فوجی عدالتیں مخصوص لوگوں کے لئے ستعمال کی گئیں، شاہ محمد اویس نورانی

JUP

JUP

کراچی : جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلی شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی حمایت کرنا اور نہ کرنا نتائج پر مبنی ہے، فوجی عدالتوں سے جس قسم کے نتائج کی امیدیںتھیں وہ پوری نہیں ہو سکی،جن کیسز کی اہمیت زیادہ تھی اور ان سے قومی اور عوامی مقاصد وابستہ تھے انہیں ادھورا چھوڑ دیا گیا۔

شہدائے بلدیہ فیکٹری اور شہدائے نشترک پارک کے فیصلے اب تک کیوں نہ ہوسکے؟12مئی کے سانحہ میں جو وکلاء جلائے گئے ان کیا جوابدہ کون ہے؟عوام اور سیاسی جماعتوں نے فوری انصاف کے وعدے پر فوجی عدالتوں کو کسی نہ کسی صورت قبول کرلیا، مگر مجرم آج بھی آزاد ہیں، قتل کے سینکڑوںمجرموں میں سے صرف چند ایک کو سزا دی جا سکی،اگر فوجی عدالتوںمیں بھی سال کے سال کیس فارغ ہو رہے ہیں تو پھر سول عدالتوں کا نظام کیا برا ہے؟ان عدالتوں کو محدود رکھا گیا ہے، یا مکمل حکمت عملی نہیں دی گئی۔

لسانیت، عصبیت اور ملک دشمن مجرم ان عدالتوں کی پہنچ سے دور ہیں،کراچی سمیت سندھ بھر کے ایسی کیسز بھی ان کے سپرد کئے جائیں،اگر فوری نتائج اور منصفانہ کاروائی کی ضمانت دی جائے تو ملٹری کورٹس کی حمایت کرسکتے ہیں،کراچی ڈویژن کے مختلف علاقوں کے دورے کے موقع پر عوام اور خادمین جمعیت سے اظہار خیال کرتے ہوئے جمعیت علماء پالستان کے مرکزی رہنما اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ فوجی عدالتیں مخصوص لوگوں کے لئے ستعمال کی گئیں۔

قوم کے مجرم آج بھی آزاد اور سزا سے بری ہیں،ان عدالتوں سے 12مئی، سانحہ نشتر پارک، سانحہ بلدیہ اور کراچی میں جاری قتل و غارت گری کے کیس کیوں حل نہیں ہوسکے؟نشترپارک سانحہ میں ایم کیو ایم براہ راست ملوث تھی، 63علماء کرام کی شہادت نا قابل تلافی نقصان تھا،ٹمبر مارکیٹ، بولٹن مارکیٹ، کراچی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، بوری بند لاشوں کے کیسز کب حل ہونگے،اگر فوجی عدلتیں بحال کی جاتی ہیں تو پھر خود مختار شرعی عدالتیں بھی نافذ کی جائیں اور شرعی جج کو اختیار دیا جائے کہ وہ کسی بھی حساس کیس کو شرعی عدالت میں منتقل کرسکے۔

ناموس رسالت، ختم نبوت اور اس ضمن کے تمام کیسز مکمل طور پر شرعی عدالت کے سپرد کئے جائیں،قرآن کے قوانین کو مغرب زدہ نظام عدل پر برتری دی جائے،شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ بتایا جائے کہ عالمی سعودی فوج کے مقاصد کیا ہیں؟کیا یہ فوج کشمیر اور فلسطین کو آذاد کروا سکتی ہے؟کیا یہ فوج برما اور میانمر جائے گی؟۔

اگر یہ فوج تمام اسلامی ممالک کی نمائندہ نہ ہوسکی تو جنرل راحیل متنازعہ شخصیت بن سکتے ہیں، بہتر یہ ہوتا کہ اس فوج کا مرکز ترکی یا مراکش میں ہوتا،ایسا تو نہیں کہ مستقبل قریب میںعراق، ایران، شام، لبنان کسی مشترکہ فوج کا اعلان کر دیں۔

ایسی کسی صورتحال میں یہ مسلمانوں کی عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے،اس موقع پر جمعیت علماء پاکستان صوبہ سندھ کے رہنما عبدالمجید اسماعیل نورانی بھی موجود تھے۔

نورانی میڈیا سیل جمعیت علماء پاکستان