نریندر مودی کا بیان، پاکستان کی کوششیں اور عالمی ردعمل

Modi Speech

Modi Speech

تحریر : محمد صدیق پرہار
کشمیرکے بارے میں بھارتی وزیراعظم کے تازہ بیان نے ہمیں حیرت میںڈال دیا ہے۔اس نے کشمیرکے بارے میں تازہ ترین کون سے خیالات کااظہارکیا وہ توقارئین پڑھ چکے ہوں گے۔نہیں پڑھ سکے تواس تحریرمیں ہم بتادیں گے کہ نریندرمودی نے کشمیرکے بارے میںکیاکہا ہے۔ابھی اس بیان سے پہلے جوکچھ کہا جاتا رہا ہے اس پرایک نظرڈال لیتے ہیں ۔بھارتی ایوان بالا(راجیاسبھا)میں خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے مقبوضہ کشمیرکی صورت حال کاذمہ دارپاکستان کوقراردیتے ہوئے کہا کہ دنیاکی کوئی طاقت ہم سے جموں وکشمیرنہیں لے سکتی۔رجناتھ سنگھ نے کہا کہ پاکستان سے اگربات چیت کاعمل شروع ہواتووہ صرف آزادکشمیرکے مسئلے پرہوگا۔ان کاکہناتھا کہ مقبوضہ کشمیرمیںجاری احتجاج کے پیچھے پاکستان کاہاتھ ہے۔ہم مقبوضہ کشمیرمیں حالات کومعمول پرلانے کیلئے ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔راجناتھ سنگھ کے اس بیان کے بعد مختلف ملکوںمیں تعینات پاکستانی سفیروںکی کانفرنس کے موقع پر مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے کہا کہ کشمیرکے مسئلے پربات کرنے کیلئے پاکستان نے بھارت کومذاکرات کی دعوت دینے کافیصلہ کیا ہے۔

ان کاکہناتھا کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان جامع مذاکرات شروع نہ کرنے کی پالیسی جنوبی ایشیامیںامن کے منافی ہے۔اس کے جواب میںبھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کاکہناتھا کہ تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کیلئے پاکستان کودہشت گردی کی معاونت بندکرناہوگی۔پاکستان کوسرحدپارسے اشتعال انگیزی کوروکناہوگا۔حافظ سعیداورصلاح الدین کی حمایت ترک کرناہوگی۔پڑوسی ملک مذاکرات میں سنجیدہ ہے توممبئی اورپٹھان کوٹ واقعات کی تحقیقات کرے۔اس نے سرتاج عزیزکی مذاکرات کی تجویز کوبھی مسترد کر دیا۔اس نے پاکستان پرالزام لگاتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کوپاکستان سے فروغ ملتا ہے۔دفترخارجہ سے جاری بیان کے مطابق سیکرٹری خارجہ اعزازچوہدری نے بھارتی ہائی کمشنرگوتم بمبانوالے سے دفترخارجہ میںملاقات کی اورانہیں اپنے بھارتی ہم منصب جے شنکرکیلئے دعوت نامہ حوالے کیاجس میں مذاکرات کیلئے پاکستان آنے کی دعوت دی گئی۔

دفترخارجہ کے ترجمان نفیس زکریانے ایک انٹرویومیںکہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرناچاہتا ہے۔بھارت نے ایک بارپھراپنی روایتی ڈھٹائی کامظاہرہ کرتے ہوئے کشمیرپرمذاکرات کے بارے میں پاکستان کی پیشکش مسترد کر دی ۔ ایک ٹی وی انٹرویومیںبھارتی وزیرخاررجہ ششماسوراج نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ صرف سرحدپاردہشت گردی ،ممبئی اورپٹھان کوٹ حملوں اورمتعلقہ ایشوزپربات ہوسکتی ہے۔بھارتی وزیرخارجہ کاکہناتھا کہ مقبوضہ کشمیرکے مسئلے پرپاکستان سے کوئی بات نہیںہوسکتی۔پاکستانی سیکرٹری خارجہ کے لکھے گئے خط کے جواب میں بھارت نے کہا ہے کہ کشمیربھارت کااندرونی معاملہ ہے اس پرمذاکرات نہیںہوسکتے۔بھارت نے کہا کہ صرف دہشت گردی پربات ہوگی۔ترجمان دفتر خارجہ پاکستان ہفتہ وارپریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیرپربھارت سے جامع اور فیصلہ کن مذاکرات ہوں۔

Pakistan and India

Pakistan and India

پاکستان اوربھارت کے درمیان سب سے بڑاایشومسئلہ کشمیرہے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیرکے علاوہ دیگرچھوٹے چھوٹے مسائل پرمذاکرات کئے جائیں۔لیکن جوبڑامسئلہ ہے اس کونظراندازکیاجائے۔ترجمان نے کہا کہ مقبوضہ وادی میں بھارت نے ظلم وستم کی انتہاکردی ہے۔معصوم کشمیریوں کی جانوںسے کھیلاجارہا ہے۔گزشتہ ماہ ٨٠ کے قریب معصوم شہری حق خودارادیت کیلئے جانیں گنواچکے ہیں۔جبکہ ایک سوپچاس سے زائدافرادایک یادونوں آنکھوں سے محروم ہیں۔بھارتی وزیرداخلہ کابیان سفارتی آداب اورسارک چارٹرآف ڈیمانڈکی خلاف ورزی ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا بلوچستان سے متعلق بیان کشمیرمیں ظلم وستم پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔مسئلہ کشمیرپربھارتی موقف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔نفیس زکریانے کہا کہ پاکستان نے کشمیرکے مسئلے کوبارہااقوام متحدہ اورعالمی اداروں کے سامنے اٹھایا ہے اوراٹھاتارہے گا۔اقوام متحدہ کواپنی قراردادوںپرہرصورت عمل کراناہوگا۔ہم حق خودارادیت کیلئے کشمیری عوام کاہمیشہ ساتھ دیتے رہیں گے۔عالمی سطح پراخلاقی اورسفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔

وزیراعظم نوازشریف نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم پراقوام اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کوخط لکھ دیا۔خط میں وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کشمیرپراپنی قراردادوں کے مطابق عملدرآمد کرائے۔انہوںنے مطالبہ کیاکہ کشمیری عوام کوحق خودارادیت دیاجاناچاہیے۔وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنربرائے انسانی حقوق کوبھی خط تحریرکیا۔اس خط میں نوازشریف نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیںانسانی حقوق کی خلاف ورزیاںروکی جائیں۔ اس خط کے جواب میں بان کی مون نے کہا کہ علاقائی امن کیلئے پاکستان کی کوششیں قابل تحسین ہیں بھارت اورپاکستان مسئلہ کشمیرکومذاکرات کے ذریعے حل کریں۔اوراقوام متحدہ اس سلسلے میں ثالثی کیلئے تیارہے۔انہوںنے توقع ظاہرکی مقبوضہ کشمیرمیں کشمیریوںپرتشدد روکنے کیلئے کوششیں کی جائیں گی۔وفاقی وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیرپرپاکستان کے موقف کی حمایت خارجہ پالیسی کی فتح ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش مسلم لیگ ن کی مسئلہ کشمیرپرسفارتی حکمت عملی کی بڑی کامیابی ہے۔

مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے مسئلہ کشمیرکے بارے میں عرب لیگ کولکھے گئے خط میںکہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں اقوام متحدہ کی قراردادوںپرعمل نہیںکررہاااورانسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاںکررہا ہے۔ان کاکہناتھا کہ مقبوضہ کشمیرمیںجاری حق خودارادیت کی تحریک کودہشت گردی سے نہیںجوڑاجاسکتا۔عرب لیگ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت روکنے کیلئے کرداراداکرے۔اقوام متحدہ نے کشمیرمیں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کی پیشکش کی پاکستان نے خیرمقدم کیاجبکہ بھارت نے انکار کردیا۔صدرآزادوجموں کشمیر مسعودخان سے اسلامی تعاون تنظیم کے سکرٹری جنرل پروفیسرعیادامین مدنی کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے وفد نے ملاقات کی۔ عیاد امین مدنی کاکہناتھا کہ اسلامی تعاون تنظیم کشمیری قوم کے حق خودارادیت کی حامی ہے۔مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے مذاکرات کی ضرورت ہے۔جبکہ مسعودخان کاکہناتھا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیرپرمذاکرات کیلئے ہمیشہ آمادگی ظاہرکی ، دہشت گردی کے بھارتی الزام بے بنیادہیں۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

وزیراعظم نوازشریف نے صدرآزاد جموں و کشمیرمسعودخان سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ کشمیربرصغیرکی تقسیم کانامکمل ایجنڈا ہے۔مذاکرات سے پرامن تصفیہ چاہتے ہیں۔کشمیریوںپربھارت کے ریاستی جبر کی مذمت کرتے ہیں۔حق خودارادیت کی جدوجہدنئے جذبے سے جاری ہے۔بھاتی سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ مسئلہ کشمیرکاعدالتی نہیں سیاسی حل نکالا جائے ۔واشنگٹن میںمیڈیابریفنگ کے دوران ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ایلزبتھ ٹرڈوکاکہناتھا کہ مسئلہ کشمیرپرموقف تبدیل نہیںہوا۔تمام دھڑوںپرزوردیتے ہیں کہ مسئلے کے پرامن حل کیلئے کوشش کریں۔کشمیرپرمذاکرات سے متعلق اموردونوںملکوںکوخودطے کرنا ہیں۔مریکہ ہرمثبت اقدام کی حمایت کرتاہے جس سے پاکستان اوربھارت کے تعلقات میںبہتری آئے۔ترجمان نے کہا کہ امریکا کشمیرکے حالات سے آگاہ ہے۔واشنگٹن میں ہی میڈیابریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونزکاکہناتھا کہ خطے کے استحکام کیلئے پاکستان اوربھارت کی کوششوں کی حمایت کریں گے۔

امریکاکاہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اسلام آباداورنئی دہلی بہترتعلقات کے ذریعے دونوںملکوں اورمجموعی طورپرخطے کومستحک کریں۔دونوںملکوں کے درمیان براہ راست مذاکرات چاہتے ہیں۔ اور امریکادونوں ملکوںکے درمیان ہرسطح کے مذاکرات میںمددکیلئے تیارہے۔اس تحریر کے آغازمیں ہم لکھ چکے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم کے تازہ بیان نے ہمیں حیرت میںڈال دیا ہے اوراپنے قارئین سے یہ بھی وعدہ کیاتھا کہ وہ بیان ضروربتائیں گے وہ یہ ہے کہ بھارتی میڈیاکے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیرکی اپوزیشن جماعتوں کے راہنمائوں نے نریندرمودی سے ملاقات کی بعدازاںوزیراعظم آفس سے جاری بیان میںکہاگیاکہ وزیراعظم مودی نے وادی کے موجودہ حالات پرتشویش کااظہارکیااورکہا کہ بات چیت ہونی ہی چاہیے اورآئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اس مسئلے کاحل تلاش کیاجاناچاہیے۔

بیان کے مطابق مودی کامزیدکہناتھا کہ کشمیر میں حالیہ بدامنی کے دوران جوافرادہلاک ہوئے خواہ وہ عام شہری ہوںیاسیکیورٹی اہلکارسب ہندوستانی قوم کاحصہ تھے۔چاہے موت کسی کی بھی ہوہمیں اس پرانتہائی افسوس ہوتا ہے۔کشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمیں سیّد علی گیلانی نے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے بھارتی آئین کے تحت کشمیرپرمذاکرات کے بارے میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے بیان کومستردکرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوںکوان کاحق خودارادیت دینے سے مسئلہ کشمیر کے حل کرنے میںمدداورخطے میںپائیدارامن قائم ہوگا۔انہوںنے بھارتی حکمرانوںکے بیانات کوغیرحقیقت پسندانہ قراردیتے ہوئے کہا کہ جموں وکشمیربین الاقوامی سطح پرتسلیم شدہ تنازعہ ہے۔بھارت کی ضداورہٹ دھرمی اس کی حیثیت کوتبدیل کرسکتی ہے نہ ہی وہ فوجی طاقت کے بل پراس خطے پرہمیشہ کیلئے اپناتسلط برقراررکھ سکتا ہے۔

Hand Shaking

Hand Shaking

ہمیں نریندرمودی کے بیان پرحیرت اس لیے ہوئی کہ مذاکرات سے انکارکرتے کرتے وہ آمادہ کیسے ہوگئے۔غورکریںتویہ کوئی پیچیدہ معاملہ نہیں ہے اس نے آئین کے تحت مذاکرات کاکہا ہے ۔ وہ بھی بھارتی آئین کے تحت۔اس نے مذاکرات کی بات توکی ہے یہ نہیں بتایا کہ مذاکرات کس سے ہونے چاہییں۔یہ بھی ہوسکتا ہے اوریقینی بات ہے کہ مودی نے دنیاکی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے اوریہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم تومذاکرات کیلئے تیارہیں ۔ حالانکہ مسئلہ کشمیرکاحل اقوام متحدہ کی قراردادوں میںموجودہے۔ مودی کوکشمیرکے حالات پرواقعی تشویش ہے اورمسئلہ کشمیرحل کرناچاہتا ہی ہے تواقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کرکے کشمیریوںکوحق خودارادیت دے دے۔

بان کی مون اورامریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان اوربھارت کے درمیان مذاکرات کی حمایت کااعلان کیا۔ قیام امن کی کوششوں پر کوششوںپرپاکستان کی تعریف بھی کی۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ واقعی ایسا چاہتے ہیں تووہ بھارت سے کیوںنہیں کہتے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کرتے ہوئے کشمیریوںکوحق خودارادیت دے۔ اقوام متحدہ دونوںملکوں کے درمیان ثالثی پرتوتیارہے لگتا ہے وہ اپنی ہی منظور کردہ قراردادوںپرعمل کرانے کیلئے تیارنہیں۔جب مسئلہ کشمیرپراقوام متحدہ کی قراردادیںموجودہیں پھرمذاکرات کی حمایت اورثالثی کی کیااہمیت رہ جاتی ہے۔ مودی ایک طرف مسئلہ کشمیرحل کرنے کی بات کرتے ہیں دوسری طرف کشمیرمیں ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ سے کرفیوجاری ہے۔کشمیریوں پرظلم بھی جاری ہے۔

مودی کرفیوتوختم کرسکتے ہیں۔ کشمیریوںپرظلم توروک سکتے ہیں۔ یہ عالمی ادارے پاکستان اورکشمیرکی حمایت کررہے ہیں یاآنکھوںمیں دھول جھونک رہے ہیں اس کافیصلہ قارئین خودکریں۔ستمبرمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف ایک بارپھربھارت کے کرتوت بے نقاب کریں اوراس کے خلاف تمام ثبوت دنیاکے سامنے رکھیں۔اس اجلاس میں یہ مطالبہ کریں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوںپرعمل نہ کرنے کے جرم میں بھارت پربھی پابندیاں عائدکی جائیں اوریہ پابندیاں تب تک برقراررکھی جائیں جب تک وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل نہیںکرتا۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com