمل معلومات شاید ہی کسی کو یاد ہوں کیونکہ کئی غیر اہم باتوں ، چیزوں اور واقعات پر توجہ نہیں دی جاتی اور وہ یکسر نظر انداز کرنے کے باعث دماغی میموری کا حصہ نہیں بنتیں مثلاً کیا کسی کو یاد ہے کہ اس نے اپنی پانچویں سالگرہ کیسے اور کہاں منائی اور کن افراد نے شرکت کی؟ یا کونسی پہلی فلم دیکھی؟ یا سکول میں ریاضی کا ٹیچر کون تھا؟لیکن اگر ہم اپنے دماغ پر زور ڈالیں تو شاید بھولی بسری یادیں کسی دھندلی اور بلیک اینڈ وائٹ فلم کی مانند آتی جاتی رہیں گی چونکہ یاداشت کا تعلق دماغ سے ہے جو ایک نہایت پیچیدہ عمل تعمیر کرتا اور تمام معلومات اکٹھی کرتا رہتا ہے۔

Information

Information

حواس اور دماغی فلٹریشن سے مخصوص مقامات میں تمام معلومات ذخیرہ ہوتی رہتی ہیں غیر دلچسپ معلومات فوری طور پر ڈیلیٹ ہو جاتی ہیںاور جو معلومات ذخیرہ ہوتی ہیں ان کا دماغی پول پر دباؤ نہ پڑے اسلئے مختلف مقامات اور ذہنی پلیٹس میں پارک ہوتی رہتی ہیں۔ دماغی پلیٹس کی تین کیٹا گریز ہیں جنہیں بالترتیب الٹرا مختصر مدت میموری ، مختصر مدت میموری اور طویل مدت میموری کیٹاگریز سسٹم کے تحت منتخب اور شمار کیا گیا ہے۔الٹرا مختصر مدت میموری میں ویزویل اور آڈیٹو یعنی بصری اور سمعی معلومات کو محفوظ کیا جاتا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ یہ میموری بعض صورتوں میں ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں حسی طورپر ہماری مدد کرتی ہے مثلاً بات چیت کے دوران ، گاڑی پارک کرتے وقت ہماری حس اور سماعت کی کومبی نیشن کا استعمال کہ یہاں پارکنگ ممنوع ہے وغیرہ کیونکہ الٹرا مختصر میموری صرف وقتی طور پر مختصر مدت کیلئے ہوتی ہے۔

اس لئے اسکی درجہ بندی نہیں کی جاتی اور اپنی اسی الٹرا مختصر مدت میموری کو بروئے کار لا کر معلومات جمع کرنے کے فوری بعد دماغ اور حس سے خارج ہو جاتی ہے اور دوسرے سیکنڈ میں نئے سرے سے دوبارہ نئی معلومات جمع کرنے کا پروگرام شروع ہوجاتا ہے یعنی ایک نئی الٹرا مختصر مدت میموری اور اس تمام عمل کو الٹرا مختصر مدت میموری کہا جاتا ہے۔دوسرے نمبر پر مختصر مدت میموری ہماری یاداشت میں معلومات کو ایک سیکنڈ سے لے کر کئی منٹ تک دماغ کے خلیات میں مختلف اقسام کے سہارے گردش کرنے کے ساتھ ساتھ ذخیرہ کرتی ہے یعنی ہر قسم کے اعداد وشمار کو دوبارہ پیش کرنے کی دماغ میں کافی سکت ہوتی ہے اور کسی بھی وقت معلومات کو اس یاداشت کے سہارے دوبارہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔

مثلاً میں اپنا چشمہ کہاں بھول گیا ،گاڑی کی چابی کہاں ہے یا میرے ساتھی کا فون نمبر یاد نہیں آرہا وغیرہ، مختصر مدت میموری کے بغیر ہم اپنے روز مرہ معاملات تقریباً حل نہیں کر سکتے کیونکہ یہ میموری مختصر مدت کیٹا گریز کے پول میں ذخیرہ ہوتی ہے اور الٹرا مختصر مدت میموری کی طرح ہمیشہ کیلئے دماغ سے ڈیلیٹ یا زائل نہیں ہوتی کئی بار یہ میموری طویل مدت میموری کی کیٹا گری کا روپ بھی دھار لیتی ہے اور ہمیشہ کیلئے ذہن نشین ہوجاتی ہے جیسے کہ ساتھی کا فون نمبر وغیرہ وغیرہ۔ نمبر تین طویل مدت میموری ان لمیٹڈ ، لامحدود اور مستقل میموری میں شمار کی جاتی ہے ،مثلاً کبھی کبھی انسان اپنی زندگی کے تجربات ،واقعات یا کسی قسم کا مواد تاحیات رکھتا اور بوقت ضرورت انہیں پیش کرتا ہے۔

Memory

Memory

اس سلسلے میں دماغی اور ذہنی معلومات کا نیٹ ورک ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور جتنا واضح ،اعلانیہ ، شدت ، بہتر ،بازیافت ،پائیدار اور موثر ہوتا ہے اتنا طویل مدت تک یہ میموری دماغی خلیات میں فنکشن کرتی اور محفوظ رکھتی ہے مثلاً پہلی محبت، پہلی لڑائی،پہلا ایکسیڈینٹ وغیرہ یہ میموری اعلانیہ اور آٹومیٹک اپنی معلومات دیگر افراد تک پیش یا منتقل کرتی ہے یعنی جمع شدہ ذخائر ذہن سے ڈیلیٹ یا خارج نہیں ہوتے لیکن انسان کی عمر اور صحت بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اس میموری میں خاص بات یہ بھی شامل ہوتی ہے کہ کھانا بنانے کی خاص ترکیب، دیگر افراد سے گفتگو کرتے ہوئے ضابطہ اخلاق کتنا اہم ہے۔

کیونکہ ہر معاشرے میں اجتماعی میموری موجود ہوتی ہے اور ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی اسے اَ پ لوڈ یا ڈیلیٹ کیا جا سکتا ہے مثلاً یہ اسی میموری کی کیٹا گری ہے کہ ہم ٹریفک سسٹم کو کیسے قبول کرتے ہیں یا قوانین ہمارے لئے کتنے اہم ہیں وغیرہ وغیرہ تاہم کئی بار دانستہ یا غیر دانستہ جلد بازی یا معلومات کی کمی کے باعث نظام میں خلل ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے مثلاً ریڈ سگنل کو کراس کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اچانک کوئی تیزرفتار ٹرک ہمیں روند دے گا یا گہرے پانی میں چھلانگ لگانے سے قبل دماغی سسٹم میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ مجھے تیرنا نہیں آتا تو میں سمندر میں کیوں کود رہا ہوں اور ڈوبتے وقت چلانا شروع کرتے ہیں کہ بچاؤ بچاؤ۔

Brain

Brain

جانے انجانے ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ہمارے دماغ میں محفوظ یا ذخیرہ کیا گیا ہوتا ہے ہم اپنی حس اور سماعت کو قطعی استعمال نہیں کرتے نہیں جانتے اور نہیں سوچتے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے ہمیں کون اس آفت سے بچائے گا کوئی ایسا جادو گر یا معجزہ رونما نہیں ہو گا کہ ہمارے دماغ کی کمزوری کے سبب یا اپنی غفلت اور خواہش کے مطابق جو کارنامہ انجام دینے جا رہے ہیں وہاں اپنی جیت کو ہار میں بدل رہے ہیں یعنی موت کو اپنی مرضی سے گلے لگا رہے ہیں۔

،لیکن یہ سب کچھ میموری کے ساتھ ساتھ دماغی ٹریننگ سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے جسے ہم استعمال نہیں کرتے کیونکہ یاداشت کی ٹریننگ لازمی ہے اسلئے جتنا انسان دلچسپی سے اعداد وشمار کی ٹریننگ یا مشق کرے گا اتنا زیادہ اسکی میموری میں اضافہ ہوگا اور محسوس کرنے کی ایکٹیویٹی قائم رہے گی۔یاد رہے میموری کے ضائع ہونے سے کئی بیماریا ں اٹیک کر سکتی ہیں یاداشت کی کمزوری بہت سی بیماریوں اور مسائل کی جڑ ہے جس سے ممکنہ طور پر انفیکشن ، آلزائمر، ٹیومر اور نفسیاتی بیماری ،ڈپریشن میں مبتلا ہوا جا سکتا ہے اور نشہ آور یا سکون آور ادویہ کے استعمال سے بہتر ہے کہ یاداشت کو کنٹرول کیا جائے اور اگر معاملات مخصوص حد سے تجاوز ہوں تو فوری نفسیاتی ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔

Shahid Sakil

Shahid Sakil

تحریر: شاہد شکیل