شدت پسند امریکا و یورپ

Militants America

Militants America

تحریر : حنظلہ عماد
شدت پسندی و انتہا پسندی، یہ الفاظ کی اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں کہ ذہن میں وارد ہوتے ہی دھیان مسلمانوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں سے بھی بالخصوص پاکستان، عراق، شام اور پھر ان ملکوں کے دینی طبقات …بجاطور پر ایسی ہی تصویر ذہن میں ابھر کر سامنے آتی ہے۔ شدت پسند افراد کا سوچتے ہی لمبی داڑھی ، ٹخنوں سے اونچی شلوار اور اسی طرح کی دیگر علامتیں ذہن میں آتی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ میڈیا نے ہمیں آج تک جتنے بھی شدت پسند دکھائے ان کا حلیہ کم و بیش ایسا ہی تھا یا کم از کم میڈیا میں انھیں ایسا ہی پیش کیا گیا تھا۔ لیکن شدت پسندی و انتہا پسندی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو میڈیا کی نظروں سے اوجھل تو نہیں لیکن اسے واضح بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ یہ شدت پسند وہ لوگ ہیں جو بظاہر ہمیں لبرل، سیکولر، روشن خیال اور اعتدال پسند نظر آتے ہیں مگر ان میں انتہاپسندی کی تمام علامتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں بلکہ انتہا پسندی کے لیے طے کردہ ہمارے معیار سے بڑھ کر شدت پسندی ان کے ہاں موجود ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سے افعال ہیں جو کسی بھی گروہ یا فرد کو شدت پسند یا انتہا پسند بناتے ہیں۔ عصرحاضر میں اگر ہم دیکھیں تو ایسے لوگ جو اپنے ہی نظریے پر اصرار کریں، دوسروں کو اپنے نظریے پر عمل کرنے پر مجبور کریں اور اس مقصد کے لیے قوت کے بے دریغ استعمال سے بھی نہ جھجکیں حتیٰ کہ مخالفین کے خلاف قوت کے استعمال میں انھیں جان تک سے مار ڈالیں، شدت پسند کہلاتے ہیں۔کم و بیش یہی خصائص ہیں جو اگر کسی گروہ یا فرد میں پائے جائیں تو اسے شدت پسند یا انتہا پسند کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں یہ خصوصیات کس قدر ہیں اس سے تو گاہے بہ گاہے میڈیا مبالغہ آرائی کے ساتھ ہماری ذہن سازی کرتا رہتا ہے۔

لیکن یہی اثرات اور خصائص اس دنیا کے لبرل اور سیکولر جانے جانے والے افراد اور ممالک میں شاید مسلمانوں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔شدت پسندی کا جو الزام مسلمانوں اور بالخصوص چند ممالک کے مذہبی لوگوں پر تھوپا گیا ہے اوراس بنیاد پر مسلمان ہمیشہ صفائیاں دیتے اور معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے رکھتے ہیں، وہی شدت پسندی آج ہمیں یورپ اور امریکا میں اپنی انتہائوں کو چھوتی ہوئی ملتی ہے۔ ممکن ہے کہ یورپ اور امریکا کے نام پر آپ جزبز ہوں اور اس رائے سے اتفاق نہ کریں کہ وہاں شدت پسندی کیسے ہوسکتی ہے؟ وہ ممالک تو ہیں ہی لبرل اور وہاں تو ہر کسی کو آزادی حاصل ہے کیونکہ یہی ان ممالک کا دستور ہے۔ لیکن حقائق جو چغلی کھارہے ہیں وہ کچھ مختلف ہے۔

America

America

مغربی میڈیا ہی کی رپورٹوں کے مطابق یورپ اور امریکا میں شدت پسندی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔انتہائی دائیں بازو کے گروہ اپنی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ دہشت گرد سمجھی جانے والی جماعتیں بھی عوام میں قبول حاصل کررہی ہیں۔اس نظری گفتگو کو مثالوں سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا میں اس وقت صدارتی انتخابات کے لیے امیدواروں کا چنائو جاری ہے۔ لبرل اور سیکولر سمجھے جانے والے اس ملک میں صدارتی امیدوار بننے کے خواہاں لوگوں میں ڈونلڈ ٹرمپ ، ہیلری کلنٹن اور کچھ دیگر نام شامل ہیں۔ ان میں ڈونلڈ ٹرمپ نمایاں طور پر اور کچھ دیگر غیر نمایاں طور پر واضح شدت پسندی کے نظریات رکھتے ہیں۔ مثلاً اگر بات ڈونلڈ ٹرمپ کی کی جائے تو اس کے بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ مسلمان امریکہ کے لیے خطرہ ہیں، اس لیے انھیں یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ مساجد کو بند کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردی ختم ہوسکے۔ صدارتی دفتر بیت المقدس میں بنے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بیانات صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ دیگر تمام اقوام کے خلاف ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کی قبیل سے تعلق نہیں رکھتے۔ مثلاً میکسیکو کے خلاف جارحانہ بیانات، سیام فام لوگوں سے نفرت کا اظہار وغیرہ۔

امریکی لبرل ازم کے دلدادہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی بیانات ہیںاورامریکی عوام تو ایسی نہیں ہے۔ لیکن ان کی خدمت میں کچھ حقائق پیش کیے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس شدت پسندانہ پالیسی کے بعد امریکا بھر میں مسلمانوں پر حملوں میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ مساجد پر خنزیر کی چربی یا خنزیر کے گوشت کے ٹکڑے پھینکنا، مسلمان خواتین جو حجاب یا نقاب اوڑھتی ہیں انھیں تضحیک کا نشانہ بنانا بلکہ جسمانی و ذہنی تشدد اور قتل تک کے شواہد موجود ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کے بعد یہ سب مسلسل تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ لوگ اسے نہ صرف پسند کررہے ہیں بلکہ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے انھی موصوف کو صدارتی امیدوار نامزد کیے جانے کا قوی امکان ہے کیونکہ نیویارک میں یہ پرائمری کاالیکشن جیت چکے ہیں۔ الغرض ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی اسی شدت پسندی کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ جو مغربی میڈیا مسلمانوں کے لیے ثابت کرنا چاہتا ہے۔

امریکا کے علاوہ اگر یورپ میں نظر دوڑائیں تو انتہا پسندی یہاں بھی اپنے پر پھیلائے نظر آتی ہے۔ یورپ میں انتہائی بائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں مقبولیت حاصل کررہی ہیں۔ اس کی واضح مثال اور ثبوت یورپی یونین کے حالیہ الیکشن میں فرانس کی جماعت فرنٹ نیشنل اور سویڈش ڈیموکریٹس کی سربراہی میں انتہا پسند جماعتوں نے اس قدر مقبولیت حاصل کی ہے کہ وہ باقاعدہ یورپی یونین بلاک میں ایک گروپ کی حیثیت اختیار کرگئی ہیں اور انھیں یورپی یونین کے فنڈز تک رسائی حاصل ہوگئی ہے ماضی میں ان جماعتوں کو کبھی قابل ذکر ووٹ نہ ملے تھے لیکن یورپ کی عوام میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے باعث یہ جماعتیں بھی اقتدار میں آنے کے لیے پرتول رہی ہیں۔ یورپی یونین کے سربراہ فرانس کے علاوہ اگر دیگر ممالک کی بات کی جائے تو حالات ہر جگہ ایک سے ہی نظر آتے ہیں اور شدت پسندی کی اس لہر میں پورا یورپ ہی گھرا ہوا ہے۔

Election

Election

اسی طرح اگر برطانیہ کی بات کی جائے تو یہاں یوکپ نامی جماعت جسے برطانوی موقع پر ست بھی گردانتے ہیں، نے جنرل الیکشن میں ہر دس میں ایک سے زائد ووٹرز کو ایٹریکٹ کیا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں قوم پرست جماعتوں نے دیگر تمام اپوزیشن کو پچھاڑ دیا ہے آئرلینڈ کی ایک جماعت جسے برطانوی دہشت گرد جماعت کہتے ہیں ،سیاست میں آگے کی طرف رینگتی دکھائی دیتی ہے۔ یونان میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت گولڈن ڈان نے گزشتہ سال نصف ملین سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ یاد رہے کہ یہ گولڈن ڈان وہی جماعت ہے جس نے یونان میں مہاجرین کی نہ صرف مخالفت کی تھی بلکہ ان مہاجرین پر حملوں میں بھی ملوث تھی۔ اٹلی میں فاررائٹ اینٹی امیگریشن ناردن لیگ نے حالیہ الیکشن میں ملک کے ان حصوں میں مقبولیت حاصل کی ہے کہ جو بائیں بازو سے متعلق خیال کیے جاتے تھے۔ ڈنمارک میں پہلے سے ہی دائیں بازو کی اینٹی امیگریشن پیپلز پارٹی 20فیصد سے زائد ووٹ لے چکی ہے اور آئندہ انتخابات میں یہ مقبولیت مزید بڑھنے کے قوی امکانات ہیں۔ جرمنی جو یورپی یونین کے اہم عہدیداروں میں شامل ہے، یہاں بھی دائیں بازو کی جماعتیں مقبولیت پکڑ رہی ہیں۔ یہاں بھی مہاجرین کی رہائش گاہوں پر نہ صرف حملے ہوئے ہیں بلکہ ان کو آگ بھی لگائی گئی ہے۔

الغرض یورپ میں ہر جگہ یہی لہر ہے۔ ان تمام انتہا پسند جماعتوں کے نظریات تقریباً ایک سے ہیں۔ جغرافیائی تنوع کے اعتبار سے تھوڑے بہت اختلاف ہیں لیکن بنیادی معاملات مشترک ہیں۔ مثلاً یہ تمام جماعتیں یورپ میں عیسائی اقدار سے مضبوطی سے چمٹی ہوئی ہیں اور ان عیسائی اقدار کو یہاں بسنے والے تمام لوگوں پر بزور قوت نافذ کرنا چاہتی ہیں۔کسی بھی دوسرے گروہ یا نظریے کے لیے عدم برداشت انتہا کی حد کو چھورہی ہے۔ اس کی مثال ہمیں نقاب پر پابندی ، مساجد کے میناروں پر پابندی، اذان پر پابندی، پیرس کی سڑکوں پر نماز ادا کرنے پر پابندی اور مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ان گروہوں یا جماعتوں کا موقف ہے کہ یورپ میں صرف سفید فام لوگوں کو رہنے کا حق ہے اور وہی یہاں کی سہولیات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ دیگر تمام افراد کو یہاں سے نکل جانا چاہیے یا بصورت دیگر ان اصولوں کو اپنانا چاہیے جن کا پرچار یہ کرتے ہیں۔ ان اصولوں میں سرفہرست اسلام سے لاتعلقی اور عیسائیت کی وفاداری شامل ہے۔اس تعصب کا اولین نشانہ مسلمان بنتے ہیں اور بعد ازاں دیگر جن میں سیاہ فام لوگ بھی نمایاں ہیں۔ اسی وجہ سے ان تمام ممالک میں مہاجرین کے لیے انتہائی سخت رویہ پایا جاتا ہے۔ ان کے خلاف مظاہرے، احتجاج اور حتیٰ کہ یہ جماعتیںان مظاہرین پر حملے بھی کرواتی ہیں۔

یہ سب اس وجہ سے ہے کہ مغرب نے ایسا نظام تشکیل دیا کہ جو خلاف فطرت ہے ۔ ایک بلبلے کی مانند اس نظام کی حقیقت اب سامنے آرہی ہے۔ مزید برآں ہمارے ملک کے ان لبرلز کو بھی ان حالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انتہا پسندی کا جو الزام مسلمانوں پر تھوپا جارہا ہے اس کا اصل حقدار کون ہے؟ یورپ ہی کے بعض اہل دانش کے نزدیک یہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی نہ صرف سنگین خطرہ ہے بلکہ یہ یورپی یونین کی تقسیم کا باعث بھی بن سکتی ہے۔الغرض یورپ اور امریکا کو اپنی اس انتہاپسندی سے نمٹنے کی ضرورت ہے کہ جس کی وجہ سے یہ دنیا جہنم کا منظر پیش کررہی ہے، ناکہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑا کر مزید معاملات خراب کرنے کی۔

Hanzala Ammad

Hanzala Ammad

تحریر : حنظلہ عماد