میلانیا ٹرمپ کے خطاب کی میشل اوباما کی تقریر میں مماثلت

Milan Trump

Milan Trump

واشنگٹن (جیوڈیسک) میلانیا ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ “اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ اور آپ کے ملک کے لیے لڑے، تو میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ وہ یہی (ڈونلڈ ٹرمپ) ہیں۔” امریکہ میں ریپبلکن قومی کنونشن میں منگل کو بھی تقاریر کا سلسلہ جاری رہا جس میں معیشت پر توجہ مرکوز رہی۔

اس سے قبل متوقع صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ نے خطاب میں اپنے شوہر کو “ایک کمال رہنما” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امریکہ میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے تو وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہیں۔

منگل کو ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں جاری کنونشن میں خطاب کرنے والوں میں ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال رائن اور سابق صدارتی امیدوار کرس کرسٹی بھی شامل تھے۔ میلانیا ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ “اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ اور آپ کے ملک کے لیے لڑے، تو میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ وہ یہی (ڈونلڈ ٹرمپ) ہیں۔”

وسطی یورپ کے ملک سلوینا کی تارک وطن میلانیا ٹرمپ کو اس سے قبل اپنے شوہر کی انتخابی مہم کے دوران کم کم ہی دیکھا گیا لیکن کنونشن میں اپنے خطاب کو وہ اپنے ذاتی تجربات کے تبادلے کے لیے استعمال میں لائیں۔ لیکن ان کی تقریر نے کئی سوالات کو اس وقت جنم دیا جب نامہ نگاروں نے یہ اشارہ دیا کہ اس خطاب کا ایک حصہ 2008ء میں ڈیموکریٹک کے قومی کنونشن کے دوران مشیل اوباما کی تقریر جیسا قرار دیا۔

میلانیا ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ “بچپن سے ہی میرے والدین نے ان روایات پر زور دیا کہ تم زندگی میں جو حاصل کرنا چاہتی ہو اس کے لیے سخت محنت کرو، تمہارے لفظ تمہارا عہد ہیں اور تم جو کہو وہ کرو اور اپنے عہد کو نبھاؤ۔ تم لوگوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ۔”

مشیل اوباما نے 2008ء میں جو تقریر کی تھی اس میں ان کے الفاظ کچھ یوں تھے۔” براک اور میں تقریباً ایک جیسی اقدار سے ساتھ پروان چڑھے ہیں، جیسے کہ تم زندگی میں جو چاہتے ہو اس کے لیے سخت محنت کرو، تمہارے لفظ تمہارا عہد ہیں، تم وہی کہو جو تم کرو گے، لوگوں کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آؤ۔”

ٹرمپ کی مہم سے وابستہ افراد نے منگل کو اس “مماثلت” کی وضاحت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ میلانیا کی تقریر تحریر کرنے والوں نے “ان کی زندگی کے واقعات اور خیالات سے متعلق نوٹس لیے‘‘ اور اسی نا پر میلانیا ٹرمپ کی تقریر تیار کی گئی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ “میلانیا کے بطور تارک وطن تجربہ اور امریکہ کے لیے ان کی محبت اس خطاب میں چمکتی رہی جس نے اسے کامیاب (خطاب) بنایا۔”