سانحہ منیٰ سال ٢٠١٥ئ

Tragedy Mina

Tragedy Mina

تحریر: میر افسر امان، کلامسٹ
گزرے سالوں میں بھی حج کے موقعوں پر منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے حادثات ہوتے رہے ہیں لیکن اس سال حج کے موقعہ پر دو سانحوں کی مشکلات سے حجاج کرام کو گزرنا پڑا۔ ایک سانحہ سعودی عرب کے ٹھیکدار، بن لادن کی حرم میں لگائی ہوئی کئی کرینوں میں سے ایک کرین گرنے سے ہوا اور دوسرا حادثہ منیٰ میں کنکریان مارنے کے عمل کے دوران حجاج کرام میں بگڈر مچ جانے سے ہوا۔ حج پر دنیا سے لاکھوں حجاج کرام اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے کے لیے جاتے ہیں گو کہ حج کے فریضے کے موقعہ پر سعودی حکومت نے حجاج کرام کے لیے انسانی دسترس میں جنتے بھی بہترین انتظامات ہو سکتے ہیں کرتی ہے اور کئے ہوئے بھی ہیں لیکن قدرتی آفات سے انسانوں کا رب ہی انسانوں کوبچا سکتا ہے سعودی عرب کے بس کی بات نہیں۔

مسلمانوں کا پختہ حقیدہ کہ تکلیفیں اللہ کی مشیعت کے تحت ہی آتیں ہیں۔ بتاتے ہیںکہ کرین شدید بارش اور طوفان کی وجہ سے مطاف میں گری جہاں حجاج کرام طواف کرنے میں مصروف تھے جس سے سیکڑوں حجاج کرام شہید ہوئے تھے۔ اب منیٰ میں حجاج کرام میں بھگڈر مچنے کی وجہ بھی یہ بتائی جاتی ہے کہ حجاج کرام نے سعودی انتظامیہ کے حج کے قوانین کی خلاف دردی کی جس وجہ سے منیٰ کا سانحہ رونما ہوا۔سعودی انتظامیہ نے شیطان کو کنکریں مارنے کے لئے ایک راستہ جانے کا اور ایک راستہ آنے کا بنایا ہوا ہے مگر حجاج کرام نے انتظامیہ کے متعین کئے ہوئے راستے پر چلنے کے بجائے شارٹ کٹ اختیار کیا جس وجہ سے بھگڈر مچ گئی اور کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں ۔بتاتے ہیں یہ حادثہ منیٰ میں مکتب نمبر ٩٣ جس میں الجزائر کے حجاج حضرات مقیم تھے اس کے باہر روڈ نمبر ٢٠٤ اور٢٣٣ کے چوراہے پر سعودی وقت کے مطابق ٩ بجے پیش آیا۔اس حادثے میں ابھی تک٨٠٠ کے قریب حجاج کرام کی شہادت اور ہزاروںکے زخمی ہونے کی اطلاع ہے مگر یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ جب تک سعودی عرب

Collapsed Crane

Collapsed Crane

کے طرف سے معلومات فراہم نہیں کی جاتیں اس وقت تک شہادتوں کی صحیح اور مکمل صور ت حال کا تعین کیاجا سکتا جو ایک آدھ دن میں ان شا اللہ پتہ لگ جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ شہدا میں ایرانی حجاج کرام کی تعداد زیادہ ہے جس پر ایرانی حکومت نے سعودی حکومت پر تنقید بھی کی ہے ۔ پریشانی اور دکھ تو بجا ہے مگر اسے کاش تنقید کی بجائے اس مشکل کی گھڑی میں ایرانی حکومت صبر کا مظاہرہ کرتی اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے۔ شہدا میں پاکستانی حجاج کرام کی تعداد٢٠ کی تصدیق ہو گئی ہے اور کئی زخمی ہیں۔ جبکہ برطانیہ کے گارجین اخبار نے ٢٣٦ پاکستانی حاجیوں کی شہادت کی خبر شائع کی ہے اس پر پاکستان کی وازارت خارجہ نے نوٹس لیا ہے اور وازارت مذہبی امور نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے یہ خبر غلط ہے۔ ٣٠٠ پاکستانی بچے جو اپنے والدین سے بھگدڑ کے دوران گم ہو گئے تھے۔

مکہ مکرمہ کے چائلڈ پرو ٹیکشن ہوم میں موجود ہیں جن کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ ابھی تک سعودی حکومت کی طرف سے شہدا اور گم شدہ پاکستانی حجاج کرام کا پتہ نہیں چل رہا ایک تو ہلاکتیں زیادہ ہیں اور زخمی بھی کافی ہیںدوسرا سعودی محکمہ صحت کا اپنا طریقہ ہے۔دو دن تک تو منیٰ میں موجودحاجیوں کی طرف سے اپنے رشتہ داروں کو جواطلاحات بذریعہ فون مل رہی ہیں اس سے ہی پتہ چلتا ہے کہ فلاں حاجی صاحب شہیدہوگئے ہیں اور فلاں حاجی صاحب زخمی ہیںکچھ چھوٹی بچیاں بھی اپنے ولادین سے بچھڑ گئیں تھیںایک بچی کا معلوم ہوا کہ وہ اپنے والدین کو مل گئی ہے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان کے عزیز کی شہادت کے خبر ان کے لواحقین کو بھی فون کے ذریعے ملی ہے۔اس طرح آہستہ آہستہ پاکستان کے حجاج کرام کی خبریں ان کے رشتہ داروں کے ذریعے مل رہی ہیں ۔ سیکڑوں پاکستانی حجاج کرام اس تحریر تک لاپتہ ہیں وزیر مذہبی امور و حج جناب سرداریوسف صاحب نے کہا ہے کہ ضروری نہیں کہ جو لاپتہ ہیں وہ ضرور شہید ہی ہو گئے ہونگے۔

Helpline

Helpline

وزارت مذہبی امور کے طرف سے ٹی وی اسکرین پر ہلپ لائن فون نمبر کی پٹیاں بھی چل رہی ہیں جس سے لوگ فاہدہ اُٹھا سکتے ہیں ایک نجی ٹی وی نے اپنے فون نمبر بھی عوام کے لیے پٹی پر چلائے ہیں لوگ اس سے بھی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ درجن بھر حاجی صاحبان ان نمبروں پر رابطہ کرنے سے باز یاب بھی ہو گئے ہیں یہ ایک اچھا عمل ہے نجی ٹی وی کے اس عمل کو سرہانا چاہیے۔ لوگ منیٰ میں موجود رشتہ دار حجاج کرام سے رابطہ کر کے ان کی خریت معلوم کر رہے ہیں ۔سنگنل صحیح نہ ہونے کی وجہ سے بھی صحیح معلومات نہیں مل رہیں۔بہر حال قوم کی دعا ہے کہ اللہ تمام حجاج کرام کو اپنی حفاظت میں رکھے اور وہ حج کے فریضہ ادا کر کے اپنے ملک میں اپنے عزیر و اقارب کے پاس خریت سے واپس آئیں آمین۔ صاحبو!گزشہ سال ہمیں بھی اللہ نے حج کی سعادت عطانصیب فرمائی تھی۔

بیماری کی وجہ سے اپنی مدد کے لیے ہم اپنے درمیانے بیٹے کو بھی ساتھ لے کر گئے تھے ۔کراچی سے ہی ویل چیئر بھی ساتھ لے کر گئے تھے تاکہ تکلیف کم سے کم جائے۔ ہم نے مکہ کے قیام کے دوران سفر نامہ حج تیار کیا تھا جو پاکستان کے کافی اخبارات میں دس اقساط میں شائع بھی ہوا تھا۔ جس میں ہم نے اپنے مشاہدات تحریر کئے تھے۔اُس سفر حج میں ہمارے ساتھ منیٰ سے واپسی پر پیش آنے والے ایک ایسے ہی وقعہ کا بھی ذکر تھا۔

ہماری غلطی تھی کہ ہم نے انتظامیہ کی طرف سے بتایا ہوئے راستہ کو چھوڑ کر شارٹ کٹ راستہ اختیار کیا تھا اور مخالف سمت سے آنے والے کچھ افریکن حجاج کرام کی زد میں آگئے تھے ہمیں ایک زور دار حجاج کرام کے ریلے نے اُٹھا کر ایک طرف پھینک دیا تھا ہم اوراپنی ویل چیئر کے ساتھ گر گئے تھے ویل چیئر کی ربر بھی اتر گئی جو مشکل سے ہمارے بیٹے نے دوبارا ویل پر چھڑائی تھی تب جا کر ہم منیٰ میں اپنے کیمپ میں پہنچے تھے۔ جیسے کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ اگر تمام دنیا سے آئے ہوئے حجاج کرام سعودی عرب حج انتطامیہ کے ساتھ تعاون کریں تو ایسے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسر امان،کلامسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد سی سی پی