اخلاق و کردار کے جنازے

Quran

Quran

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ” (اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک دوسرے کو جو فطری برتری عطا فرمائی ہے، اس کی تمنا مت کرو! مردوں کے لیے ان کے اعمال میں حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال میں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل و کرم مانگتے رہو، بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے)” ثابت ہوا کہ خالقِ کائنات نے مرد اور عورت کو ایک جیسا نہیں الگ تھلگ بنایا ہے، انسانی ڈھانچے بھی خدوخال بناوٹ سجاوٹ میں ایک جیسے نہیں، زمہ داریاں بھی ایک جیسی نہیں حتیٰ کہ پیارے نبی ۖ کے فرمان عالی شان نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ وہ نماز جس کا تقریباً سات سو سے زاہد مرتبہ الہامی کتاب قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے۔ وہ نماز ادا کرنے قیام رکوع سجود میں بھی عورت اور مرد کے ادا کرنے میں فرق ہے تو پھر تعلیم سیکھنے سکھانے میں فرق کیوں نہیں۔

گزشتہ روز خبروں کے مطابق اسلام آباد میں ٹیچر کے عشق میں مبتلا ساتویں جماعت کے طالب علم کی خودکشی پولیس نے خود کشی کرنے والے ساتویں جماعت کے طالب علم کی کلاس ٹیچر کو شامل تفتیش کر لیا، خاتون ٹیچر کا کہنا ہے کہ وہ اسامہ کو اپنا شاگرد سمجھتی تھی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول میں گزشتہ روز ساتویں جماعت کے طالب علم اسامہ نے مبینہ طور پر خاتون ٹیچر سے محبت میں ناکامی پر خودکشی کر لی تھی۔ پولیس نے تفتیش کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے سکول ٹیچر شیبہ نوشیرواں کو شامل تفتیش کر کے بیان قلمبند کر لیا ہے، پولیس کو دئیے گئے بیان میں ٹیچر نے بتایا کہ وہ اسامہ کو اپنا شاگرد سمجھتی تھی اور اس کے ان خیالات کے بارے میں بلکل نہیں جانتی تھی، پولیس نے موقع پر موجود 20 طالب علموں اور اسامہ کے چھوٹے بھائی کا بیان بھی قلمبند کیا ہے۔ طالب علموں نے اپنے بیان میں پولیس کو بتایا کہ اسامہ نے سب کے سامنے پستول سے اپنے پیٹ میں گولی ماری، پولیس کا کہنا ہے کہ اسامہ نے سکول ٹیچر سے محبت سے متعلق خط اپنے چھوٹے بھائی کے ذریعے پرنسپل کو پہنچانے کے لئے کہا تھا، تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ واقع خود کشی ہی ہے، ابھی تک اس میں کوئی اور پہلو نظر نہیں آ رہا، ایکسپریس نیوز کے مطابق ساتویں جماعت کا طالب علم 16 سالہ اسامہ اسکول ٹیچر کے عشق میں مبتلا تھا اور محبت میں ناکامی پر خود کو گولی مارکر خود کشی کرلی۔ پولیس کے مطابق اسامہ نے مرنے سے قبل ٹیچر کے نام ایک خط لکھا تھا جو اس نے چھوٹے بھائی کو دے کر کہا کہ باہر جاکر 100 تک گنتی گنوجب گنتی ختم ہوجائے تو یہ خط ٹیچر کو دے دینا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چھوٹے بھائی نے باہر جاکر 50 تک ہی گنتی گنی تھی کہ گولی چلنے کی آواز آ گئی۔

اسامہ نے خط میں لکھا کہ میں اپنی ٹیچر سے بے حد محبت کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر لوگ جینے نہیں دیتے، پرنسپل صاحب مجھے اسکول میں ایسا نہیں کرنا چاہیے لہٰذا آپ سے معافی مانگتا ہوں جس کے بعد اس نے خود کشی کر لی۔ اسامہ نے خودکشی کے لیے جو پستول استعمال کیا اس نے خط میں لکھا کہ یہ میرے پاپا کا ہے، مرنے کے بعد اسے دور پھینک دیا جائے، نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد پولیس پاپا کو تنگ کرے۔دوسری جانب اسامہ کے والد عالمگیر کا کہنا ہے کہ انہیں بیٹے کی ٹیچر سے محبت کا علم نہیں تھا وہ تو پہلے ہی اسامہ کی پسند کی لڑکی سے منگنی کرا چکے تھے۔

School Boy Suicide

School Boy Suicide

اس سے قبل کراچی میں دو سکول طالب علموں کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آ چکا ہے۔اس سے پہلے زیادہ عرصہ نہیں ہوا آپ نے سنا ہوگا کہ :کراچی کے اسکول میں 16 سالہ لڑکے نے لڑکی کو مار کر خود کشی کرلی کیا یہ ہماری فطرت میں رچ بس گئی ہے کہ ہم حادثات سہنا اور برداشت کرنا سیکھ گئے ہیں۔حادثات رونما ہونے کے عوامل پر غوروغوض کرکے غلطیوں کو درست کرنے کی زحمت نہیں کرتے، بلکل ایسے ہی جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے ، بحثیت قوم ! ہم اگلا حادثہ رونما ہونے تک ٹس سے مس نہیں ہوتے تعلیمی اداروں میں ایسا ہونا درحقیقت پوری قوم کے لئے زہرِ قاتل بھی ہے۔ اور لمحہ فکریہ بھی کبھی خبر ملتی ہے کہ کلاس پنجم کی معصوم کلی پرنسپل کی درندگی کا نشانہ بن گئی ہے۔ کبھی خبر ملتی ہے یونیورسٹی کی طالبہ کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا وہ بھی اپنے ہی استادِ محترم کے روپ میں بھیڑئے نے۔

میڈیا اور پالیسی ساز اداروں سے گزارش ہے کہ پیسے کی ہوس اور لالچ سے ذرا ہٹ کر سوچیے !جس طرح معصوم کلیوں کو مسل رہا ہے؟ کیسا جان لیوا زہر ہے جو اُن کے کچے ذہنوں میں اُتارا جا رہا ہے۔اور اس میں جہاں دیگر عوامل شامل ہیں وہاں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا بھی کسی سے کم نہیں ۔ میں ایک ولی اللہ اور مفکر اسلام کا قول پیش کر رہا ہوں حضرت جنید بغدادی سے پوچھا گیا کیا کوئی مرد کسی غیر محرم لڑکی کو پڑھا سکتا ہے؟فرمایا: اگر پڑھانے والا بایزید بسطامی ہو،پڑھنے والی رابعہ بصری ہو،جس جگہ پڑھایا جا رہا ہو وہ بیت اللہ ہو،اور جو کچھ پڑھایا جائے وہ کلام اللہ ہو،پھر بھی اجازت نہیں۔۔۔۔۔

اس لئے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ جب تک ہم نے تعلیمی اداروں کو ” تعلیم و تربیت ” کا عملی نمونہ نہ بنایا جب تک معلم کے پیشہ سے منسلک لوگ ” تعلیم کو زریعہ تجارت ” سمجھتے رہے جب تک ” مینا بازر ” کے نام پر پیارے محبت کے گانوں پر ڈانس سکولز میں ہوتے رہے جب تک سلیبس میں” شرم و حیا ” جیسے عنوان شامل نہیں ہوتے جب تک معلمہ” مغربی لباس ”میں مغربی طرز انداز میں اپنے فراہض ادا کرتیں رہیں جب تک ” معصوم بچوں ” کو LOVE اسٹوری کے ڈائیلاگ ٹیچرز یاد کرواتے رہے جب تک” کلاس ششم ” سے مخلوط کلاسیں ختم نہیں کر لیتے جب تک طلبہ کی طرح ” معلمات کی بھی وردی لازمی نہیں کر لیتے جب تک ” نصاب میں سیرت النبی ۖ” شامل نہیں کر لیتے جب تک والدین میں شعور بیدار نہیں ہو جاتا جب تک محکمہ تعلیم ” اخلاق و کردار ” کو چیک انیڈ بیلنس کا حصہ نہیں بنا لیتا جب تک ” قرآن مقدس ” الماریوں سے نکل کر سکولوں میں شامل نہیں ہو جاتا جب تک ” عشق و محبت ” کو سلیبس سے ختم نہیں کر لیتے جب تک ” صحابہ کرام اور اللہ کے نیک بندوں ” کو سلیبس کا حصہ نہیں بنا یتے اور جب تک مخلوط تعلیمی اداروں میں مرد و خواتین اساتذہ اور لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ میل جول اور دوستیوں کے رحجان کو آزاد خیالی و روشن خیالی کے لبادے پہنائے جانے کوروک نہیں لیتے تب تک ہمارے تعلیمی ادارے میں ‘ ‘ ہمارے اخلاق و کردار ” کے جنازے نکلتے رہے گئے۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا