مہاکمب میلہ ٢٠١٣ء الہ آباد

Mela

Mela

تحریر: میر افسر امان
میلے تو قدیم زمانے سے ہر ملک میں منعقد ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں ۔اس میں لوگ مذہبی اور ثقافتی سرگرمیاں مناتے ہیں، جس میں تفریح کے ساتھ اپنے علاقوں کی ضرورت کی اشیاء کی خرید فروخت بھی ہوتی ہے۔مختلف قسم کی کھیلوں کے مقابلے بھی منعقد ہوتے ہیں۔کم و بیش سب ہی شہری ان میلوں میں شریک ہوتے ہیںجن میں بچے، بڑے، نوجوان، بوڑھے اور خواتین شامل ہوتیں ہیں۔ لوگ مختلف قسم کے جانوروں، جس میں گھوڑے، اونٹ، گائے، بیل گدھے شامل ہیں پرسوار ہو کر میلوں میں آتے ہیں۔ اکثر میلے جب سال میں فرست کے مہینے ہوتے ہیں تب منعقد کیے جاتے ہیں۔ کاروباری حضرات اپنا اپنا مال فروخت کے لیے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ میلے میں شریک لوگ کھانے پینے اور پہننے کی اشیاء خریدتے ہیں ۔گویا ہر قسم کی خوشی کا موقعہ ہوتا ہے جس سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ بقول شخصے ہر کسی کواپنا اپنا غم غلط کرنے کا موقعہ ملاتا ہے۔ اکثر ملکوں میں میلے کی جگہ نمایشوں نے بھی لی ہے۔

نمایشوں میں بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو میلوں ٹھیلوںمیں ہوا کرتا تھا۔ہم نے ٹی وی چینل ڈسکوری میں ہندوئوں کا یہ ایک عجیب و غریب میلہ دیکھا ہے۔ تعداد کے لحاظ سے ہندوئوں کا دنیا کا سب سے بڑا اور پر امن اجتماع ہوتا ہے ۔پھر بھی آپس میں لڑائیاں ہو ہی جاتیں ہیں۔ ہندو چار میلے ہر بارا سال کی مدت کے بعد منعقد کرتے ہیں۔ہندوئوں کی روایات ہے کہ وشنوکے چار مقدس آنسو جہاں گرے تھے وہاں چار جگہوں پر کمب میلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ایک سب سے بڑا یعنی مہا میلہ ١٤٤ سال بعد منعقد ہوتا ہے۔اس میلے کی تاریخ کا صحیح تعین نہیں ۔ مہا کمب میلہ دو دریائوں، گنگا اور جمنا کے سنگم الہ آباد میںمنایا جاتا ہے۔ اس میں بھارت کے ارد گرد کے ممالک اور دور دراز کے ملکوں کے کروڑوں لوگ شامل ہوتے ہیں۔

kumbhmela Allahabad

kumbhmela Allahabad

اس میلے میں مروجہ چیزیں ،جو ہرمیلے ٹھیلوں میں ہوتی ہیں وہ تو ہوتی ہی ہیں، لیکن کچھ عجیب غریب قسم کی مذہبی یاثقافتی رسمیں دیکھ کرحریت ہوتی ہے ۔ ہندو مذہب میں یہ تو عام رسم یا عقیدہ ہے کہ لوگ اشنان(نہانا) کر کے اپنے گناہ معاف کروا لیتے ہیں اس لیے اس میلے کا بھی سب سے بڑا کام(ایونٹ) اشنان ہی ہے۔ کم و بیش سب لوگ ہی اشنان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اس جدید دورمیں اس میلے میں کیا کچھ ہوتا ہے وہ نا قابل بیان ہے۔ ہندو دانشور آر بی بٹا چاریہ، ڈی پی ڈپسی اور کامہ کے مطابق اسے مذہبی رنگ دینے کے لیے اس کا نام کمب میلہ دیا گیا ہے یعنی ”ہیون” ٢٠١٣ء کے مہا کمب میلے میں ایک کروڑ بیس لاکھ ہندو شریک ہوئے تھے۔ اشنان (نہانے) کے وقت اور نمبر پر ایک دوسرے سے لڑائی چھڑ گئی۔

اس لڑائی کے دوران بارہ ہزارزائرین مر گئے تھے۔ خالصہ سنگھ اور ہندوئوں میں لڑائی ہوئی جس میں سکھوں نے پانچ سوہندوئوں کو مار دیا۔ اس لڑائی میں سکھوں کے بیس آدمی مارے گئے۔یہ لڑائی بغیر اجازت کے کیمپ لگانے پر ہوئی تھی۔مذہبی تہوار کے ساتھ ساتھ یہ کاروباری میلہ بھی ہے۔اس کاروباری میلے میںگھوڑوں کے سوداگر، مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگ اس میلے میں شریک ہوتے رہے ہیں۔بخارا،کابل،عرب، ایران اور دیگر ممالک کے باشندے شریک ہوتے رہے ہیں۔اس میں ہندو راجے، سکھ حکمران اورمسلمان نواب بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔ا س مہا کمب میلے میں ہر طرف زرد رنگ کے لباس پہنے، ہندو اورسادھو ٹریکٹر ٹرالیوں میں سوار ہو کر آتے ہیں۔ٹرالیوں کی قطاروں میں سوار لوگوں کے ہجوم میںزرد رنگ کے لباس میں کوئی نہ کوئی سادھو بیٹھا نظر آتا ہے۔ ایک جگہ عورتوں کونہانے کے لباس پہنے کشتی لڑتے ہوئے دکھایا گیا۔

ہزاروں مادر زاد نگے سادھو ٹولیوں کی شکل میں میلے کی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں۔ میلے میں کہیں کہیں کوئی گائوں کا مکھیا نظر آتا ہے جس کے ارد گرد عوام کا ہجوم ہوتا ہے وہ بڑی شان سے میلے کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔ ٹریکٹر ٹرالیوں،کاروں، بسوں، موٹر سائیکلوں اور جانوروں پر سوار جوق در جوق زائرین میلے کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔درمیانی راستوں کے ارد گرد خیموں کی حد نگاہ تک قطاریں نظر آتی ہیں۔ اگر خیموں کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلاں سادھو کا خیمہ ہے۔ یہ سادھو صاحب اپنا ایک بازو پچھلے بارا سال آسمان کی طرف اُٹھائے ہوئے ہیں جو سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح کا ہو گیا ہے۔

kumbhmela Allahabad

kumbhmela Allahabad

ان کا ارادہ کے کہ یہ بیس سال تک یہ بازو اُٹھاے رکھیں گے پھر ان کو گیان حاصل ہو جائے گا۔اس سادھو کے ناخن ایک فٹ تک بڑے ہوئے تھے۔ ان کے جسم پر راکھ ملی ہوئی تھی۔ طرف ایک کپڑے کی پٹی سے ضروری جگہ ڈھانپی ہوئی تھی ایک سادھو نے قبر کھود رکھی تھی اس میں دفن ہونے کا اراہ کر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ حکومت کے کارندے آئے اور ان کو ایسی حرکت سے روکا اور قبر میں مٹی ڈال کر قبر کو بندکر دیا۔ کہیں کسی کیمپ میں سادھو بیٹھے چرس کے سوٹے لگا رہے تھے یہ سادھو اپنے آپ کو فنا اللہ بنائے بیٹھے تھے۔کیمپوں میں آنے والے مادر زاد نگے سادھوں کی قطاریں نظر آئیں جو اپنے جسموں پر راکھ ملے ہوئے تھے۔ مادر زاد نگے سادھو اشنان کے لیے دھوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کچھ سادھو ایسے بھی نظر آئے جن کے بال برسوں سے بڑے ہوئے تھے جو نہ انسان نظر آتے تھے نہ جانور نہ جانے کونسی مخلوق ہیں۔ مختلف جگہوں پرکچھ مادر زاد نگے سادھو مختلف قسم کے کرتب کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ایسی درجوں قسموں کے سادھوں کی قطاریں میلے میں شریک ہونے کے لیے آ رہی تھیں۔

ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی پتھر کے دور کے لوگ ہیں۔ پتھر کے دور کے لوگوں کی جو تصویریں جدید میڈیا پر دکھائی جاتی ہیںتو وہ بغیر لباس کے تو ہوتے مگر اپنے جسم کے مخصوص حصے درختوں کے پتوں ڈھاپے ہو ئے ہوتے ہیں اور جسم پر راکھ بھی نہیں ملی ہوئی ہوتی ہے۔بہر حال اس میلے میں عام لوگوں زیادہ تعداد مناسب لباس پہنے ہوئی بھی ہوتی ہے۔ مختلف قسم کی اشیاء کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنی پسند کی چیزیں خریدتے ہیں۔کچھ خواتین و مرد صحیح لباس میں بھی اشنان کرتے ہیں۔دیو مالائی کہانیوں کے طور پر ایک شخص کی گردن سے لپٹا ہوا شیش ناگ سامنے اپنا پھن نکالا ہوا ہے بڑے بڑے لوگ قطار بنائے اس شخص کے سامنے احترام سے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں۔ہر کوئی جوکروں کی طرح اپنے فن کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ہم نے اپنی زندگی میں ایسا میلہ نہیں دیکھا ۔کیا اس جدید دور میں ایسی غیر مہذب حرکتیں کرنا مناسب ہیں ۔ گو کہ یہ ہندوئوں کا ذاتی معاملہ ہے پھر بھی کیا بھارت کی حکومت اس مہا کمب میلے میں کوئی اصلاح کرنے کی سوچ رکھتی ہے یا دنیا میں اپنی مذہب اور ثقافت کا یوں ہی مذاق اڑتا دیکھتی رہے گی۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان