بھولے بسرے مسلمان

Mosque Blast

Mosque Blast

تحریر : نعیم الرحمان شائق
جمعۃ المبارک کے بابرکت دن خبر آئی کہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں پہلے تین بسوں کے مسافروں کو اغوا کر لیا گیا اور پھر شناخت کے بعد بیس افراد کو شہید کر دیا گیا ۔ اسی بابرکت دن کو سعودی عرب کے شہر دمام میں مسجد کے باہر خود کش دھماکا ہو ا، جس سے چار افراد شہید ہو گئے ۔واضح رہے کہ سعودی عرب میں یہ دوسرا بم دھماکا ہے ۔ یعنی اب سعودی عرب بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہا ۔ رب تعالیٰ رحم کرے۔ ان دونوں موضوعات پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور لکھا جائے گا ۔ لیکن دنیائے انسانیت ایک ایسا الم ناک مسئلہ بھی ہے ، جس پر بہت کم لکھا گیا ۔ اور وہ مسئلہ ہے ، روہنگیا مسلمانوں کا۔بے شک وہ بھولے بسرے مسلمان ہیں ، ہم انھیں فرا موش کرچکے ہیں ۔ کیوں کہ ہمارے اپنے اتنے سارے مسائل ہیں ۔ ہم کیوں کر انھیں یاد رکھ سکتے ہیں ۔ لیکن اتنی بڑی فراموشی ۔۔۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے لمحہ ِ فکریہ ہے ۔میں نے” بھولے بسرے مسلمان” کی اصطلاح “ٹائم” کے جیمز ناچٹوے سے مستعار لی ہے۔

ٹائم کے یہ صحافی روہنگیا مسلمانوں کے “بھولے ہوئے” مسلمان قراردیتے ہیں ۔یہ صحافی لکھتے ہیں کہ آج سے پانچ سال پہلے جب وہ پہلی بار میانمار کے ایک قصبے میں گئے تو انھوں نے دیکھا کہ راکھائن بدھسٹ مسلمان ماہی گیروں کو سبزیاں بیچ رہے ہیں انھوں نے اس بات کا مشاہدہ بھی کیا کہ وہاں بودھ پنڈتوں اور مسلمان علماء کے درمیان زبردست ہم آہنگی ہے ۔ دونوں مذاہب کے ان اہم لوگوں نے انھیں دعائیں دیں ۔ دونوں مذاہب کے یہ بڑے لوگ انھیں ظالم اور جابر”جنتا ” کے خلاف نظرآئے ۔ لیکن ان دنوں کیا ہو رہا ہے ؟اس کے لیے جیمز نیچٹوے کی اصل عبارت کا ترجمہ ملحوظ ہو : “وہاں ( یعنی اسی قصبے میں) مجھے مارکیٹ میں مسلمان نظر نہیں آتے ۔ ان کو مسجدوں پر بلڈوزر چلا دیا گیا ۔ اس کے باوجود 2012ء کے بعد مجھے وہاں کے ایک سرکاری اہل کار نے مسکراتے ہوئے تبایا تھا کہ کوئی چیز تباہ نہیں کی گئی ، کوئی بھی نہیں۔”

مسئلہ یہ ہے کہ میانمار کی حکومت اور وہاں کے عوام سمجھتے ہیں روہنگیا مسلمان وہاں کے نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلمان ہیں ۔ اس لیے انھیں میا نمار چھوڑ دینا چاہیے ۔ ان کے لیے میانمار میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ انھیں چاہیے کہ وہ جہاں سے آئے ہیں ، وہیں چلے جائیں ۔یہ بڑی عجیب بات ہے ۔ مسلمان میانما ر میں کئی صدیوں سے رہ رہے ہیں ۔اب اچانک انھیں وہاں سے بے دخل کرنے کے لیے ان پر ظلم و تشدد کرنا ۔۔ ان کے لیے ظالمانہ قوانین بنا نا ، تاکہ وہ تنگ آکر میانمار چھوڑدیں اور انھیں کیمپوں کی اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کرنا ۔۔۔ بڑی افسوس ناک اور قابل ِ گرفت حرکت ہے ۔ اقوام ِ متحدہ ان مسلمانوں کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم قوموں میں سے ایک قوم قرار دے کر راہ فرار اختیا ر کر چکا ہے ۔ اور مسلمانوں نے اپنے ان بھائیوں کے لیے کیا کیا ، اس کے لیے درج ذیل پیرا ملحوظ ہو۔

Muslim Immigrants

Muslim Immigrants

“اس سال کے پہلے تین ماہ میں تقریبا پچیس ہزار افراد ، جن میں زیادہ تر میانمار کے اقلیتی روہنگیا مسلمان تھے ، انھوں نے ایک بہتر زندگی کی تلاش میں خلیج ِ بنگال سے ایک کشتی کے ذریعے رخت ِ سفر باندھا ۔ لیکن ان کا خواب شرمندہ ِ تعبیر نہ ہوا ۔ الٹا وہ بے رحم اسمگلروں اور سنگ دل حکومتوں کے بد ترین مظالم کا نشانہ بن گئے ۔ اقوام ِ متحدہ کے مطابق ان میں سے کم از کم 300 افراد بھوک ، پانی کی کمی اور تشدد کی وجہ سے مت کے منھ میں چلے گئے اور 6 ہزار سے 20 ہزار لوگ اس وقت سمندر میں بھٹک رہے ہیں ۔ کیوں کہ انھیں تھائی لینڈ، ملائشیا اور انڈونیشیا نے اپنی اپنی سمندری حدود سے باہر بھگایا ہے۔”

یہ الفاظ فنانشیل ٹائمز کے ایک ادایہ کے ہیں ۔یعنی ایک طرف سمندر کی بے رحم موجیں ہیں ، دوسری طرف اپنے لوگوں کی بے حسی ہے تھائی لینڈ کو چھوڑیے ۔ ملائشیا اور انڈونیشیا تو مسلم ممالک ہیں ۔ ان کو کیا ہو گیا ہے ۔شاید یہ وطن پرستی اور اس قوم پرستی کا شاخسانہ ہے ، جو کہ قوم کو وطن سے ملاتی ہیں ۔ یعنی اگر کوئی انڈونیشیائی اور ملیشیائی سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو رہاہو تو اس بچایا جائے ۔ باقی لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے ۔اس ضمن میں دیگر اسلامی ممالک کا کردار بھی کچھ زیادہ قابل ِ ستائش نہیں ہے ۔کیوں کہ کوئی مسلمان ملک عالمی فورم پر ان بد نصیب مسلمانوں کے حق میں بولنے کے لیے تیار نہیں ۔ نہ کوئی ایشیائی ملک ، نہ کوئی عربی ملک اور نہ ہی کوئی افریقی ملک ۔ حالاں کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات بتاتی ہیں کہ مسلمان ایک جس کے مانند ہوتے ہیں ، اگر جسم کے کسی ایک ھصے کو تکلیف ہوتو سارا جسم اس درد کی کسک کو محسوس کرتا ہے ، اور بے تاب ہو جاتا ہے۔

Muslim

Muslim

لیکن ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ان بھائیوں کی تکلیف پر ذرا پریشان نہیں ہوتے ۔ اور ان کے حق میں آواز اٹھانے سے بھی عار محسوس کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ فعل بہت برا ہے ۔ جس کا ازالہ از حد ضروری ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میانمار کے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو عالمی فورم پر اٹھا یا جائے ۔ کم زور آواز سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ مسئلہ اس وقت حل ہوتا ہے ، جب آواز بلند بھی ہو اور اس آواز کو بلند کرنے والے بھی بہت سارے ہوں میانمار کے مسلمانوں کا مسئلہ بھی اس وقت حل ہوگا ، جب بہت سے مسلمان ایک ساتھ آواز بلند کریں گے۔

تحریر : نعیم الرحمان شائق
shaaiq89@gmail.com