بلدیاتی انتخابات …معرکہ لاہور……

Polling Station

Polling Station

تحریر: ع۔م بدر سرحدی
پہلی مرتبہ ووٹ ١٩٨٥،میں ووٹ کاست کیا اور پھر اب دوسری مرتبہ ٣١،اکتوبر کے بلدااتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے نکلا، یہ نہیں کہ مجھے ایسے اتخابات سے کوئی دلچسپی یا ان انتخابات میں میرے سوچ و فکر کے نمائندے آئے ہیں بلکہ محض اس لئے کہ شائد میرے چند ووٹوں سے یہاں سے نون لیگ اور پی پی پی کو شکست ہو جائے حالانکہ پی ٹی آئی میں بھی وہی پٹے ہوئے آزمائے لوگ ہیں یہاں تین جماعتوں میں مقابلہ تھا نون لیگ کے نامزد آزمائے ہوئے تھے ،اور پی پی پی کے بھی جس کے دور میں آٹا ٤٥ روپئے کلو تک پہنچا۔

جو غریب کی خوراک کا دنیادی عنصر ہے اور موجودہ دور میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ٦٠ فی صد عوام غربت کی سطح سے بھی نیچے چلے گئے ہیں یہ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہے جبکہ یہ تعداد ٨٠ فی صد سے بھی زائد ہے یہ واضح تھا حکومت کے زیر اثر ہونے والے انتخاب میں اُس کے نامزد کو شکست نہیں ہو سکتی خصوصاً لاہور میںتو یہ ممکن ہی نہیں …. خُدا کادل کی گہرایوں سے شکر گزار ہوںکہ میرے ووٹ ضائع نہیں ہوئے….۔

پولنگ سٹیشن کا ماحول پر سکون تھا بظاہر نظام ایسا لگا کہ جعلی ووٹ اب بھگتائے جانے نامککن بنا دئئے گئے ہیں، اچھا انتطام ہے تاہم شہر میں بعض مقامات پر تلخ کلامیا ں ہوئی، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ لاہور کے یہ محض بلدیاتی انتخابات نہیں اِن کا اثر آئندہ قومی انتخابات پر بھی پڑے گا، کہ لاہور ن لیگ کا تخت ہے۔اِس معرکہ میں ایسے لگ رہا تھا جیسے یونین کونسل کے چئیر مین کا انتخاب نہیں قومی اسمبلی کا انتخاب ہے۔

Benefits

Benefits

آپ سوچیں گے کہ میںنے کبھی انتخاب میں حصہ لیکر ووٹ کاسٹ کرنے کا یہ قومی فرضْ پورا کیوں نہیں کیا ،اسکی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ کبھی عوام میں سے عوام کے لئے عام عوامی نمائندہ نہیں آیا …..بتائیں آج کی قومی اور صوبائی اسمبلیوںمیں ایک بھی ایسا نمائندہ ہے جو عوام میں سے کیا میاں خاندان کے کامیاب لوگ اور دیگر نمائندے عوام میں سے ہیں نہیں عام عوام سے نہیں ۔ کوئی وکیل برادری سے تو کوئی تاجر برادری سے کوئی جاگیر دار برادری سے تو کوئی صنعتکار برادری سے ،یہاں کوئی ایک بھی عوام میں سے عوام کا نمائندہ نہیں ،اگر وکیل ہے تو وہ اپنے وکلا برادری کے مفادات کو اولیت دیگا ،اگر تاجاجر ہے تو وہ تاجر برادری کے مفادات کو اولیت دے گا اگر جاگیردار ہے تو وہ اپنی برادری کے مفادات کا تحفظ کرے گا فکر کی بات ہے کیا ااِن میں کوئی ایسا نمائندہ ہوگا ۔

جو بے گھر لوگوں کے مسائل سے آگاہ ہو، ملک میں لاکھوں بچے ہیں جو کوڑے دانوں میں رزق تلاش کرنے پر مجبور ہیں کیا ایسا نمائندہ بھی ہے جو ان کے مسائل کو اسمبلی میں زیر بحث لائے ؟ نہیںکیوں؟ہمارے ملک میں جمہوریت بھی ایک نفع بخش کارو بار بن کئی ہے جتنی کوئی سرمایہ کاری کرے گا اتنا ہی نفع بھی حاصل کرے گا یہ اب دولت مندوں کا کھیل ہے عوام میں عوام کے لئے عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔وقت نیوز نے اپریل میں یورپ کے چند ممالک کے وزرائے آعظم کی تصاویر نشر کیں ڈنمارک کی پہلی خاتون وزیرآعظم سائیکل پر اپنے دفتر آرہی ہیں ۔آسٹریلیا کے وزیر آعظم سائیکل پر دفتر آ رہے ہیں ہالینڈ کے وزیر آعظم چھٹی ہونے پر دفتر سے سائیکل پر گھر جا رہے ہیں ۔ڈچ وزیر آعظم گھر سے سائیکل پر دفتر جا رہے ہیں کیوں ؟۔

Protocol

Protocol

کیا انہیں وزارتِ عظمےٰ کا پروٹو کول حاصل نہیں جیسا کہ پاکستان میں جب وزیر آعظم یا کوئی وزیر آعلےٰ..گھر سے نکلتے ہیں دفتر جاتے ہوئے یا کہیں اور جارہے ہوتے تو قیمتی گاڑیوں کی کانوائی اُن کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہوتی ہے اور سڑکوں پر گھنٹوں گزر گاہ عوامی ٹریفک روک دی جاتی ہے،مگر وہ وزرائے آعظم جو سائیکلوں پر دفتر آتے جاتے ہیں۔

وہ عوام میں سے عوام کے لئے عام عوام کے نمائندے ہوتے ہیں اِس لئے انہیں کسی پروٹو کول کی ضرورت نہیں ،پھر جب وہ اپنی مدت پوری کر لیں پھر کبھی شائد ہی کوئی منظر پرآئے بھولی بسری داستان بن جاتے ہیں اگر بہتر کام کیا ہو یاد کئے جاتے ہیںیا اُن کے اقوال یاد رہتے صدیوں تک۔ مگر یہاں تو پی پی پی بھٹو خاندان کی وراثت ہے نون لیگ میاں نواز شریف خاندان کی وراثت ہے ،اے این پی ولی خان خاندان کی وراثت ہے کیا آئندہ پی ٹی آئی کپتان خاندا ن کی وراثت نہیں ہوگی۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع۔م بدر سرحدی