ملت اسلامیہ کی بیداری مگر کب ؟ ؟ ؟

Islam

Islam

تحریر: سفینہ نعیم
خیرو شر کی کشمکش اس وقت سے جاری ہے۔ جب تخلیق آدمیت ہوئی اور شیطان سجدہ ریزی سے انکاری ہوا۔اس کے بعد نیکی اور بدی میں معرکہ آرائی کاوہ سلسلہ شروع ہواجو شاید قیامت تک جاری رہے۔ قرطاس و قلم گو اہ ہیں۔اور چشم فلک بھی شاہد ہے۔ کہ کبھی آدم کے سامنے ابلیس اکڑ گیا تو کبھی ابراہیم کا راستہ نمرود نے روکا ‘کبھی موسی کے ساتھ ٹکر لینے کے لیے فرعون آن کھڑا ہوا۔تو کبھی حضرت محمدۖ کی منزل کا نشان مٹانے کے درپے ابو جہل و ابو لہب ہوئے۔

قیصرو کسٰری کے تاج گرے تو کبھی سقوط بغداد کے زخم لگے ‘ کبھی نورالدین زنگی اور صلا ح الدین ایوبی کی یلغار نے طاغوتی طاقتوں کو بھاگنے پر مجبور کیا ۔تو کبھی سقوط غرناطہ کے مناظر تاریخ کا حصہ بنے ۔ کبھی ایک مظلوم عورت کی آ واز پر لبیک کہتے ہوئے ہزاروں میل کی مسا فتیں بھی طے ہوئیں تو کبھی انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے۔ کبھی کشتیاں جلا ئی گئیں کبھی سومنات کے مندر توڑے گئے۔ کبھی بحر ظلما ت میں گھوڑے دوڑائے گئے۔ تو کبھی فتوحات میر صادق اور میر جعفر کی نذر ہو گیئں۔الغرض وقت کی روانی اور حا لات کی تبدیلی میں کبھی شیطانی قوتوں کا دائو چل گیا توکبھی نیکی و اچھائی غالب رہی مگر موجو د ہ حالات اس لحاظ سے زیادہ تلخ اور بھیانک ہیں ۔کہ مادہ پسندی اور مادہ پرستی کا دور دورہ ہے۔نفسا نفسی کا عالم ہے اخلا قیات انسانی زندگی سے روٹھ گئی ہیں۔محبتوں کی جگہ نفرتوں اور حلا ل کی جگہ حرام نے لے لی ہے۔سادگی کی جگہ بناوٹ تصنع اورریا کاری نے لے لی۔

الیکٹرانک میڈیا اقوام عالم کو اس حد تک اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ کہ اگر صحیح کوغلط دن کو رات جائز کو نا جائز او رسچ کو جھوٹ کہے تو تسلیم کیا جاتا ہے۔رہی سہی کسر دشمنان اسلام نے اس طرح پوری کر دی کہ یہود و ہنود اور نصار یٰ اسلام کے خلاف ملت واحد کا روپ دھار چکے ہیں ۔ جبکہ عالم اسلام ایک اللہ ایک رسو ل ایک قرآن ایک مذ ہب اور ایک قبلہ کے ہوتے ہوئے بھی گروہ بندیوں او رحد بندیوں کے بکھیڑوں میں پڑ ئے ہوئے ہیں ۔دشمنان اسلا م تو آ پس میں ملکی سرحدوں کی دیواریں گراچکے کرنسی کا اشتراک کر چکے مشترکہ خارجہ پالیسی اپنا چکے اور زبان و مکان کی قید سے آ زا د ہو کر اتحاد و اتفاق کا دامن تھام چکے ۔ مگر اسلام کے نام نہاد علمبر دار ذاتی مفادات نسلی تعصبات گروہی تضادات قو میت وطنیت اور انفرادیت کے شیطانی چکروں میں مبتلا ہو کر ایک ایک کرکے صفحہ ہستی سے مٹتے جا رہے ہیں۔اس وقت خطہ ارض پر پچاس سے زائد اسلا می مما لک موجود ہیں ۔ جن کی آ بادی دو ارب سے متجاوز ہے ۔ جو مادی اسباب و وسا ئل سے ما لا مال ہیں۔جن کے پاس تیل و گیس اور سونا و چاندی کے وسیع ذخا ئر ہیں ۔جن کے پاس معدنیات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے موجود ہیں۔

جن کے پاس انفرادی قوت فوجی طاقت اور جہادی جذبے کے ٹھاٹھیں مارتے سمند ر ہیں ۔مگر پھر بھی ہر طرف سر زمین گلستا ن خون مسلم سے ہی رنگین ہو رہی ہے۔ منظم نسل کشی کے جرائم چار سو پھیل رہے ہیں ۔مسجد اقصیٰ کے مبارک محراب و منبر پر لا شے تڑپ رہے ہیں۔ کشمیر کی جنت نظیر وادی آ گ و خون سے لتھڑ رہی ہے ۔ چیچنیا کے راہگزار،کو سو دو کے مرغزار افغانستان کے کوہسار ، بو سنیا کی سر د پو ش وادیاںاور برما کی گلیاں خون مسلم کے نا حق بہنے کی قسمیں کھا رہی ہیں۔ جہاں عفت و عصمت تار تار ہوئی اور چادر و چار دیواری کا تقدس پا مال ہوا ۔ اسلام دوستی کی سزائیں بھی دی گئی ۔اور اخو ت و مساوات کو تار عنکبوت بنا دیا گیا ۔ حقوق انسانی پا مال ہوئے اور مظلوموں و بے کسوں کی آ ہیں اور سسکیاں صدا بصحر ا ثا بت ہو ئیں۔ہر دور میں نئے لقب اور نئے تمسخر کے ساتھ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی بنیاد پرست تو کبھی رجعت پسند ،کبھی انتہا پسند ،کبھی القا عدہ تو کبھی طالبان کا نام دیا گیا۔ ان تلخ حالات کے باو جود بھی مسلم سربراہوں کی خوبید گی بیداری میں نہیں بدل سکی۔

ان کے مردہ ضمیر تا حال محو استر احت ہیں ۔ہر حکمران ذاتی مفادات کی بدبو دار تعفن زدہ گرداب میںپھنسا ہوا ہے۔ آ رام دہ سہولتوں س یلطف اندوزی اور عیش و عشرت مقصد حیات بن کر رہ گیا ہے ۔ نہ درد مسلم باقی رہا ہے نہ ملت اسلا می کی نگہبانی کی تڑپ ، نہ کفر کا ہاتھ رو کا جا رہا ہے اور نہ زبان کے تشتر پر کوئی قد غن لگ رہی ہے ۔ نجی محفلیں ہوں یا قومی مجالس ، بین الا قوامی اجتماع ہوں یا انٹر نیشنل کا نفرنسز ، او۔آئی ۔سی کا پلیٹ فا رم ہو یا رابطہ عا لم اسلامی کا فورم ،عرب لیگ ہو یا کوئی دیگر ادارہ ، ہر جگہ زبانی جمع خرچ ، اخباری بیانات ، فوٹو سیشن اور ڈھیلے ڈھالے غیر موئژ اعلامیے کے علا وہ کچھ نہیں ہوتا۔اور علامیہ بھی ایسا کہ اقوام عالم کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔جبکہ ایسے اجلا سوں کے انتظا مات پر غریب عوام کے کروڑوں روپے اڑ ا دیے جاتے ہیں ۔مہنگے ترین ہو ٹل بک کر لیے جاتے ہیں ۔انواع و اقسام کے کھانے چن دیے جاتے ہیں۔الیکٹر انک اورپرنٹ میڈیا کے نمائندے منتظر رہتے ہیں ۔کہ کب مسیحان قوم فارغ ہوںاور فوٹو سیشن کا اہتمام کیا جاسکے ۔ایسے اجلاسوں،پروگراموں میٹنگوں سے نہ کوئی مسلہ حل ہوتا ہے اور نہ کسی کے زخم بھرتے ہیں۔نہ کسی کے دکھوں کا مداوا ہوتا ہے۔اور نہ فاقوںماری اقوام کی شکم سیری ہوتی ہے۔ نہ دہشت گردی کا سد باب ہوتا ہے۔ اور نہ غلا می کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں۔ نہ آزادی کی صبح نو روشن ہوتی ہے۔

Muslim Country

Muslim Country

نہ کسی کے چاک گریباں پر رفو کا کام ہوتا ہے۔ اگر حقیقت سے جائزہ لیا جائے تو یہ صرف اور صرف نااہل ،بد کردار ، مفاد پرست اور ذاتی انا کے پجاری مسلم حکمرانوں کا قصور ہے۔جو ابھی تک نہ مسلم اْمہ کو متحد کر سکے اور نہ دوست و دشمن کی پہچان کر سکے بلکہ آج تک اقوام متحدہ، سلامتی کونسل ،آئی۔ایم ۔ایف اور ورلڈبینک جیسے جانبدار ، انسانیت دشمن اور بھیڑیا صفت اداروں سے عدل و انصاف کی اُمیدیںوابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے ان اداروں نے آ ج تک مظلو م کی مدد نہیں کی بلکہ ہمیشہ ظالم اور جارح کو تھپکی دیتے ہیں کبھی مسلمانوں کی داد رسی نہیں کی بلکہ ہمیشہ یہودی مفادات کا تحفظ کیا۔بو سنیا میں منظم نسل کشی ہو جائے تو کوئی بات نہیں ۔عراق پر لاکھوں ٹن بارود پھینک دیا جائے تو کوئی بات نہیں ۔فلسطینوں کی بستیاں ٹینکوں سے مسمار کردی جا ئیںتو کوئی بات نہیں ، کشمیریوں کو لفظ غلط کی طرح مٹا دیا جائے تو کوئی بات نہیں،القاعدہ اور طالبان کا لیبل لگا کر پورے افغانستان کو ملیا میٹ کر دیا جائے تو کوئی بات نہیں اوراگر برما کے مسلمانوں کا قتل عام ہو تو کوئی بات نہیںمگر یہودو ہنود اور نصٰاری کے مفادات پر زد پڑ جائے گی تو راتوں رات یہ خونخوار ادارے حرکت میں آجاتے ہیں ۔ آ ن کی آن میں قرار دادیں منظور ہو جاتی ہیں ۔اتحاد بن جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی تیمور کی قسمت میں آزادی لکھ دی جاتی ہے۔الجزائر میں اسلام پسندوں کی کامیابی سے انکاری ہو کر اقتدار فوج کو سونپ دیا جاتا ہے اور افغانستان کی اسلامی حکومتوں کا خاتمہ کر کے پورے ملک کو تورا بورا میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔اور عراق کے خلا ف مہم جوئی تو اس لحا ظ سے بھی شرمناک تھی کہ حملے کے لیے نہ کوئی ٹھوس ثبوت تھا اور نہ کوئی اخلاقی جوازبس غنڈہ گردی تھی ۔جس کے بل بوتے پر مسلم ممالک کے خلاف لشکر کشی کرنا اور تیل پر قبضہ کرنامقصود تھا ۔جس کے لیے نہ اقوام متحدہ سے قرار دادوں کی منظوری کی ضرورت تھی۔اور نہ سلامتی کونسل کی حمایت نہ اقوام عالم کی پرواہ تھی اور نہ عوام الناس کے احتجاج کا خوف نہ مرنے کٹنے اور نہ معذور ہونے والے عراقیوں کی فکر تھی اور نہ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہونے والے مہاجرین کی پریشانی۔موت کے ان سوداگروں کو تو بس خراج چاہیے تھا۔وہ چاہے خون کا خراج ہو یا تیل کا ۔یہ قبضہ گروپوں کی دنیا ہے جس پرحکم صرف قا بضین کا چلتا ہے۔

امریکہ اور اس کے حواریوں کی دیدہ دلیری ،انسان دشمنی اور شقاوت قلبی کی اصل وجہ اقوام متحدہ کی سر پرستی ہے۔حالانکہ جب اقوام متحدہ کی داغ بیل ڈالی گئی تو اسکا مقصد مظلوم کی مدد اور ظالم کو ظلم سے روکنا تھا ۔دشمنیوں کو دوستیوں اور محبتوں کو نفرتوں میں بدلنا تھا ۔قتل و غارت کاسدباب اور عدل و انصاف کا دامن تھام کر اصلاح احوال کی کوشش کرنا تھا مگر اب تو یہ ادارہ بھیڑیوں کی انجمن بن چکا ہے اور کھوج لگانے والے چوروں کے ساتھ مل چکاہے ۔قدرت اللہ شہاب کے بقول پوری دنیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تحت چل رہی ہے۔جب کوئی مقدمہ اقوام متحدہ کے سپرد ہوتا ہے۔تو وہ اپنی پوری کوشش کرتی ہے نہ لاٹھی ٹوٹے اور نہ ہی بھینس مالکان کو واپس ملے ۔گھر والوں سے کہا جاتا ہے کہ بے فکر ہو کے سو جائو اور چوروں سے کہا جاتا ہے شاباش اچھا موقع ہے۔سب کچھ لوٹ لو ۔کیا اب ایسے اداروں سے منصفی چاہی جا سکتی ہے۔کیا یہ امید کی جا سکتی ہے۔کہ یہ امت مسلمہ کی حفاظت کریں گے۔یہ عالمی ادارے اب امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے کو تیار رہتے
ہیں۔تا کہ پاکستان پر طالبان کی حمایت ،القاعدہ کی پنا ہ گاہ کا الزام لگا کرشکنجاکسا جا سکے۔اسی لیے کبھی پاکستان کو ناکام ریاست قرار دیاجاتا ہے اور کبھی آئندہ چند سالوں کے لیے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے غائب کر دیا جاتا ہے ۔کبھی افغانستان کے ہر بڑے شہر میں انڈین کونسل خانے اور سفارت خانے کھول کر پاکستان کو عدم استحکام کا شکا ر کرنے کے منصوبے بنائے جا تے ہیں ۔اور کبھی بلوچستان میں را ء کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔تا کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کیا جا سکے۔کبھی انتہا پسندوںاور کبھی طالبان کا ڈراوا دے کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیر محفوظ قرار دے دیاجاتا ہے۔

الغرض پاکستان کے بٹوارے ،عدم استحکام اور ناکام ریاست کا نعرہ سچ ثابت کرنے کے لیے خونی ڈرامے کا اسٹیج یہودو ہنور اور نصٰاری کے مزاج کے مطابق تیار ہو چکا ہے اوراب صرف خو نی درندے ،،امریکہ ،،کی طرف سے نقارہ بجنے کا انتطار ہے جو ا ب بجا ہی جاتا ہے ۔مگر ان تلخ اور خون آ شام حالات میں بھی مسلم حکمران خواب غفلت کا شکار ہیں مگر آج ہمارے سیاست دان بے شک اپنے مفادات یا حصول اقتدارکے لالچ میںحق و صداقت کا علم بلند کرنے سے گریزاں ہیں۔مگر پاکستان کی مسلح افواج اور غیور عوام آرمی چیف محترم جنرل راحیل شریف صا حب کی قیادت میں متحداور دشمن کے عزائم کو خاک میںملا نے کے لیے پر عزم ہیں لیکن اس موقع پر پوری ملت اسلامیہ کا متحد ہونا بھی بہت ضروری ہے مسلم حکمرانوں کا خواب غفلت سے بیدار ہو کر صف آرا ء ہونا لاز می ہے ورنہ وقت ہاتھ سے گز ر جائے گا اوراگر اب بھی ان حکمرانوں نے اپنی ذمہ داری کااحساس نہ کیاتو اعراق ، بو سنیا ،افغا نستان اور برما کے بعد اب پاکستان کی باری آسکتی ہے ۔اور اس کے بعد نہ جانے کس کا نمبر ہے ۔اور یہ سلسلہ آ خری مسلم کے خون بہنے تک جاری رہے گا۔اور تمھاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔

Safeena Naeem

Safeena Naeem

تحریر: سفینہ نعیم