مودی کی بڑھتی ہوئی پاکستان دشمنی

India

India

تحریر: قاضی کاشف نیاز
23 جون 2015ء کو بھارت نے 2008ء کے ممبئی حملوں کے حوالے سے محب وطن پاکستانی ذکی الرحمن لکھوی کی پاکستانی عدالت کے حکم پررہائی کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی خصوصی کمیٹی میں پاکستان پر پابندیاں لگانے کی قراردادپیش کردی۔ بھارت نے یہ موقف پیش کیا کہ سلامتی کونسل نے چونکہ القاعدہ اوراس کے اتحادیوں سے تعلق رکھنے والے افراد پرسفری پابندیاں’ اثاثے منجمد کرنے اورہتھیاروں کی پابندی کی سفارش کررکھی ہے لیکن پاکستان نے اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ذکی الرحمن لکھوی کو رہاکردیاہے(حالانکہ ذکی الرحمن لکھوی کاالقاعدہ اور اس کے اتحادیوں سے کوئی تعلق نہیں) ۔لہٰذا پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے اس پر پابندیاں لگائی جائیں۔سلامتی کونسل کے 5مستقل ارکان میں سے 4ارکان نے اس قرارداد کی حمایت کردی لیکن ہمارے عظیم دوست چین نے دوستی کاحق ادا کرتے ہوئے یہ کہہ کر اس قرارداد کوویٹوکردیاکہ بھارت نے ذکی الرحمن لکھوی سے متعلق ضروری معلومات اور ثبوت پاکستان کو فراہم نہیں کیے اور یہ قرارداد سیاسی طورپر لائی جا رہی ہے۔

یادرہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ذکی الرحمن لکھوی کواپریل میں جیل سے رہاکیاگیاتھا۔ بھارت نے اس پر بس نہیں کیابلکہ بعدازاں یہ معاملہ بھارت کی وزارت خارجہ نے چین کی اعلیٰ قیادت کے سامنے بھی اٹھایااور کمیٹی کے دیگرارکان کے ساتھ بھی یہی معاملہ اٹھایا گیا ۔ذرائع کے مطابق خودوزیراعظم مودی نے اس معاملے کو چین کی اعلیٰ قیادت کے سامنے اٹھایا اور بتایاکہ چین کے سوا تمام ارکان بھارت کی قرارداد کے حامی تھے…ابھی اس ناکام بھارتی کارروائی کو دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ بھارت نے 25جون کوآسٹریلیا کے شہر برسبین میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس( ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں بھی پاکستان پردہشت گردوں کی معاونت اور پشت پناہی کرنے کاالزام عایدکیا اورموقف اختیارکیا کہ پاکستان کالعدم لشکرطیبہ سمیت دیگرتنظیموں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ نہیں ہے۔

پاکستان نے ابھی تک لشکرطیبہ اوراس کے اتحادی گروپوں کے خلاف کارروائی نہیں کی اور ان کے اثاثے منجمد نہیں کیے۔ بھارت نے یہ بھی الزام لگایاکہ وہ جماعة الدعوة کے سربراہ پروفیسرحافظ محمدسعیدdکے خلاف کارروائی سے گریز کررہاہے اورپاکستان میں کئی تنظیمیں کھلے عام فنڈ ریزنگ کررہی ہیں۔اجلاس میں امریکہ نے بھی بھارت کے موقف کی حمایت کی اورمطالبہ کیا کہ پاکستان دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی سے گریزکرے’ تاہم چین نے اس موقعہ پر بھی بھارت کے وار کو یہ کہتے ہوئے ناکام کردیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف مؤثرکردارادا کررہاہے۔ پاکستان سے جوکچھ بھی ہورہا ہے’ وہ کررہاہے۔ پاکستان نے منی لانڈرنگ کے خلاف بھی مؤثر اقدامات کیے ہیں اور اس کی رپورٹ ایشیاپیسیفک گروپ کو بھی بھیجی گئی ہے۔

Terrorism

Terrorism

بھارت کے پاکستان دشمنی پرمبنی اقدامات سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ پاکستان کے خلاف پوری ایک مہم جوئی پرلگاہواہے۔بھارتی وزیراعظم مودی برسراقتدار آنے کے بعد سے اپنے پاکستان دشمن انتخابی مینی فیسٹوکے عین مطابق پاکستان کے خلاف مسلسل اوربھرپور مہم چلائے ہوئے ہے جس میں وقت کے ساتھ مسلسل اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔مودی نے وزیراعظم منتخب ہونے کے پہلے دن اپنی تقریب حلف برداری میں وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کوخود بلایاتھا لیکن نہ توپہلے دن کا لحاظ کیانہ خود بلائے گئے مہمان کالحاظ کیا ۔اس تقریب حلف برداری کے فوراً بعد ہی میاں نوازشریف کو بھارتی مطالبات کی فہرست پکڑانا ضروری سمجھاگیا۔ اس فہرست میں ذکی الرحمن لکھوی dاورپروفیسر حافظ محمد سعیدf کو بھارت حوالگی کے مطالبات شامل تھے۔
جب سفارتی داؤپیچ سے بھارت کی دال نہ گلی تو پھر فوری طورپرسرحدوں پربلااشتعال فائرنگ شروع کرکے جنگ کاماحول بنادیاگیا تاکہ اس طرح پاکستان کودباؤ میں لاکر بھارتی اطاعت قبول کرنے پرمجبورکیاجاسکے…بھارت نے اپنی روایتی مکاری کاثبوت دیتے ہوئے فلیگ میٹنگ کے بہانے بلائے گئے ہمارے فوجی اہلکاروں کو بھی شکرگڑھ سیکٹر پر گولی مارکرشہیدکردیا…ہماری بہادر افواج نے جب بھارت کی ان اشتعال انگیزکارروائیوں کامنہ توڑ جواب دیا اور بھارت کی آگ اگلتی تمام توپوں کوخاموش کرادیا تو اب بری طرح دانت کھٹے ہونے کے بعد بھارتی مکار مودی نے پاکستان کے خلاف دوبارہ سفارتی مہم جوئی شروع کردی۔ سلامتی کونسل اور ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف پابندیوں کی قرارداد اسی مہم جوئی کاشاخسانہ تھی۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف بھی وہ پورازور لگائے ہوئے ہے۔بھارت کی یہ مہم جوئی اگرچہ مسلسل بفضل اللہ ناکامی کامنہ دیکھ رہی ہے،کہیں توچین ہمارے کام آگیا اور کہیں ہماری بہادرافواج نے بھارت کوناکوں چنے چبانے پرمجبورکردیالیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ خود حکومت پاکستان اس سلسلے میں کیاکرداراداکررہی ہے۔کیااس کاکردار صرف اتنا ہے کہ وہ حالات کو اپنی روپر بہتے دیکھتی رہے اورخود کوئی ایسا جوابی کردار ادانہ کرے جس طرح کہ دشمن پوری سرگرمی اور ایک مہم کے ساتھ پاکستان کے خلاف لگا ہوا ہے۔ حکومت پاکستان کو اگر بھارت کے خلاف کوئی خوش فہمی یاخوش گمانی تھی تو سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف بھارتی قرارداد آنے کے بعد اب دور ہوجانی چاہئے۔ پاکستان کے خلاف مسلسل کیے جانے والے بھارتی اقدامات میں اب تک یہ سب سے بڑا پاکستان دشمن اقدام ہے۔ خدانخواستہ یہ قرارداد منظور ہوجاتی توپاکستان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے عالمی طاقتوں کی طرف سے خوفناک پابندیاں لگنی تھیں۔
دراصل افغان جہاد میں شکست کے بعد امریکہ اور دیگرعالمی طاقتیں پاکستان کے خلاف بری طرح ادھار کھائے بیٹھی ہیں اور وہ پاکستان سے بدلہ لینے کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں۔اس مقصد کے لیے وہ اپنے بغل بچہ بھارت کو پوری طرح استعمال کررہے ہیں۔انہی عالمی طاقتوں کی ہلہ شیری سے ہی حوصلہ پاکر مودی پاکستان توڑنے کا بھی بنگلہ دیش میں کھڑے ہوکر بلاخوف فخریہ اقرار کرتاہے۔ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ جس طرح بھارت ہمارے خلاف کوئی معمولی موقع بھی ضائع نہیں جانے دے رہاتومودی کے بحیثیت وزیراعظم بھارت’ پاکستان توڑنے اور مشرقی پاکستان میں مسلح دراندازی کے اقرار کے بعد عالمی عدالت انصاف اور دیگر عالمی فورموں پر بھارت کے خلاف کیس دائر کیاجاتااور بھارت کو دہشت گرد قرار دلانے کے لیے اس طرح بھرپور مہم شروع کی جاتی جس طرح کہ خود بھارت لگاہواہے ‘اس طرح کشمیر میں استصواب رائے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی پربھی سلامتی کونسل بھارت کے خلاف کارروائی کی درخواست پیش کی جاتی لیکن افسوس حکومت کی طرف سے سوائے معمولی ردِّعمل کے عالمی سطح پرکوئی بھی ایسی کوشش یاسرگرمی سامنے نہ آئی۔

یہ اس کانتیجہ ہے کہ مودی کے حوصلے مزیدبڑھتے جارہے ہیں۔
اگرہمارے حکومتی کارپردازان کی یہ خوش فہمی ہے کہ مودی محض ہندواکثریت کو مطمئن رکھنے کے لیے پاکستان مخالف مہم جوئی میں لگاہواہے تاکہ ہندؤوں کاووٹ حاصل کرکے گزشتہ ریاستی انتخابات میں اپنی شکست کاداغ دھوسکے تو یہ خوش فہمی اب دور ہوجانی چاہئے ۔ مودی نے توپہلے دن سے ہی پاکستان دشمنی کاآغاز اپنی تقریب حلف برداری سے کردیاتھا۔ اس وقت تواسے فوری طورپرایسے کسی پاکستان دشمن اقدام کی ضرورت نہ تھی۔ تقریب حلف برداری کے چنددنوں بعد بھی پاکستان کے خلاف بیان بازی کی جاسکتی تھی لیکن مودی سرکارنے پاکستان کے خلاف کوئی ایک لمحہ اورکوئی ایک موقع بھی ضائع کرنا کبھی مناسب نہ سمجھاجبکہ ہمارے حکمران اورعام دانشوربھارت کے ساتھ ہمیشہ خوش امیدیوں کاہی شکار رہتے ہیں۔ماضی میں یہ حد سے زیادہ ”خوش امید یاں”بالآخرپاکستان کولے ڈوبیں اور پاکستان دولخت ہوگیا۔افسوس ہم نے آج تک اس سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔

کوئی اگر سمجھتاہے کہ مودی پاکستان مخالف مہم جوئی شاید عنقریب چھوڑ دے گا تواسے یہ خوش فہمی دور کرلینی چاہیے۔ مودی کی پاکستان مخالف مہم فلم کااگلا پارٹ بھی اب سامنے آچکاہے۔ اب مودی نے ستمبر2015ء کامہینہ 1965ء میں پاکستان کے خلاف جنگ کے50برس پورے ہونے پرفتح کے جشن کے طورپر منانے کااعلان کیاہے جس میں سیمینارز ہوں گے’ریلیاں ہوں گی اورجنگی ماحول پرمشتمل ماڈل تیارکرکے Carnivals نکالے جائیں گے۔ حالانکہ دنیاجانتی ہے کہ1965ء میں رات کے اندھیرے میں پاکستان پرحملہ کے باوجود بھارتی افواج کومنہ کی کھاناپڑی اورپاکستان سے 5گنابڑاملک بھارت شکست کھاکربری طرح ہزیمت سے دوچارہوا۔ صرف زمین پرہی نہیں،ہوامیں بھی پاکستان ائیرفورس اور سمندر میں پاکستان نیوی نے بھارت کو ہرسطح پر ناک آؤٹ کردیا لیکن اب یہ شکست خوردہ گماشتہ اس واضح شکست کاداغ منہ پر جھوٹ کامیک اپ کرکے چھپاناچاہتا ہے۔1965ء کی جنگ کو ”بھارتی جیت”کے طور پر منانے کامودی سرکار کااصل مقصد بھارت میں پاکستان مخالف جنگی فضا پیدا کرنا’ اسے برقرار رکھنابلکہ اسے بڑھاوا دیناہے تاکہ بھارتی عوام کو بھارت کی کسی اگلی مہم کے لیے پاکستان کے خلاف تیار رکھا جا سکے۔

Narendra Modi

Narendra Modi

اب یہ ہمارے حکومتی کارپردازان کا فرض ہے کہ وہ مودی کی اس پاکستان مخالف مہم جوئی کاصرف تماشہ نہ دیکھتے رہیں بلکہ پاکستانی عوام کو بھارت کے خلاف پوری طرح تیار کیاجائے۔ایک طرف سفارتی سطح پربھارت کے خلاف پوری طرح متحرک ہواجائے تودوسری طرف عوام کو بھرپورملی غیرت اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشارکیاجائے تاکہ وقت پڑنے پر ہم 1965ء کی طرح بھارت کے دانت نہ صرف کھٹے کریں بلکہ اس بار اچھی طرح بھارت کے دانت توڑکر اس کی بتیسی ہی باہرنکال دیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ‘آج کاپاکستان 1971ء والاپاکستان نہیں۔پاکستان اپنے دفاع کے لیے بھارت سے بہت بہترایٹمی وغیرایٹمی ہتھیاروں سے آراستہ ہے لیکن جنگیں بہرحال صرف ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتیں’ سب سے پہلے پورے ملک کو اسلام کا گہوارہ بناناچاہیے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پرحاصل کیاگیاتھا اور اس کی بقا ویکجہتی اسلام کے سوا کسی چیز سے ممکن نہیں۔اسی طرح فوج اور عوام دونوں کوجذبۂ ایمانی سے لیس ہوناچاہیے۔ایمان کی بنیاد پرہی مسلمانوں نے بہت کم تعداد اور وسائل کے باوجود جنگیں جیت کردکھائیں ۔دوسرے نمبرپر عوام کاپوری طرح فوج کے ساتھ کھڑارہنابھی ضروری ہے اور اس کے لیے حکومت ملک میں ملی غیرت و حمیت والا جہادی و جنگی ماحول پیدا کرے اوراس سلسلے میں کسی غفلت ‘سستی یافریب کاری کاشکارنہ ہو اوراس وقت کا انتظارنہ کرے جب دشمن عملاً پاکستان پروار کردے اور ہم فوری جواب دینے کے قابل بھی نہ ہوں۔

تحریر: قاضی کاشف نیاز