ہجرتوں کے عذاب!!!

نئی امنگیں، نئی امیدیں، نئے وطن سے میں جوڑ آیا
میںاس پاک سر زمیں کی خاطرلہو کے چھینٹے نچوڑ آیا
میں ایک دریا عبور کر کے یہاں پہ پہنچا تو یاد آیا
کہ زاد راہ سفر خوشی میں وہیں کنارے پہ چھوڑ آیا
عزیز رشتے ، محبتیں سب وہیں کنارے پہ رہ گئی ہیں
نئے وطن کی محبتوں میں پرانے رشتے میں توڑ آیا
تمام احباب غمزدہ اور عزیز حیران رہ گئے تھے
سوال جنکے سنے تو میں نے مگر ادھورے ہی چھوڑ آیا
یہ المیہ ہے کہ اس سفر میںجو خواب دیکھے بکھر گئے وہ
نظر سے منزل نکل گئی ہے بڑا ہی نازک یہ موڑ آیا
مجھے یقین تھا یہی ہے منزل، سکون کی نیند سو رہا تھا
ہوا جو احساس غلطیوں کا، تو ساتھیوں کو جھنجوڑ آیا
ابھی تلک ہجرتوں کے عذاب دیکھو میں سہہ رہا ہوں
میں بے وطن اجنبی ہوں انجمفلک کوجس دن سے چھوڑآیا

Higrat ke Aazab

Higrat ke Aazab

P. A. Balouchistani

P. A. Balouchistani

پرنس انجم بلوچستانی