مشعال خان کی بے گناہی ثابت ہوئی ..اب اسے واپس لائیے‎

Mishal Khan

Mishal Khan

تحریر : عماد ظفر
مشعال خان کے بے رحمانہ قتل کی تفتیش کرنے والی 13 رکنی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کی رپورٹ بالآخر منظر عام پر آ گئی. رپورٹ کے مطابق مشعال خان پر لگایا گیا توہین مذہب کا الزام کسی بھی طور ثابت نہ ہو سکا. اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مشعال خان کا قتل دراصل منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا اور طلبا کو اشتعال دلوانے میں یونیورسٹی کی مینیجمنٹ کا کردار تھا جبکہ پولیس نے بھی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشتعل ہجوم کو مشعال خان کے قتل سے روکنے کیلئے کوئی ٹھوس کاوش نہیں کی اس لیئے پولیس کے کردار پر بھی تفتیش ہونی چائیے. رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں منشیات کا استعمال ہتھیاروں کی آزادانہ نمائش پر کوئی روک تھام نہیں اور طالبات کو بھی ج ہراساں کرنے کی اطلاعات موجود ہیں.

یونیورسٹی میں زیادہ تر نااہل لوگ ہیں جنہیں کہ سیاسی وابستگیوں کے تحت سفارشوں پر بھرتی کیا گیا ہے. بہر حال اس رپورٹ نے مشعال خان کو بالآخر بے گناہ قرار ڈالا. کاش یہ رپورٹ مشعال خان کے والدین کے دکھ اور تکلیف کا مداوا کر سکتی.کاش وہ حیوان جو مذہب کی آڑ میں اپنی درندگی بے گناہ اور معصوم افراد کو قتل کر کے نکالتے ہیں ان کو اور ان کے ہمدردوں کو یہ توفیق ہو سکتی کہ وہ ایک بار مشعال خان اور اس جیسے دوسرے مظلوموں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا ایک موقع دے دیتے. جے آئی ٹی کی یہ رپورٹ دراصل ہر اس شخص پر فرد جرم ہے جو توہین مذہب کے قانون کو جواز بناتے ہوئے کسی بھی بے گناہ فرد کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع نہیں دیتا یا جو توہین مذہب کے نام پر ہونے والی قتل و غارت گری کو درست سمجھتے ہیں. ایدے تمام افراد کو شاید اب سکون مل گیا ہو ان حضرات سے گزارش ہے کہ لیجئے اس رپورٹ نے مشعال خان کو بے گناہ قرار دیا ہے لائیے اب کسی بھی طرح مشعال خان کو واپس جو کہ آپ نہیں لا سکیں گے.

مشعال خان کی ماں نے کہا تھا کہ میرے بچے کی ہڈیاں تک چور چور تھیں میں اپنے لال کو ٹھیک سے چوم بھی نہیں پائی اس کی ماں کے یہ الفاظ سماعتوں پر عذاب مسلسل کی طرح دستک دیتے ہیں اور اگر اس کے ان الفاظ کا بوجھ ہی ہم سے برداشت نہیں ہونے پاتا تو مشعال کی ماں خود کیسے اپنے لال کے بچھڑنے کا دکھ برداشت کر پاتی ہو گی. مشعال خان کا باپ اپنے دکھ کو چھپاتے ہوئے عزم و ہمت کا پیکر بنے جب بات کرتا ہے تو کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے. کیا بھیانک ظلم ہے کہ جوان بچے کی لاش کا بوجھ اٹھائے وہ شخص آج بھی اپنے بے گناہ بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلوانے کیلئے حکمرانوں اور عدلیہ کی منتیں کرتا پھر رہا ہے اور اپنی دوسری اولاد کی زندگیوں کو لاحق خطرے کے پیش نظر ان کیلئے سیکیورٹی مہیا کرنے کی اپیلیں کرتا پھر رہا ہے. جبکہ دوسری جانب مشعال خان کو مارنے والے قاتل جیلوں میں مرغ کڑایوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مکمل طور پر قانون کی محفوظ پناہ میں موجود ہیں.

مجھے یقین ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے باوجود سوچ و سمجھ کی نعمت سے محروم جنونی مشعال کو ہی مجرم سمجھتے ہوئے اس کے قاتلوں کو ہیرو کا درجہ دیں گے. افسوس کہ نفرتوں کی آگ میں اندھے جنونی یہ نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی سمجھ پاتے ہیں کہ مذہب یا مقدس ہستیوں کو خطرہ کبھی بھی نہ ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کے کسی بھی مذہب کو اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے کسی انسان کی ضرورت ہو سکتی ہے.آفاقی معاملات کو چلانے والا اپنے پیغام اور اپنے محبوب کی حفاظت کرنا بہت اچھی طرح جانتا ہے.اس کے نام کو استعمال کر کے توہین مذہب توہین مقدس ہستیوں کی آڑ میں اپنی جنونیت کو انسانی لہو سے تسکین دینا کسی درندے کا کام ہو سکتا ہے انسان کا نہیں.ایسے تمام افراد جو اس ملک میں توہین مذہب کے نام پر قتل ہونے والے افراد کو مجرم اور انہیں قتل کرنے والے درندہ صفت انسانوں کو ہیرو سمجھتے ہیں دراصل وہ تمام لوگ مشعال خان کی موت کے ذمہ دار ہیں. جب آپ کسی بھی جذباتی اور ذہنی طور پر اپاہج شخص کو صرف اس لیئے ہیرو بنا ڈالیں کہ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کسی بھی عدالتی فیصلے کی عدم موجودگی میں کسی بھی شخص کو توہین مذہب کے نام پر قتل کر ڈالا تو دراصل آپ اس ملک میں بسنے والے ایسے لاکھوں کڑوڑوں برین واشڈ انسانوں کو ایک طرح سے پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ عزت دولت اور شہرت کمانی ہے تو کسی بھی شخص جس پر توہین مذہب کا الزام لگا ہے اسے قتل کر ڈالو اور راتوں رات ہیرو بن جاؤ. مشعال خان کی قاتل وہ سوچ ہے جو اس وطن کے ہر دوسرے گھر میں پل رہی ہے اور جو دلیل اور مکالمے کی قوت کو رد کرتے ہوئے قانون اور ہتھیاروں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی بات کرتی ہے.

مقدس ہستیوں سے محبت کا ثبوت دوسرے انسانوں کو قتل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کی دی گئی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوتا ہے. اس سوچ کو بدلیے وگرنہ اس معاشرے میں مشعال خان جیسے ذہین بچے مارے جاتے رہیں گے اور انہیں قتل کرنے والے درندے ہیرو قرار دیے جاتے رہیں گے. مشعال خان کے والد کی یہ تصویر دیکھئے جس میں وہ اپنے بیٹے کی قبر کے پاس کھڑا اسے سلام کر رہا ہے اور صدق دل سے بتائیے کیا والدین اپنے بچوں کو اس لیئے پروان چڑھاتے ہیں کہ ان کو نوجوانی میں ہی منوں مٹی تلے دفن کر دیں.خدا کیلئے نفرتوں کا یہ کاروبار بند کیجئے اپنے بچوں کو دفن کرنے سے بڑا بوجھ اور کرب کوئی اور نہیں ہوتا مشعال خان کے والد نے مشعال کو قبر میں دفنا کر یہ بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر رکھ لیا ہہے اور اب وہ اپنی باقی ماندہ زندگی اس بوجھ کو ڈھوتے ہوئے گزارے گا.

آپ اس بوجھ کو اٹھانے کے کرب سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو امن محبت پیار کا درس دیجئے انہیں سکھایے اور بتایئے کہ قتل و غارت گری سوائے دکھ اور تکلیف دینے کے اور کچھ بھی نہیں دے سکتی. اور اگر ابھی بھی آپ لوگ قتل و غارت گری چاہے وہ کسی بھی چیز کو بنیاد بنا کر کی جائے اس کو درست سمجھتے ہیں تو پھر مستقبل میں بھی مشعال خان جیسے مزید کئی بچوں کی جان کو آپ لوگ خطرے میں ڈالنے کا باعث بنیں گے . مشعال خان کی بے گناہی کی یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ جیسے وہ بچہ سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہو اور ایک طنز بھری مسکراہٹ سے کہہ رہا ہو کہ جو معاشرے زندہ انسانوں کی قدر کرنا نہیں جانتے وہ بھلا مذہب اور مقدس ہستیوں کی قدر کیسے کر سکتے ہیں. شاید اس معاشرے کو اس وقت جس قانون کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ احترام انسانیت ہے. کاش مشعال خان جیسے بچے یہ جان پاتے کہ بنجر اور اپاہج سوچ والے معاشرے دراصل اس قبرستان کی مانند ہوتے ہیں جہاں زندہ لاشیں اپنی اپنی اپاہج سوچ کی قبروں میں دفن ہونے کے باعث اپنی اجتماعی فکری و انسانی اقداروں کی موت کا ادراک بھی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں.

imad zafar

imad zafar

تحریر : عماد ظفر