مومند ایجنسی میں گندم کی فصل کی پیداوار میں کمی کا خدشہ

مومند ایجنسی : مسلسل خشک سالی اوربجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے خدشہ ہے کہ امسال گندم کی فصل کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہو۔دوسری جانب مقامی زمینداروں کا کہنا ہے کہ محکمہ زراعت مخصوص لوگوں کہ گندم کی تخم فراہم کرتا ہے اور وہ بھی غیر معیاری ہے۔ سنگر کے مقام پر کھیتوں میں کام کرنے والا اکبر کاکا نے الزام لگایا کہ ہر سال ہم گندم کی تخم بازاروں سے خرید کر لاتے ہیں کیونکہ سرکاری سطح پر تخم ہمیں نہیں دی جاتی اور وہ غیر معیاری ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے زیادہ تر زمین بنجر ہوگئے ہیں اور امسال گندم کی فصل میں کمی ہوگی۔ جس سے زمینداروں کا نقصان ہوگا کیونکہ یہاں بارانی زمینوں پر سال میں صرف ایک بار گندم کی پیداوار ہوتی ہے۔

محکمہ زراعت مومند ایجنسی کے مطابق گزشتہ سال 36437 ایکڑ بارانی زمین او ر4000 ایکڑ زمین سے 42.15 مٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوئی ہے۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ زراعت مومند ایجنسی کا کہنا ہے کہ مومند ایجنسی میں 80 فیصد گندم کی پیداوار ہر سال ہوتی ہے، جس میں1380ایکڑ زمین کیلئے ہم نے زمینداروںمیں مفت گندم کی تخم تقسیم کی ہے۔
اور تحصیل پڑانگ غار اور تحصیل امبار میںبھی ایک پروگرام کے تحت 100 ایکڑ زمین کیلئے جبکہ سرحدی دیہات خویزی بائزی میں ایک سپیشل پروگرام کے تحت 383 ایکڑ زمین کیلئے زمینداروں میں گندم کی تخم اور کھاد تقسیم کی ہے۔ جس کیلئے 2008 ہاشم اور زام نامی تخم لایا گیا تھا مومند ایجنسی میں پانی کی کمی ہے اسلئے یہ تخم کم پانی میں بھی پیداوار زیادہ دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب ایگری کلچر یونیورسٹی میں گندم کی تخم پر ایک ریسرچ ہورہا ہے جس مین کم بارشوں کی وجہ سے ایک ایسا گندم کی تخم ایجاد کرے جو کم بارشوں میں بھی پیداوار زیادہ دے۔ اور جب یہ تخم ایجاد ہوگی تو مومند ایجنسی میں اس تخم کو متعارف کرینگے۔انہوں نے کہا کہ50 کلو گرام گندم کی تخم ایک ایکڑ زمین کیلئے کافی ہے او جہاں پانی مو جود ہو تو پانچ بار گندم کو ٹائم پر پانی فراہم کرنا ضروری ہے۔ اور اگر گندم کی فصل اچھی ہو تو زمینداروں کودو تین سالوں کیلئے استعمال کرنے کیلئے دینگے۔ یہ ضروری نہیں کہ زمیندار ہر سال سرکاری یا بازاری تخم استعمال کریں۔

مومند ایجنسی میں سالانہ اے ڈی پی میں زراعت کیلئے کم رقم ملتی ہے جس میں زمینوں کی ہمواری میں کام کم ہوتا ہے۔ مومند ایجنسی کا کل رقبہ۔۔ 567161 ایکڑ زمین بتایا گیا ہے۔ جس میں زیر کاشت رقبہ۔ ۔132924 ایکڑ زمین ہے جبکہ34988 ایکڑ زمین آبی ۔ اسکے علاوہ ۔۔84300ایکڑ زمین بارانی ہے جس پر سال میں صرف ایک بار گندم کی فصل کی پیداوار ہوتی ہے۔ اسی طرح علاقے میں13636 ایکڑ زمین پر جنگلات ہیں۔162867 ایکر زمین کاشت کے قابل بنائے گئے ہیں۔ جبکہ 271370 ایکڑ زمین اب بھی بنجر ہے۔ تحصیل حلیمزی میں مقامی زمینداروں کے صدر میر افضل مومند نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں محکمہ زراعت میں ٹھیکہ داری نظام نے بھی زراعت کو نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت زراعت میں تخم کی فراہمی میں ٹھیکہ دار کو ٹینڈ ر دیتا ہے اور ٹھیکہ دار غیر معیاری تخم فراہم کرتا ہے دوسری جانب ٹائم پر تخم فراہم نہیں ہوتی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ امسال بھی گندم کی تخم اور کھاد غیر معیاری تھی ۔اسلئے ہم نے استعمال بھی نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ زمیندار سال بھر محنت کرتا ہے لیکن غیر معیاری تخم کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں جسکی وجہ سے مومند ایجنسی میں فصلوں کی پیداواری میں کمی ہوجاتی ہے۔ 2200 سے زیادہ مربع کلومیٹر مومند ایجنسی میں گندم کے علاوہ نمایا سبزیاں بھی پیدا ہوتی ہیں جس میں ٹماٹر۔26897 مٹرک ٹن،پیاز۔131537مٹرک ٹن،مرچ۔4426 مٹرک ٹن۔ اور دھنیا ۔10940 مٹرک ٹن پیداوار ہے۔ گنداو پرتہ کلے کے رہائشی زمیندار ابن آمین کا کہنا ہے کہ دوسال پہلے ہم نے 7 جرب زمین سے 170 من گندم حاصل کیا تھاجبکہ گزشتہ سال صرف70 من گندم فراہم ہوا تھا لیکن امسال ممکن ہے کہ اس سے بھی کم پیداوار ہوگی۔ انکا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتا اور ہم بازاروں سے غیر معیاری تخم خریدتے ہیں اسلئے فصلوں کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے۔

مومند ایجنسی میں سرکاری سطع پر 2308 زمیندار رجسٹرڈ ہیں۔ جس کیلئے تین مقامات پر فارم قائم ہیں جس میں سرحدی دیہات خویزی بائزی میں بخملشاہ۔ تحصیل یکہ غنڈ اور پڑانگ غار میں دیوڈیری کے مقام پر فارمز واقع ہیں۔مومند ایجنسی میں زیادہ تر لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے۔ سال 2016.17 کے سالانہ بجٹ میں تمام فاٹا کیلئے حکومت نے زراعت کی مد میں335.324 میلین روپے رکھے تھے۔ اسی طرح مومند ایجنسی میں زراعت کی ترقی کیلئے سالانہ بجٹ میں 16.000 میلین روپے مختص کئے تھے۔ جو باجوڑ ایجنسی سے کم ہے جبکہ باجور ایجنسی کا کل رقبہ۔1290مربع کلومیٹر ہے جو مومند ایجنسی سے کم ہے۔مومند ایجنسی میں قیمتی فصلیں ۔ پیاز، دھنیا اور مرچ عالمی منڈی دوبئی تک جاتا ہے۔ لیکن ہر سال اسکی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research

Agriculture Research