مرد درویش، جنید وقت حافظ الملت حضرت پیر حافظ محمد صدیق رحمة اللہ علیہ

Peer khaliq

Peer khaliq

تحریر: صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
نیکی کے یہ جزیرے ، فیض کے یہ ابلتے چشمے خیر کی خیرات تقسیم کرتی یہ بستیاں اور فلاح کی میراث بانٹتی یہ جھگیاں جہاں کہیں بھی قائم ہیں اِن کی خوب تشہیر کی جائے اور اِن لوگوں کی داستانِ زندگی سناتے رہیں جن کی بدولت یہ دنیا قائم ہے اور جو حرص و ہوس کی منہ زور آندھیوں میں نیکی کا چراغ جلائے ہوئے اور شہ زور طو فانوں میں محبت و خدمت ِخلق کا بوٹا اگائے ہوئے ہیں وطن کے لُٹیروں اور راہبروں کے بھیس میں راہزنوں کا ذکر ہو چکا ، اب ہمیں اپنے قلم کی نوک کا رخ ایسے روشن چہرہ انسا نوں کی طرف پھیرنا چاہیے جن کے نام سے انسا نیت زندہ ہے اور محروم و محکوم و مظلوم انسانیت کو جینے کا سلیقہ آیا ہے کہتے ہیں کہ یہ کلجگ ہے ۔۔۔۔۔یہ عصر ۔۔۔عصر ِپذیر ہے۔۔۔۔۔یہ عہد بے چہرہ ہے ۔۔۔۔یہ قحط الرجال کا دور ہے ، شمع بکف پگ پگ پروانہ وار گھومیں تو بے چہرہ دو پایوں کے اس تاریک جنگل میں کہیں ایک آدھ روشن چہرہ انسان سے ملاقات ہوتی ہے تا حدِ نگاہ ویرانوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور افق افق تا ریکیاں خیمہ زن ہیں ”ماہتاب نوش” راتوں اور” آفتاب خور” دنوں کی حکمرانی ہے بے چہرہ دو پایوں کے اس تاریک ہجوم میں ایک آدھ روشن چہرہ انسان ظلمتوں کے نرغے میں گھری صبح ِخنداں کی طرح منفرد اور کُو فیوں کے محاصرے میں کھڑے مسلم بن عقیل کی طرح لائق رشک دکھا ئی دیتا ہے۔

ایسے میں اگر کسی خوش بخت اور خوش طا لع شخص کی ملاقات کسی روشن چہرہ اور عالی دماغ انسان سے ہو جا تی ہے تو بلا مبالغہ وہ زندگی کی معراج کو پا لیتا ہے یہ ملاقات بلا اشتباہ حاصلِ زندگی قرار پاتی ہے عرصہ 22 سال سے دو پایوں کے اس تاریک جنگل میں ایک ایسا روشن چہرہ ، اعلیٰ دماغ اور غنی مزاج شخصیت ایک صوفی کے روپ میں اخوت ، محبت ، روا داری، خدمت خلق ، آپس میں دکھ سکھ بانٹنے کا جذبہ اور اجالے تقسیمکرتی ہوئی نظر آرہی ہے اس روشن اور پاکیزہ صفات کی حامل شخصیت کو دنیا ئے تصوف پیر عبدالخالق القادری دامت برکاتہم العالیہ کے نام سے جانتی ہے جوخانقاہ بھر چونڈی شریف کے سجادہ نشین ہیں جنید وقت حضرت حافظ محمد صدیق رحمتہ اللہ علیہ شریعت و طریقت کی قدروں کو زندہ رکھنے اور اُن کے فروغ کے لیے تمام عمر بڑی جرأت و استقامت ، ہمت ، شجاعت ، دیانت و صداقت کا پیکر بن کر کام کرتے رہے اور اپنے مریدوں ، عقیدتمندوں اور چاہنے والوں کو بھی یہی نصیحت اور وصیت کرتے رہے کہ ”سچائی کا دامن کبھی بھی نہ چھوڑنا ”حافظ الملت کی عبادت گزاری کی یہ استقامت کہ آخری عمر میں بڑھاپے اور عوارض کے باوجود خود جماعت کراتے رہے اور کبھی سنت غیر موکدہ اور نفل تک قضا نہ کئے۔

Roza Sharif

Roza Sharif

حافظ الملت حافظ محمد صدیق رحمة اللہ علیہ کا دستر خواں بھی ہمیشہ آباد ہی رہتا تھا اور مخلوق ِ خُدا اپنے شکم کی آگ بُجھانے کے ساتھ ساتھ اپنے من کی پیاس بھی بُجھاتی تھی اور حافظ الملت کی ذاتِ ستودہ صفات بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ اِ ن ہستیوں میں سے ایک ہے جنہیں قادر مطلق ازل سے ہدایتِ خلق کے لیے منتخب فر ماتا ہے ایسے ہی نفوس ِ قدسیہ کے آ سمان ِ فکرو دانش پر طلوع ہونے والے آفتاب سے زندگی کے گھُپ اندھیرے اجالوں میں بدلتے ہیں اور دل میں عشق و محبت اور خدمت ِ خلق کے سوتے پھوٹتے ہیں ،حافظ الملت رحمة اللہ علیہ کی سیرت ۔۔۔سیرت ِ مُصطفی ٰ ۖکا پرتو تھی اور اُن کو دیکھ کر ”گُمراہ ” انسانیت راہ راست پر گامزن ہو جاتی تھی کیونکہ ایسے خُدا مست درویش ہی مخلوقِ خُدا کے لیے ”سنگِ میل ” کی حیثیت رکھتے ہیں اور اِنہی کے پاکیزہ وجود کی نسبت سے دھرتی کا وجود باقی اور حُسن قائم رہتا ہے اگر ایسے خُود شناس و خُدا شناس لوگ دھرتی پر موجود نہ ہوں تو دھرتی بانجھ ہو جائے اوراُس کی کوکھ سے مردانِ حُرکا جنم لینا ناپید ہوجائے ،حافظ الملت رحمة اللہ علیہ نے ساری زندگی سندھ کی پیاسی دھرتی اور بلوچستان کے بے آب و گیاہ صحرائوں میں قال اللہ و قال الرسول ۖ کی صدائے باز گشت سے گُم گشتہ انسانیت کو راہنمائی عطا فر مائی۔

اسلام کی اشاعت کے لئے مسلمانوں نے دنیا کے کسی بھی خطے کو اپنی برکات سے محروم نہیں رکھا وہ جہاں بھی گئے اپنے کردار اور انسانیت نواز ثقافت کو ساتھ لے کر گئے، علم اور مخلوقِ خدا کی خدمت ان کا طرہ امتیاز رہا، مسلمان فاتحین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات روز روشن کی طرح نظر آتی ہے کہ ان کی فتوحات کا ایک عرصہ تک برصغیر میں تسلسل برقرار رہا،جب ہندوستان کے راستے کھلنا شروع ہوئے تو فاتحین کے ساتھ اہلِ علم و ہنر بھی ساتھ آئے اور انسانیت کے دلدادہ صوفیاء کرام بھی آئے ، لیکن باد شاہوں کی خواہش کے باوجود صوفیاء کرام کبھی بھی درباری پالیسیوں کا حصہ نہ بنے ان کا مزاجِ فقر ہمیشہ ہی حیات کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ اور ترویح کے لئے کوشاں رہا ،یہ فقراء عام آبادیوں سے دور اپنی شخصیت کی تکمیل کے لئے مصروف بندگی رہتے تھے جب انہیں اپنے استاذ کی اجازت حاصل ہوتی تو یہ لوگ بڑے مقاصد کی تکمیل کے لئے شہروں کا رخ کرتے تھے اور مخلوق کے درمیان رہ کر مخلوق کی خدمت و اصلاح کا فریضہ سر انجام دیتے ہے وہ بادشاہوں کے درباروں سے دور رہتے تھے لیکن خود خلقِ خدا کے دلوں کے بے تاج بادشاہ تھے۔

Masjid and Roza

Masjid and Roza

بندگانِ خدا نے جہاں ڈیرے لگائے جہاں خانقا ہیں بنائیں علم کے نور کی روشنی میں راہِ سلوک کی منزلیں طے ہونے لگیں۔ بھٹکے ہوئے خیالات،بے سمت اور آوارہ افکار کو منزل ِحق کی طر ف گامزن کیا جانے لگا۔ان عظیم خانقاہوں میں ایک خانقاہ آستانہ عالیہ بھر چونڈی شریف بھی ہے جہاں پر حق کے غلبہ کیلئے ہمہ جہت جدوجہد کی گئی جہاں بندوں کے قلوب واذہان کو خالق معبود برحق کی طرف مائل ومتوجہ کرنے کیلئے ذکروفکرکی ترغیب اور تصوف کی تعلیم دی گئی جہالت کے خاتمے کیلئے علم کے فروغ کی جدوجہد کی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے استبداد کے خلاف علَم جہاد بلند کیا گیا۔اسی خانقاہ کے وابستگا ن اور حافظ الملت جناب حافظ محمد صدیق قادری کے تربیت یافتہ مولانا عبیداللہ سندھی،مولانا تاج محمد امروٹی اور محمد امین خاں کھوسو جیسے حریت کے متوالے اورغلامی کی زنجیریں توڑنے والے مجاہدین میدانِ عمل میں نکلے اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جس کے نقش ابھی تک ذہنوں میں تازہ ہیں۔

خانقاہ بھرچونڈی شریف اس لحاظ سے بھی ایک منفرد اور ممتاز مقام رکھتی ہے کہ اس دورِ زوال میں جب اکثر خانقاہیںامتدادِ زمانہ کا شکار ہوچکی ہیں۔ خانقاہ بھر چونڈی شریف میں علم کی شمع جل رہی ہے۔ آج یہ سلسلہ سجادہ نشین خانقاہ عالیہ بھر چونڈی شریف پیر میاں عبدالخالق القادری کی زیر قیادت علم کی خدمت میں مشغول ہے ،تزکیہ باطن ہورہا ہے،راہِ تصوف کے راہی اپنی منازل طے کررہے ہیں حافظ الملت حافظ محمد صدیق رحمة اللہ علیہ نے ہمیشہ اپنی جماعت کو یہی درس دیا کہ ”دین تکریم انسانیت ، اخوت و محبت اور تحمّل و رواداری کی تعلیم دیتا ہے” آخر اس کا کیا سبب ہے کہ اس وقت دنیا میں پھیلے ہوئے فتنہ و فساد کا ایک بہت بڑا حصّہ مذہب اور نظریات پہ پھیلایا گیا ہے اس الحادِ مغرب کا مقابلہ کہا جائے یا نفاذ اسلام کا نام دیا جائے لیکن اس حقیقت کا انکار ممکن ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پہ کیا جا رہا ہے اور عملی طور پر اس نے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے لیکن قوم کی غلط تربیت کر کے انہیں اس نہج پر ڈالنے والے مذہبی رہنما اپنے شوقِ قیادت میں اسی تباہی و بربادی کے سفر پر گامزن ہیں۔

قافلے برباد ہو کر رہ گئے تو کیا ہوا
مطمئن ہے قافلہ سالار اپنے کام سے
وہ چاہتے ہی نہیں کہ آگ بجھے تاکہ وہ اس قیادت کے ”شرف” سے محروم نہ ہو جائیں
امیر کارواں رہنے کا اتنا شوق ہے اس کو
کہ دانستہ بھی انجام سفر ہونے نہیں دیتا

Peer Abdul khaliq Qadri

Peer Abdul khaliq Qadri

علماء کرام اور مشائخ عظام کا وجود تو بلا شبہ امت کیلئے ایک عظیم رحمت ایزدی ہے لیکن وہ لوگ جو اس روپ میں جلب زر، انا پرستی اور احساس برتری کیحصول میں مگن ہیں وہ سوچیں کہ ہم معاشرہ میں جو مقام حاصل کیے ہوئے ہیں کیا ہمارا یہ عمل اس کے مطابق ہے ؟کیا ہم امت مسلمہ میں افتراق و انتشار کی آگ تو نہیں بھڑکا رہے؟ اگر علماء و مشائخ کے روپ میں تمام لوگ وحدتِ ملت کے سچے جذبوں کو فروغ دیں۔ انا پرستی اور شوق قیادت میں امت کو تقسیم نہ کریں تو ان شاء اللہ نفرتیں ختم ہو جائیں گی۔ زمانہ دیکھے گا کہ مذہب محبت و اخوت کا نام ہے۔ جنگ و جدل اور نفرتوں کا نہیں۔ اور ملت اسلامیہ قتل و خونریزی سے محفوظ ہو کر حقیقتِ دین سے آشنا ہو جا ئے گی۔۔

آ ملیں گے سینہ چاکاں چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
اقبال

اس سلسلہ میں جب حافظ الملت حافظ محمد صدیق رحمة اللہ علیہ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ نے ہمیشہ اپنی جماعت کو اخوت ، بھائی چارہ ، حسنِ سلوک ، صدقِ نیت کا ہی درس دیا ہے اور آج یہی وجہ ہے کہ ہندو سندھ کا ذرہ ذرہ محبت کے گیت گا رہا ہے اور آپ کی جماعت کے ہر فرد کی زبان پر محبت ہی کا نغمہ ہے کیونکہ جن کی زبان پر ہر وقت ذکر اللہ جاری ہو پھر اُس زبان سے مٹھاس اور چاشنی کا رس ہی نکلنا ہے جس نے لوگوں کے اذہان و قلوب کی کایا پلٹ کے رکھ دی آپ کو اسم ذات سے بے حدعشق تھا بمصداق حدیث شریف من احب شیًٔ اکثر ذِکرہ یعنی جس کو کسی سے محبت ہوگئی اپنے اوقات کواسی کی شاد میں مستغرق رکھتا ہے لیل و نہار ذکر الٰہی میں بسر ہونے لگے جنگل ندی کا کنارہ بقعہ نُور بن گیا۔دُور دُور سے سائل آکر اپنی اپنی خالی جھولیاں فیض ذکر الٰہی سے بھرنے لگے۔ذکر الٰہی طلباء و سالکین کا طرۂ امتیاز بن گیااور آج بھی الحمد للہ یہ فیضان جاری و ساری ہے اور درگاہ شریف کے سجادہ نشین قبلہ پیر عبد الخالق قادری صاحب نہایت ہی جانفشانی کے ساتھ اپنے اسلاف کے دیے گئے سبق کو آگے پھیلا رہے ہیں۔

Masjid and Roza

Masjid and Roza

ہندوسند ھکا معاشرہ ہندوجاتی کے مشرکانہ اثرات سے پوری طرح مسموم ہو چکا تھا تا ہم پہلی صدی ہجری میں سندھ میں مسلمانوں کے ورود کے بعد علماء صوفیاء کی آمد کا سلسلہ بھی جاری ہوا اگرچہ عرب اور سند ھ کے باہمی تعلقات قبل از اسلام بہت پہلے سے تھے عربی زبان کے اثرات ملتان تک کے علاقے کی بولیوں پر بہت زیادہ نمایاں تھے اس لئے سندھی تہذیب پر عربی تہذیب کے اثرات بھی نمایاں نظر آتے ہیں لیکن دلوں کی دنیا کے جغرافیے پر ابھی کوئی ایسا فاتح نہیں اترا تھا جو دلوں کو تا قیامت اپنی ذات کا گرویدہ بنا لے اور یہ غلامی اسے راہِ خدا سے آشنا کردے برصیغیر کے خطہ سندھ میںاہل بیت رسول ۖ کے افراد اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تشریف لائے ۔ چونکہ تربیت رسول ۖ کے اثرات ان کے قلوب کی گہرائیوں تک اتر چکے تھے اور ان کے روز مرہ کے روشن اعمال میں افکار توحید و رسالت کی کیفیات سرمدی نظر آتی تھیں ان کا اوڑھنا بچھونا اطاعت خدا اوررسول ۖ تھا اور ان کی ادائے حیات میں ایک روشن کردار انسان کی خوبصورت طرز معاشرت نظر آئی تھی وہ بولتے تو انسانیت نوازی کی عطائے بے بہا کا اظہار ہوتا تھا اور ان عمل جا ذبیتِ دل کیلئے انجانا سا مقناطیس تھا۔

باب الاسلام سندھ میں نور اسلام کا سورج نصف النہار پرپہنچ چکا تھا کیو نکہ صوفیاء اور سادات کرام کی مساعی جمیلہ نے غربت کے مارے پسماندہ نیچ ذات کے لوگوں کو ذائقہ ایمان سے آشنا کردیا تھا اور طبقہء امرا کے احساس دروں کو جھنجوڑا تھامعاشرتی حوالے سے بڑے افراد بھی اسلام کی غلامی کا طوق ِنجات زیب گلو کر چکے تھے اس لئے حکومت اور عوام میں اسلامی معاشرے کا ایک تغیر برپا ہوا اور بے دینی کے اثرات معاشرے پر بھی مرتب ہوتے لیکن خانقاہی نظام کو زوال کے باوجود اصلاح و تغیرات کے سلسلے میں ایک اہم کردار حاصل رہا ہے تیرھویں صدی ھجری میں بر صغیر کے عمومی سیاسی حالات کے اثرات سندھ کی سیاسی حکومتوں پر اور عوام کے حالات پر براہ راست اثرا نداز ہوتے اور انگریزی حکومت کی جبر و قہر کی دنیائے احکامات میں مسلمان روحانی قیادت پوری طرح مجاہدانہ کردار ادا کرتی ھے ان کے نزدیک حکم خدا و رسول ۖ کی تنفیذکو اولیت حاصل ہے اس لئے انہوں نے تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ فکر ی و عملی جہاد کا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ عملی جہاد میں کارھائے نمایاں انجام دیئے کہ انگریز کے پائو ں اکھڑ گئے ،سندھ کی مجاہدانہ خانقاہوں میں سر فہرست پیر صاحب پا گارہ اور ان کی ذیلی خانقاہوں میں خاص طور پر خانقاہ عالیہ بھر چونڈی شریف نظر آتی ہیں۔

Mazar Hazrat Hafiz-ul-Milllat

Mazar Hazrat Hafiz-ul-Milllat

خانقاہ بھر چونڈی شریف کے مربی اور شیخ ِ اول حافظ محمد صدیق صاحب ایک روشن فکر صوفی اور بالغ النظر مرشد تھے وہ اپنے مریدوں کو ایک صالح مسلمان کی شکل میں اسطرح سے تیار کرتے تھے کہ وہ مرید شریعت اور طریقت پر کار بند نشہ اذکار میں مخمور نظر آتا تھا توحید ورسالت کے اس نشہ دوام میں مخمور شخص اپنی حیات مستعار کو ہتھیلی پر اٹھائے کو چہء محبوب میں لئے پھرتا ہے کہ جونہی محبوب دولت کدہ کرم سے بر آمد ہو تو جاں نذر کر دے سید احسان گیلانی نے خوب لکھا ہے کہ ”جہاد بالسیف اور جہاد با لسان بھر چونڈی شریف کی پہچان ہے ر عبید اللہ سندھی نے لذت ِایمان کا پہلا جام اسی خانقاہ سے نوش کیا ، حضرت حافظ محمدصدیق رحمہ اللہ علیہ نے نگاہِ باطن سے عبید اللہ سندھی کے ظلام قلب میں ایمان کی کرن اتاری اور پھر اس کے خورشید ایمان کو نصف التھار پر پہنچاکر برصغیر کے فکری و انقلابی ایوانوں کودورِ نو کی تمازت عطا فرمائی انقلاب کے غلغلے زارستان روس تک بلند ہوئے عبیداللہ سندھی کون تھے ؟ وہ کیا تھے ؟ وہ کیا چاہتے تھے ؟ان کی چاہت کی اساس کی قوت کا مرکز کہاں تھا؟۔

بھر چونڈی شریف کی خاموش خانقاہ سے آج کی تاریخ کھلی آنکھوں سے منہ پھاڑے حیرت زدہ انداز میں سوال کر رہی ہے کہ اس خانقاہ کا ایک رجل ِرشید اتنا بڑا آفاقی کردار ادا کر کے کہاں جا سو رہا ہے خانقاہ دور جدید کا طالب اور مرید بھی اس حقیقت کا متلاشی ہے کہ وہ خانقاہ کے مایہ ناز سپوتوںکے ماضی اور احوالِ مافیہ سے باخبر ہوناچاہتے ہیں کیونکہ برصغیر کی فکرِ آزادی اور تحریک آزادی میں ایک ممتاز مگر مظلوم نام عبید اللہ سندھی کا ہے اسے تاریخ آزادی میں کس فہرست میں رکھیں وہ صوفی مجاہد ہے یا روایتی جذباتی نا آشنائے فراست ، حلقہ زاہدین خشک جماعت کا نمائندہ ہے ؟ عبید اللہ سندھی کے بارے میںیہ تحقیق بھی ضروی ہو گئی ہے کہ بارگاہ رسالت ۖ کا بلالی غلام تھا یا محض حلقہ اسلام کا روایتی تابع فرماں تھا یہ سوال بھی تاریخ کے مطالعے کے بعد اٹھتا ہے کہ وہ صحرائے بھر چونڈی کا مجنوں تھا یا لیلی نجد کا متلاشی تھا ؟۔

Masjid and Roza

Masjid and Roza

مجھے خانقاہ شریف کے لنگر خانے کیلئے پا برھنہ ہو کر لکڑیاں چننے والے عبید اللہ سندھی کے بارے میں کچھ مختصر لکھنا ہے کہ وہ ادائے غلامی میں ہررسم محبت ادا کرتا تھا اور پھر بھی کہتا کہ ایک بھی رسم محبت ادا ہو نہ سکی یہی مولانا عبید اللہ سندھی جب شیخ حضرت حافظ الملت کے روضہ پر حاضری دیتے اور روضہ کی طرف منہ کر کے مراقبہ کی کیفیت میں ہوتے تو اپنے خلفاء کو سختی سے منع کرتے کہ مجھے کبھی آگے سے آکرآواز نہ دینا تاکہ میری عبادت میں خلل نہ واقع ہواور دوران ِ مراقبہ جو انوارو تجلیات مجھے نصیب ہوتے ہیں اُن میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں ہے۔

رندوں کی مہ خانے میں ہررسم عبادت ہوتی ہے
دلبر کو بٹھا کر پیشِ نظر چہرے کی تلاوت ہوتی ہے

مولانا عبید اللہ سندھی کی اپنے مُرشد پاک سے محبت کا عالم یہ تھا کہ ایک لمحے کی جُدائی روضہ پاک سے بھی برداشت نہیں ہو رہی تھی ، مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں کہ ”میں نے جب تقوےة الایمان کتاب پڑھنا شروع کی تو مجھے محسوس ہوا کہ اپنے شیخ سے دور ہو رہا ہوں فوراََکتاب پڑھنا ترک کر دی پھر مجھے جب اپنے شیخ کے نظریات سے آگاہی ہوئی تو ”فتوح الغیب ”کا مطالعہ شروع کردیا مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے مرشد کے اورقریب ہوتا جا رہا ہوں اور مجھے ان کا روحانی تصرف اور زیادہ حاصل ہونے لگا ہے ، حافظ الملت حافظ محمد صدیق نے اپنے مریدوں کی تربیت اس انداز سے کی ہے کہ جن کا اوڑھنا بچونا اپنے مرشد کی محبت ہے ۔ سربراہ اکیڈمی نے نہ صرف ”حافظ الملت رحمة اللہ علیہ ” کی جملہ امانتوں کو سنبھا لا ہوا ہے بلکہ پوری توانائی اور تندہی سے آپ کے آفاقی اور کائناتی مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور بھر پور منصوبہ بندی کے ساتھ عصری تقا ضوں میں بھی ڈھال رہے ہیں۔

Dawat Nama 2016

Dawat Nama 2016

جدھر بھی نگاہ جاتی ہے اکیڈمی کے لگائے ہو ئے خدمت انسانیت کے گُلاب کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے اکیڈمی کا یہ لا فانی اور آفاقی پیغام آج وطن عزیز کے درجنوں شہروں میں رحمت کے با دلوں کی طرح چھا چکا اور خوشبو کے کومل جھونکوں کی طرح پھیل چکا ہے واضع رہے کہ ہنی بال ، اسکندر و دارا ، ہلاکو ، چنگیز اور طغرل و سنجریٰ ”فاتح ِ عالم ” نہیں ہوئے فقر و درویشی کے سانچے میں ڈھلی محبت ہی درحقیقت فاتح ِزمانہ اور فاتح ِعالم ہو تی ہے محبت اور خدمت انسانیت ہی اکیڈمی کا طغرائے امتیاز ہے سربراہ کی مثبت سوچ اوراکیڈمی کی ٹھوس کار کردگی نے ثابت کیا ہے کہ اچھے بیج اگر سمندر میں بھی پھینک دیئے جائیں تو ٹاپو اُگ آتے ہیں خون ِ جگر سے آ بیاری کی جائے تو صحرائوں میں بھی لالہ زار لہلہانے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عزم راسخ ہو تو خنجر کی دھار سے بھی مرہم ٹپکایا جا سکتا ہے ،حضرت شیخ اعظم حافظ الملت حافظ محمد صدیق رحمة اللہ علیہ نے 10جمادی الثانی 1308 ہجری وصال فرمایااوربھر چونڈی شریف ضلع ڈہرکی (سندھ )میں آج بھی آپ کا مزار زیارت گاہِ خواص و عوام ہے آپ کے بھیجتے حضرت شیخ پیر عبد اللہ آپ کے جانشین ہوئے کیونکہ آپ نے شادی نہیں کی تھی ہر سال 9اور10جمادی الثانی کو اسی تاریخ پر آپ کا عرس مبارک بڑے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے ہزاروں نہیں لاکھوں انسان اس تقریب سعید میں شرکت کرتے اور حلقہ ذکر الٰہی میں شامل ہو کر اپنی زنگ آلودہ الواح کو نئی زندگی دیتے ہیں۔

نوٹ : 19مارچ 2016ء بروز ہفتہ آپ کا سالانہ عرس مبارک بھر چونڈی شریف (سندھ ) منعقد ہو رہا ہے ،شائع فرما کرمہر بانی فرمائیں۔

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
چیئرمین : ایوان ِ اتحاد پاکستان ، خطیب مرکزی جامع مسجد مدینہ شریف ، اعوان ٹائون ، لاہور
03314403420