چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

Mishal Khan

Mishal Khan

تحریر : غلام حسین محب
اب تک مشال قتل کیس میں تیس سے زائد گرفتاریاں ہو چکی ہیں ۔کیس چلے گا، کس کس کو سزائیں ہوں گی کس کو شک کا فائدہ اور کس کو معافیاں مگر بات اس کیس کے فیصلے تک پہنچنا نہیں بلکہ اس قسم کے الزامات لگا کر اور کتنے مشالوں کو ناکردہ گناہ پرشہید کیا جائے گا۔کیونکہ یہاں عقیدے سے پہلے عقیدت غالب آجاتی ہے اور وہ بھی اندھی عقیدت۔ 13،اپریل تاریخ کاوہ افسوسناک اور تاریک دن ہے جب ایک اور نوجوان مشال خان ”نعرۂ تکبیر” کے بھینٹ چڑھ گیا۔نعرۂ تکبیر کا شکار ہونے والایہ پہلا نوجوان نہیں تھابلکہ ” چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے”۔یہاں بے شمار ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں کہ جب حقیقت سامنے آتی ہے تولوگ اظہار ہمدردی کرنے لگتے ہیں۔یہاں جب کسی پر توہینِ مذہب یا توہینِ رسالت کا الزام لگتا ہے تو حقیقت تک پہنچنے سے پہلے اُنہیں مذہبی جنونیت اور جذباتیت کے شکار لوگوں کے عتاب سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔

یہی عمل عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں دہرایا گیا۔مشال خان جو کہ جرنلزم کا طالب علم تھا اور حساس طبیعت کا مالک تھا جو کسی بھی غیراصولی بات اور ناانصافی کے خلاف خاموش نہیں رہ سکتاتھا یہی وجہ ہے کہ مشال کسی کو ایک آ نکھ نہیں بھایا کیونکہ ”نازک مزاج شاہاں تابِ سخن نہ دارد”۔مشال خان جو اپنے نام کی طرح روشنی کا علمبردار اور تاریکیوں کا دشمن تھا مگر ابھی سحر ہونے میں شائددیر ہے اس لیے تاریک اورڈریکولائی طاقتیں چھا کر مشال کو بجھا کر لے گئیں۔اورامن و محبت کا مذہب اسلام ایک بار پھرتشدد،جنون اور نعرہ بازی کا شکار ہوکربدنام ہوگیا۔ جس پیغمبر کی محبت اور عشق کا دعویٰ کرکے یہ لوگ انتہا پسندی، جذباتیت اور اشتعال پر اُتر آتے ہیں اُس رحمت اللعٰلمین ۖ کی شانِ مہربانی کا تو یہ حال ہے کہ ایک روزمسجد نبوی میں تشریف فرما ہیںاور کہ صحابہ کرام کاایک لشکر فتح کے بعد آپہنچا اورساتھ ہی شکست خوردہ بادشاہ کو رسیوں میں جھکڑا لایا۔صحابہ کرام نے گرفتار شخص کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھااور محسنِ انسانیت کے سامنے اس شخص کا تعارف ثمامہ کے نام سے کرایا۔حضورۖ نے فرمایا بادشاہت کا رُعب اور رعونت شکل سے ٹپکتی ہے خوبصورت اور دراز قد ہو۔اس کے جواب میں ثمامہ نے بُرا لہجہ اپناتے ہوئے حضورۖکے سامنے نازیبا الفاظ کہے جس پر صحابہ کرام غصے سے ااگ بگولا ہوگئے مگر خود حضورۖ نے مسکرا کر فرمایا ثمامہ میری طرف دیکھو،اُس نے پھر غرور اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے رُخ موڑ لیا۔ یہ سلسلہ کچھ روز چلتا رہا اور قیدی ثمامہ کا رویہ اُسی طرح سخت تھا۔ حضورۖ نے فرمایا ثمامہ کی رسیاں کھول دواور ثمامہ کو فرمایا بھاگ جاؤ یہاں سے ،اب تم آزاد ہو۔ آزادی کا سُن کر ثمامہ خوشی سے تیز تیز بھاگنے لگا مگر جلد ہی واپس آکرحضورۖ کی قدموں میں گر کر رونے لگا۔ایمان لاکر نبی کا غلام بن گیا۔یہ اپنے چچا کے قاتل وحشی کو معاف کرنے والے شفیق اورمہربان نبی ۖ کے اخلاق کا نمونہ تھا۔جبکہ ہم سوچنے سے پہلے عمل کرتے ہیں۔

مشال کے قاتلوں نے جذباتی اور اشتعال انگیز تقریر کرکے طلباء کو اکسایاجو مشال پر حملہ آور ہوئے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور گولی مار کر قتل کردیا۔ قابلِ غور اور قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ قانون سازی اور آئین سازی کا شور ہے پارلیمنٹ ممبران کی تنخواہیں بڑھتی رہی ہیں مگر قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کوئی نہیں بول رہا۔اسی سیلاب میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو بھی بہا دیا گیا۔اسی طرح کا ایک واقعہ اسلام آباد میں چند سال پہلے سامنے آیا تھاجب ایک مُلا صاحب نے ایک عیسائی لڑکی کو اپنے ہوس کے جال میں پھنسانا چاہا اور ناکامی کی صورت میں اس لڑکی پر قرآن جلانے کا دعویٰ کردیا۔لوگ توہینِ رسالت کے جذباتی نعروں کی زد میں آکرحد سے بڑھ کر قدم اٹھاتے ہیں اورکسی کو قانون کی پرواہ نہیں اپنے جذبات کی آگ کو ٹھنڈا کرکے جب جیل جاتا ہے تو پھر تھوڑی بہت سمجھ آجاتی ہے۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مشال سے متعلق کوئی ایسے شواہد نہیں ملے جو اسے توہین مذہب یا رسالت کا مجرم ٹھہرائے اور اگر وہ مجرم بھی ہوتا تو اس طرح کی بربریت کی اجازت کونسا قانون یا مذہب دیتا ہے بلکہ قرآن میں تو واضح طور پر لکھا ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی ایسی خبرلیکر آجائے تو پوری تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ پھر بعد میں پچھتانا پڑے۔کتنی خوبصورت بات ہے یہی وجہ ہے کہ مشال کے قاتل بھی آج پچھتا رہے ہوں گے۔

اس واقعے سے ایک اور بات بھی سامنے آگئی کہ دینی مدارس کو ہی مذہبی انتہا پسندی کا ذمہ دار ٹھہرانا کسی طور درست نہیں بلکہ حالات کے مطابق اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی یہ الزام لگاسکتا ہے۔چند سال پہلے افغانستان میں فرخندہ نامی خاتون کے ساتھ بھی اسی طرح ظلم کی انتہا کردی گئی تھی جب اس نے ایک جھوٹے پیرمُلا کو اس کے سیاہ کرتوتوں سے منع کردیا تھاتو ملا صاحب نے اعلان کیا کہ اس عورت نے قرآن کوجلاکر مذہب کی توہین کی ہے تو پھر کیا تھا لوگوں نے آؤ نہ دیکھا تاؤ لڑکی کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر جلا ڈالااور شہید کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مذہب کی توہین ہے کیا ؟ مذہب تو ہمیں امن،انسانیت اور ہمدردی کا درس دیتا ہے پس جواِن اچھی عادات واطوار کے خلاف کرتاہے یہی مذہب کی توہین ہے۔

یہاں انسان کو ذبح کردیا جاتا ہے، اسلام اور مذہب کے نام پر دھماکہ کر کے سینکڑوں افراد کو قتل کردیا جاتا ہے، یہاں انصاف بکتاہے ،مسلمان ہی مسلمان کو گدھے اور کتے کا گوشت کھلاتا ہے ،یہاں دودھ،چاول ، آٹا،تمام اشیائے خوردو نوش میں زہر کی ملاوٹ کر کے پیسے کمائے جاتے ہیں کیا یہ مذہب کی توہین نہیں؟گزشتہ اُمتیں جن جن گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے عذاب الٰہی کاشکار ہوکر ہلاک کردی گئیں کیا وہ تمام برائیاں اور گناہیں اس قوم میں موجود نہیں؟ یہی تو ہے مذہب اور رسالت کی توہین۔اتنے سارے گناہوں کے ہوتے ہوئے ہم اب بھی اسلام زندہ باد اور نعرۂ تکبیر کی آواز پر جذباتی ہوجاتے ہیں اور وہ کچھ کر جاتے ہیں کہ بجائے ثواب کے جہنم کے حقدار بن جاتے ہیں۔

مشال خان کی نماز جنازہ سے منع کرنے والا مُلا جو اب چھپنے میں کامیاب ہوچکا ہے سے متعلق مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایاکہ ایک بار ایک منافق کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا مگر حضورۖ نے آکر جنازہ پڑھایاصحابہ کرام نے عرض کیا کہ آپ نے کیوں نمازجنازہ پڑھائی تو آپۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ جنازہ پڑھیں یا نہ پڑھیں میں اسے معاف نہیں کرتاتو میں اس لیے پڑھتا ہوں کہ شائد اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔اس قسم کی درندگی کے واقعات میں ہمارے ملا صاحبان،اہل قلم، اہل اقتدار اور میڈیا برابر کا قصوروار ہے کیونکہ ہم نے اپنی نئی نسل کو سمجھانے اور اخلاقی تربیت دینے کے بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھایاکہ کسی بے گناہ شخص کو سزا دنے سے پہلے کم از کم اتنا تو سوچیں کہ حقیقت کیا ہے اور آیا قانون کے بجائے ہم خود سزا دیکرغداری اور ملک دشمنی کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کی توہین تو نہیں کر رہے۔۔۔

Ghulam Hussain Mohib

Ghulam Hussain Mohib

تحریر : غلام حسین محب