اے چاند اب زمین پہ چرخہ اتار دے

Fashion

Fashion

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
عہد حاضر میں جس چیز کو سب سے زیادہ عروج حاصل ہوا ہے اسے ہم فیشن کہہ سکتے ہیں یا اغیار کی اندھی تقلید ۔کہ ہم اپنے کلچر اوراپنی روایات کو یکسر فراموش کرتے جا رہے ہیں ۔جوں جوں ہم ترقی کی منازل طے کرتے جا رہے ہیں اپنے اصل سے دور ہٹتے جا رہے ہیں ۔نوجوان نسل نافرمانی اور بے ادبی کو سیلف کانفیڈنس سمجھ رہی ہے۔

لباس گھٹتا جا رہا ہے اور عریانی بڑھتی جا رہی ہے ۔اپنی تہذیب کا لبادہ اتار پھینکا ہے اور اغیار کی تہذیب کو خود پر طاری کر لیا ہے ۔اس میں کوئی مذائقہ نہیں کہ اعلی تعلیم ضرور حصل کرو مگر اپنی زبان ،اپی تہذیب اپنے رہن سہن کو بھی ذہن میں رکھو ۔پہلے یہ سوچو کہ ہم مسلمان ہیں سرور انبیاء کی امت ہونے کا شرف بھی ہمیں حاصل ہے نہ تو بے حجابی ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے اور نہ ہی مشرقی شر و حیا ہمیں اس چیز کی اجازت دیتی ہے تو پھر آخر یہ کس جدت کو سر پہ چڑھا کر ہم اپنی اصل سے دور ہٹتے جا رہے ہیں ؟۔

میں نے تو ایک ہی چیز محسوس کی ہے کہ جوں جوں پیسے کی فراوانی کسی گھر میں ہوتی ہے توں توں ہم اپنا کلچر چھوڑ کے گلیمر کے قیدی ہوتے جا رہے ہیں اور اس میں قصوروار صرف نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ اس تباہی کے ہم سب ذمہ دار ہیں ۔ہم لوگ دن رات کولہو کے بیل کی طرح جن کے لئے کام میں مشغول ہو رہے ہیں اور ان کو سہولیات بہم پہنچانے کے لئے شب و روز جتے ہوئے ہیں عملی طور پر ہم ان سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ہم پر والدین ہونے کے ناطے بچوں کی اعلی تعلیم کا ہی نہیں اچھی تربیت کا فریضہ عائد ہے ہم صرف یہ کر رہے ہیں کے انکے تعلیمی اخراجات تو برداشت کر رہے ہیں مگر تربیت کے لئے اپنا وقت صرف نہیں کر پا رہے۔

Educational Institutions

Educational Institutions

یہ تو ہے والدین کی کوتاہی اب ذرا اپنے تعلیمی اداروں کو ایک نظر دیکھ لیں جتنے مہنگے اور ہائی سٹینڈرڈ کے تعلیمی ادارے ہیں وہاں نہ تو اپنی زبان پہ زور دیا جاتا ہے اور نہ ہی اپنی ثقافت کو خاطر میں لایا جا رہا ہے وہاںآپ کبھی غور کریں سکول کا کوئی فنگشن ہو وہاں بھی اب انڈین گانوں پہ رقص معمول کی بات ہے ۔پہلے سکول و کالج وغیرہ میں اگر کوئی تقریب ہوتی یا کوئی مینا بازار وغیرہ ہوتا تھا تو وہاں اپنے ثقافتی ورثے کو نمایاں کرنے کے لئے ایسے پروگرام پیش کئے جاتے جس سع اپنی دھرتی سے محبت کا درس ملتا تھا اور اپنی ثقافت سے بچے آشنا ہوتے تھے مگر اب تو اپنی تہذیب کہیں نام کو بھی دیکھنے میں نہیں ملتی ۔ہمارے چینلز پر جس ثقافت کو پیش کیا جا رہا ہے وہ میری دھرتی کی ثقافت ہی نہیں۔

ایک وقت تھا جب ہمارے ٹی وی ڈرامے اپنی الگ پہچان رکھتے تھے اور لوگ انڈین چینلز دیکھنا جیسے حرام سمجھتے تھے ۔مگر اب یہ عالم ہے کہ کوئی ہی خوش قسمت پاکستانی چینل ہو گا جسے ہندوستانی ڈرامے دکھانے کا مرض لاحق نہ ہوا ہو ۔مسلسل انڈین ثقافت کو دیکھ دیکھ کے ہماری نسل نو نے ہندوستانی ثقافت کو اوڑھ لیا ہے ۔سٹیٹس کو کی ماری اشرافیہ نے تو مکمل طور پر یورپی اور ہندوستانی ثقافت کی غلامی کا طوق اپنے گلے کی زینت بنا رکھا ہے اور اگر کسی کے سر پر چادر یا دوپٹہ انہیں دکھائی پڑ جائے تو اسیگیر مہذب ،ان پڑھ ،اجڈاور دیہاتی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے کیا تہذیب یہ کہتی ہے کہ اپنے ورثے سے لا تعلق ہو جائو ؟اپنی شناخت ختم کر دو ؟ تہذیب کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
اپنی تہذیب بھی اب تو غریبوں کے گھر پہ ہے
دوپٹہ پھٹا ہوا ہے مگر ان کے سر پہ ہے

اور بلا شبہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ واقعی دوپٹہ اور مکمل لباس خواہ وہ پیوند لگا ہی کیوں نہ ہو وہ آپکو غریبوں کے ہاں ہی ملے گا اور نامکمل لباس اور اغیار کی زبان اب امیری کی نشانی کے طور پر ملے گا ۔اب یقین ہو چلا ہے کہ پاکستان دشمن قوتیں کس قدر منظم انداز میں کام کر رہی ہیں ۔ہندوستان کی سابقہ وزیر اعظم اندرا گاندھی کا کہاکتنے بہترین انداز میں ہندوستانی قوم نے پورا کر دکھایا ۔اس نے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو شکست دینا چاہتے ہو تو اس کی ثقافت کو ختم کر دو اور آج ہمارے گھروں تک انڈین ثقافت پورے طمطراق سے پنجے گاڑھے ہماری ثقافت کا منہ چڑا رہی ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں ۔ہماری آج کی نسل کو بھلے ہی اپنے خاندان کے مکمل نام بھی نہ آتے ہوں اس کو ہندوستانی دیوی دیوتائوں سے لے کر رسم و رواج اور ان کے اداکاروں سے مکمل طور پر جانکاری ہے۔

Culture

Culture

اسے اپنے مذہبی اور قومی ہیروز کا علم تک نہیں اللہ بھلا کرے ہماری ثقافت کی منسٹری کا جس نے ہندوستانی فلموں کو بھی اپنی سرحد کے پار آکر سنیما گھروں تک رسائی اور اپنی ثقافت کو رسوائی بخشی ۔ہمارے نشریاتی اداروں نے تو لگتا ہے ہندوستانی ثقافت کے ہاتھ پر بعیت کر رکھی ہے ٹی وی چینل تو ہیں ہی کسی بھی ایف ایم ریڈیو چینل کو آن کر کے سنیں وہ بھی دشمن ملک کا ہی قصیدہ خواں نکلے گا ان کے پاس بھی اپنی قوم کو سنانے کے لئے نہ ملکی گانے ہیں نہ دیگر پروگرام ہندوستانی فلموں کی پروموشن کو وہ بھی اپنا فرض عین سمجھتے ہیں اور پھر فخر سے کہتے ہیں ایف ایم فلاں پاکستان کی آواز کیا کہنے ہندوستانی ثقافت کے مریدین کے واہ کیا بات ہے ۔ارے بھلے مانسو تمہارا اپنا ایک کلچر ہے اپنی خوبصورت ثقافت ہے بحثیت پاکستانی آپ پر لازم ہے کہ اپنی ملی ثقافت کا پرچار کرو آپ کی آواز لوگ سنتے ہی نہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں تو کیوں اپنے ملی فریضے سے غافل ہو گئے ہو۔

یاد کرو یہ وہی ادارے ہیں جو حالت جنگ میں دشمن کے خلاف اپنے پلیٹ فارم سے اپنی فوج کی قوت اور قوم کا حوصلہ بڑھاتے تھے پھر اب کیا ہو گیا کیوں ثقافتی میدان میںاسی دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے آپ لوگوں نے آخر کیوں ؟خدارا قومی اور ملی جذبے سے اغیار کی ثقافت کا بائیکاٹ کرو اور اپنی نسل نو کو دشمن کی چال سے بچا کر مستقبل کو محفوظ کنے کی ٹھان لو جو اب پوری طرح دشمن کی تہذیب و ثقافت کے زیر اثر آکر تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ہم یہ تو روز سنتے آرہے ہیں کہ فلاں را کا ایجنٹ ہے فلاں را کا ایجنٹ ہے میری نظر میں جو جو بھی انڈیا کے زیر نگیں ہے وہ ہی را کا ایجنٹ ہے تو پھر غور کرو ہم سب کے گھروں میں موجود نسل نو جو سر تا پا ہندوستانی کلچر سے متاثر ہے وہ انڈیا کا ایجنٹ ہے خدا کے لئے اپنی نسل نو کو بچا لو اپنا مستقبل بچا لو ہمارے اسلاف نے یہ مملکت بڑی جدوجہد سے حاصل کی ہے ہمارا سب کا فرض اولین ہے کہ اس دھرتی کی بقاء کے لئے اپنے اپنے فرض کو ادا کریں ۔ابھی کل کی بات ہے کہ میرے ایک دوست نے مرحوم طاہر جمیل کا ایک شعر مجھے سنایا جو کچھ اس طرح تھا کہ
دوشیزگان دیس کو ملبوس چاہئے
اے چاند اب زمین پہ چرخہ اتار دے

یہ سن کر میں سوچ کی گہری کھائی میں جا گرا اور کافی دیر تک اس شعر پہ غور کرتا رہا کہ شاعر نے کیا کہہ دیا ہے ۔اور یہ حقیقت ہے کہ اس قوم کی بیٹیاں جو شرم و حیا کی پر چارک تھیں آج مکمل لباس زیب تن کرنا ان کے لئے جیسے قیامت کا اعلان ثابت ہوتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ لباس جتنا مختصر ہو اسی قدر مہنگا ہوتا ہے میں قوم کی بیٹیوں سے بھی دست بستہ گزارش کروں گا کہ اپنے آپ کو پہچانو اغیار کے پھیلائے ہوئے دام کی اسیر نہ بنو بلکہ اپنی شناخت زمانے سے منوانے کی کوشش کرو ۔بے پردگی باعث فخر نہیں باعث تذلیل ہے ۔آپ ایک عظیم قوم کی غیرت کی محافظہ ہیں امام الانبیاء ۖ کی امت میں سے ہو ایسے لباس کو اپنے اجسام کی زینت بنائو جس سے دنیا میں بھی سرافرازی ملے اور آخرت بھی بخیر ہو

MS-H-Babar

MS-H-Babar

تحریر: ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile ;03344954919
Mail ;mhbabar4@gmail.com