خراج تحسین

Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

تحریر : طیبہ عنصر مغل
مجھے آج لفظوں سے کھیلنا نہیں آئے گا قلم میں وہ تحریک کہاں سے لاتی کہ جو حرفوں کی وہ تسبیح بنا پاتا جس کے اندر میں وہ دکھوں کے موتی جو اشکوں کی صورت میرے جذبوں کے صدف میں قید ہیں ،مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں پہلے کس ہستی کے دنیا سے چلے جانے کے خدارے کو عنوان دوں اس کشتی کے ملاح جناب عبدالستار ایدھی کی بےلوث اور گرانقدر خدمات پہ خراج تحسین پیش کروں یاامجد صابری کے قتل کی دلخراش داستان پہ نوحہ کروںاور آہ اس مرد مجاہد کی جواں سال مرگ ناگہانی پہ اپنے لفظوں میں پھول ڈالوں۔

ہمارے ایدھی ،کتنے لوگوں کے سائبان تھے. ہر بے آسرا لڑکی کے باپ،کتنے لاوارث جن کو کفن پہنانے والا خود کفن اوڑھ کے دنیا سے رخصت ہوگیا ،بہت لوگ ایدھی جیسے ہوں گے مگر افسوس،،،،،،ایدھی نہ ہوں گے، دو جوڑی لباس ساری زندگی پہننے والا جو لوگوں کی دی امداد سے محل کھڑے کر سکتا تھا وہ ایدھی اب نہیں پیدا ہو نے والا،سادگی کا پیکر،یتیموں کی بلاتفریق کفالت کرنے والا ایدھی اب نہیں ہے،اب ہم میں نہیں ہے کروں بات اس بھائی کی جو راہ چلتے بے دردی سے قتل کر دیا گیا وہ جو ایک ایسا چراغ تھا کہ جس کی لو پہ ہزاروں سورج قربان ہوسکتے تھے۔

ایک ایسی آواز جو قوالی ،نعت. ،مناجات میں لاجواب تھی کیا قصور تھا اس حمد وثناء کرنے والے کا،دلوں پہ وجد طاری کرتی ہوئی آواز کا گلا کس لئے گھونٹا گیا کون تلاش کرے گا ان قاتلوں کو اور کیوں تلاش کرے گا کوئی صاحب اختیار ،کوئی ایوانوں میں بیٹھنے والا وزیر نہیں تھا ایک عام سا قوال ہی تھا صاحب کیا فرق پڑے گا ہم تو بری الذمہ ہیں کوئی نامعلوم افراد تھے قتل کر گئے۔

Amjad Sabri

Amjad Sabri

شہادت کا اعزاز تو مل گیا،لیکن یہ کون بتائے گا کہ شہید تو ہے لیکن قتل بھی ہواہے ایک بھرے پرے خاندان کا نیک چراغ تھا،بچوں کا باپ تھا ماں کا پیارا تھا ،بدنصیب بیوہ کے سر کا تاج تھا،لیکن تاجدارِحرم پڑھتا تھا کوئی بادشاہ ءوقت نہیں تھا کہ قاتل کو زمیں کی تہہ میں سے نکالیں افسوس نعت و قوالی کا سنہری باب بند ہوا اور ایک اور بہت نیک انسان دنیا سے رخصت ہوا،وقت کی دھول شاید اس ظلم کو دھندلا دے مگر ہم بھول نہیں سکتے اس معصوم انسان کو کہ وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے
ابھی ایدھی اور صابری کے غم کا زخم مندمل نہیں ہوا تھا کہ دیکھو۔

وہ شخص چل پڑا کہ جس نے بھری جوانی میں دنیاوی دولت وشہرت کو ایک ٹھوکر لگاکراللہ کی راہ پہ لبیک کہا،جنید جمشید سے جنید شہید تک کا سفر جوانی میں طے کر گیا کل گٹار ہاتھ میں تھامے دل دل پاکستان کی دھن پہ جادو جگاتی آواز سے جذبہ حب الوطنی بیدار کرتا حسین نغموں سے دل میں جو اترا تو عین شہرت کے عروج پہ گٹار کو پھینک کر تبلیغ اسلام کے عظیم راستے پہ سرگرم ہوگیا،وجیہہ تو پہلے بھی تھا لیکن داڑھی،عاجزی،
خلوص نے چہرہ پر نور بنا دیا ،لیکن
شاید وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ

Junaid Jamshed Plane Crash

Junaid Jamshed Plane Crash

میں مقبول ہوگیا اور یقیناً بخشے جانیوالے لوگوں میں ہوگا کہ وہ بھی بہت سارے دوسرے مسافروں کے ساتھ طیارہ حادثہ میں لقمہءاجل بن گیاابدی سفر پہ روانہ ہواسوال بہت ہیں کہ یہ بھی قتل تھا اتنی ساری جانوں کو ایک خستہ حال طیارے کے حوالے کر دیناپر جواب کون دے گا،کوئی نہیں ،جانیں تو سب قیمتی ہیں لیکن ہر جان کے زیاں کا مداوا کچھ نہیں ہم سلام کرتے ہیں ایدھی صاحب کی خدمات کو،سلام ہے امجد صابری کی مناجات پڑھتی آواز کو،سلام ہے جنید شہید کی گونجتی نعتوں اور ان کی اللہ تعالیٰ کی راہ میں تبلیغ کو،سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں ان اللہ تعالیٰ کے پیاروں پر ،،،،نکلو گے تو یر موڑ پر لاشیں ہی ملیں گی ڈھونڈو گے تواس شہر میں قاتل نہ ملے گا۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔

تحریر : طیبہ عنصر مغل