مسلم اکابر خواتین اور ہمارا معاشرہ

Umar Farooq RA

Umar Farooq RA

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
اماں اماں دودھ میں پانی نہ ملانا ۔ فاطمہ بیٹے کیا فرق پڑتا ہے کون سا خلیفہ عمر ہمیں دیکھ رہا ہے۔ اماں اگر خلیفہ نہیں دیکھ رہا تو اوپر اللہ تو دیکھ رہا ہے تب راتوں کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کی حالت جاننے والے خلیفة المسلمین نے یہ سن لیا فاطمہ کو دلاسہ دیا اور اس گھرانے کا وظیفہ مقرر کر دیا یہی بچی فاطمہ بعد میں عمر فاروق کی بہو بنی ۔ خولہ بنت ثعلبہ کو اپنے خاوند نے غصے میں ظہار کر دیا۔ اسے اپنی ماں بنا دیا۔ چھ بچوں کی وہ ماں روتے روتے رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ رسول اللہ ۖ نے واقعہ سنا۔ فرمایااے خولہ میرے خیال میں طلاق واقع ہو گئی ہے۔ نہیں یا رسول اللہ میری جوانی چلی گئی چھوٹے چھوٹے ہیں ۔ میں اس بڑھاپے میں کہاں سے کہلائوں گی ۔ ایک بار دو بار جواب وہی۔

وہ روتی رہی آسمان کی طرف ہاتھ کھڑے کر دیئے ۔ تب وحی نازل ہوئی سورة المجاولہ کی یہ آیت اتری ۔ اے محمد تمہاری اور اس عورت کی باتیں سن لیں اسے کہو اپنی بیویوں کو ماں کہنے سے وہ مائیں نہیں بن جاتیں۔ مائیں تو وہی ہیں جنم دینے اور دودھ پلانے والیاں ۔ اس کا گھر والا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا دو ماہ کے روزے رکھ کر رجوع کر لے اللہ اللہ درد و کرب میں اللہ اور اس کے رسول سے جھگڑا کرنے والی اس عورت کا مقام کیا تھا۔ اسماء بنت ابی بکر گھر کا سارا مال رسول اللہ ۖ اور ان کے ساتھی ابو بکر کو سمیٹ کر دے رہی ہے۔ اور برتن میں پتھر ڈال کر اپنے دادا ابو قحافہ جو نابینا تھے۔ تسلی دے رہی ہے کہ گھر میں ابھی اور مال بھی ہے۔

عائشہ بنت ابی بکر جن کے بستر مبارک پر رسول اللہۖ نماز پڑھ لیتے وحی نازل ہوئی خدیجةالکبری ٰ کا حسن اخلاق سیرت و کردار جس سے متاثر ہو کر پچیس سال کی عمر میں رسول اللہۖ نے چالیس سالہ خدیجہ سے نکاح فرمایا۔ فاطمہ بنت اسد جس نے علی المرتضیٰ جیسے پتر جنے اور رسول اللہ ۖ کی پرورش کی دائی حلیمہ اور ام ایمن کا کردار خولہ بنت خویلد جو غزوات میں اپنے خاوند اور بھائی کے ساتھ برابر کی شریک رہیں ۔ رابعہ بصری اپنے دونوں بیٹوں کی تربیت اس طرح کر رہی ہیں ایک نماز پڑھ رہا ہے۔ دوسرا آگے سے گزر جاتا ہے۔ دونوں ماں سے ایک کہتا ہے اماں آج میرا بھائی نماز کی حالت میں میرے آگے سے گزر ا ہے۔ دوسرا شکائیت کر رہا ہے اماں یہ کیسی نماز پڑھ رہا تھا کہ اپنے اللہ کے دربار میں حاضر ہے اور آگے پیچھے بھی دیکھ رہا ہے۔

Allah

Allah

مجھے تو اللہ اللہ کرتے خبر ہی نہیں کہاں سے گزر رہاہوں کس کے آگے سے گزر رہا ہوں۔ ام عبدالقادر جیلانی کی ماں بچے کو سفر میں بھیج رہی ہیں اور سچ بولنے کی تلقین فرما رہی ہیں۔ گنج شکر کی ماں اپنے سات سالہ بچے کو مصلے کے نیچے شکر کا لالچ دے کر نماز پڑھا رہی ہیں اللہ اللہ کیسی وہ شرم و حیا کی پیکر مائیں قناعت اور اطاعت صبر وشکر اپنے مجازی خدا کی فرما نبرداری بھی اور اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت گزار بھی۔ پردہ اور حجاب کا نمونہ بھی ۔ جو مردوں کے ساتھ ساتھ عظیم صحابیات بھی بنیں۔

ولی اللہ بھی اور فاطمہ الزہرا جیسی جنت میں تمام خواتین کی سردار بھی انہوں نے بھی مردوں کا مقابلہ کیا مگر تقوی پرہیز گاری میں عجزو انکساری قناعت و اطاعت اور صبر وشکر کے ساتھ فقیری میں اورامیری میں بھی شکوہ نہ شکایت چار چار سوکنیں ایک ایک گھر میں۔ خاوند کی تابعداری کے ساتھ اس کے ماں باپ کی خدمت گزار بن کر انہوں نے یہ عظیم مقام و مرتبے حاصل کیے۔ کل کی بات ہے اقبال ، قائداعظم اور انکے رفقائے کار ساتھیوں کی ان پڑھ مائوں نے ایسے عظیم سپوت جنے جنہوںنے ہمارا پاکستان بنایا۔ مگر آج ہمارا معاشرہ ہمارے خاندان ہماری خواتین ہماری مائیں بہنیں اور ہمارے گھرانے جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں۔ ساس بہو کو برداشت نہیں ۔ ساس کو بہو پسند نہیں۔ نند بہو کے جھگڑے دیور بہو کے جھگڑے خاوند ہے یا باپ زندگی اجیرن ہے۔ مرد کبھی ماں کی طرف لڑھکتا ہے تو کبھی بیوی کی طرف نٹ بال بنا ہو اہے۔

Womens

Womens

صبر قناعت اٹھ چکا ہے۔ کروڑ پتی ارب پتی گھرانے سکون نہیں ان گھریلو جھگڑوں نے بیٹا باپ کا گریباں اور بھائی بھائی کا گریبان پکڑے بیٹھا ہے۔ ہماری خواتین نے مردوں سے آزادی اور برابری کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ نام نہاد آزادی مادر پدر آزادی ننگ دھڑنگ آزادی غیروں اور کزن برادرز سے اٹکلیاں کرنے کی آزادی مذہب شریعت سے آزادی ننگے سر گریباں چاک آستینیں گلے تک اور پاجامے گھٹنو ں تک جا پہنچے ۔ مردوزن کی پہچان نہیں سارا معاشرہ سارے ادارے مخلوط مردوزن سے کھچڑی بنے ہوئے ہیں۔ اللہ کا حکم رسول اللہ کی شریعت مومنات خواتین کا جیسا پردہ حجاب اوڑھنیاں سکارف برقعہ عبایا پس منظر چلا گیا ہے یا غریب ان پڑھ دیہاتی خواتین کا بس سرمایہ رہ گیا ہے۔

امیر معاشرے گھرانے خاندانوں کے لئے یہ سب کچھ شجر ممنوعہ بن چکے ہیں۔ سڑکوں بازاروں شہروں اداروں پر قبضہ ان بے پردہ خواتین کی اجارہ داری ان کے لئے پردہ صرف دل کا ہے۔ باقی سب معاف اولاد معصوم بچے دائیوں کے سپرد یا کمپیوٹر ٹی وی کے سپرد دودھ ڈبوں کا درس تعلیم کرائے کی بھلا ایسے گھرانوں اور ایسے معاشرے سے کیونکر اولاد صالح نکلے ۔ حسن و حسین نکلیں۔ غوث اعظم گنج شکر نکلیں۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک نکلیں۔ اقبال و قائداعظم نکلیں۔ اس نام نہاد آزادی نے ہماری ان آزاد خیال بے پردہ خواتین نے مردوں کے مقابلے اور کرسی اقتدار کی حرص نے ہمارے پورے معاشرے کو تمام معاشرتی بیماریوں میں جکڑ رکھا ہے۔

Adultery

Adultery

جس میں اغواہ زنا وہ بھی پانچ سات سالہ بچیوں کے ساتھ۔ دس بارہ سالہ بچیاں بن بیاہے مائیں بن رہی ہیں۔ معصوم بچے محفوظ نہیں جس معاشرے میں مائیں اپنے فرائض بھول جائیں۔ بیویاں اپنی ذمہ داریاں اور بیٹیاں اپنی حیا چھوڑ دیں وہاں تو یہ سب کچھ ہونا ہی ہے۔ پھر کیسا مذہب اور کیسا معاشرہ خدا کے لئے ہماری مائیں ہیں بہنیں ہیں بیٹیاں ہیں یا زوجات المسلمین سب توبہ تائب ہو جائیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزار بن جائیں اپنے ماں باپ کی خدمت گزار اور اپنے مجازی خدائوں کی فرمانبردار بن جائیں مسلم اکابر خواتین کی طرح صبر و شکر قناعت و اطاعت اور شرم وحیا کا پیکر بن جائیں پھر دیکھیں کیسی اولادیں جنم لیتی ہیں۔

پروان چڑھتی ہیں۔ بگڑے ہوئے مردوں کی اصلاح اور کیسا خوبصورت قرون اولیٰ جیسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس میں خواتین کے حقوق عزت وتکریم کے ساتھ ظالم وجابر مردوں کی حوصلہ شکنی بھی ہو سکے گی بھوک ننگ نفرت عداوت حسد ،بغض لڑائی جھگڑوں سے چھٹکارہ بھی ممکن ہو سکے گا۔ یورپ کے مسولینی نے کہا تھا کہ مجھے چند سو صالح مائیں دے دو میں آپ کو ایک مثالی معاشرہ قائم کر کے دونگا۔ ہمارے اس بگڑے ہوئے معاشرے کو صرف و صرف صالح خواتین مائیں ہی درست کر سکتی ہیں۔

Poor

Poor

ورنہ اگر ہمارے معاشرے کی یہی روش جاری رہی تو یاد رکھیں۔ غریبوں کی کچی جھونپڑیوں بستیوں میں عزت و ناموس کی نیلامی جبر و تشدد کی یہ آگ امراء کے محلات میں بھی آن پہنچے گی بے حیائی بے پردگی بدکرداری کا وہ طوفان اٹھے گا کہ سماوی آفات سیلاب زلزلے اور سو نامیاں ہمارے معاشرے اور ملک کا مقدر بن جائیں اللہ نہ کرے کے کھنڈرات میں بدل دیں۔

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر
hajizahid.palandri@gmail.com