قومی زبان کی جلاوطنی آخر کتنی طویل ہے؟

Urdu

Urdu

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
طرز معاشرت اور لسانی وجوہ کی بنیاد پر ہی برصغیر کا بٹوارہ ہوا ۔کیونکہ ہندو اور انگریز کو اردو کا قومی زبان ہونا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔جس کی وجہ سے ایک الگ مملکت کی بنیاد پڑی آج ہم اسی زبان کو اس مملکت سے جلا وطن کئے بیٹھے ہیں ۔کبھی کبھی میں حیران ہوتا ہوں کہ جانور تک اپنی زبان ہی میں ایک دوسرے تک پیغام رسانی کرتے ہیں ۔میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ شیر ہاتھی کے لہجے اور زبان میں اپنی شناخت کرواتا ہو ،کبھی یہ دیکھنے کو نہیں ملے گا کہ ہرن کتے کی زبان میں بول رہا ہو ،کبھی شاہین کو کبوتر کی زبان اپناتے نہیں دیکھا گیا ۔ایک مثل مشہور ہے کہ مینا ہمیشہ اپنی زبان بولتی ہے تبھی آزاد رہتی ہے اور طوطا غیر کی زبان سیکھ کر بولتا ہے اسی وجہ سے غلامی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔تو پھر کیوں ہم انسان ہو کر اور پھر پاکستانی ہو کر اپنی قومی زبان سے اجتناب برت رہے ہیں۔

غلامانہ ذہن کی غلامانہ سوچ ہم پر غالب ہے ہم اپنے ملک کی قومی زبان کو شجر ممنوعہ سمجھ بیٹھے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی طالبعلم ایم اے اردو کرتا ہے تو اسے بھی ڈگری انگریزی میں پرنٹ کی ہوئی ملتی ہے ۔یہاں کسی سرکاری ادارے میں آپ اردو میں درخواست دینے لگو تو آپکو ایسے دیکھا جائے گا کہ جیسے آپ جاہل آدمی ہو کیونکہ انگریزی میں لکھی ہوئی درخواست انکو آپ کے پڑھے لکھے ہونے کے ثبوت کی فراہمی کا سبب بنتی ہے ۔جدید چین کے بانی مائوزے تنگ انگریزی زبان پر مکمل دسترس رکھتے تھے مگر اپنی ساری زندگیانہوں نے کبھی بھی کہیں بھی انگریزی بولنا گوارہ نہ کیا اور اپنی چینی زبان کو فخریہ لب و لہجے میں بولتے تھے ۔یہاں تک کہ کبھی کسی محفل میں اگر کوئی انگریزی میں ہنسی مذاق والی بات کرتا تو وہ سمجھ جانے کے باوجود سپاٹ چہرے کے ساتھ یوں سنتے جیسے وہ ستے سے انگریزی جانتے ہی نہیں پھر وہی بات مترجم انہیں چینی زبان میں سناتا تو وہ کھلکھلا کر ہنستے۔

یہ ہے اپنی قوم اور قومی زبان سے لگاوٹ کی اعلی ترین مثال ۔اور ادھر ہمارے ہاں اگر عدالت بھی اردو کو دفتری زبان بنانے کا فیصلہ صادر کرے تو اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے اور پھر اردو نا منظور ،نامنظور کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں ۔غلامانہ ذہنیت کے لوگ اپنے آپ پر غلامانہ سوچ کو حاوی کئے بیٹھے ہیں اور انگریزی کا طوق غلامی اپنی گردن سے اتارنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ بیچارے اردو والوں کو تو یہ جاہل اور گنوار گردانتے ہیں ۔غلط ملط انگریزی بول بول کے یہ لوگ پوری دنیا میں اپنی جگ ہنسائی کروا کر کتنے مطمئین ہیں میں نے نہیں دیکھا کہ روسی صدر ولادیمیرپیوٹن روسی زبان کو پس پشت ڈال کر انگریزی کا پرچار کرتے پھر رہے ہوں ،مجھے کہیں دکھائی نہیں دیا کہ جاپان ،چائینہ ،کوریا ، تھائی لینڈ کے سربراہان نے خود پر انگریزی کو مسلط کر رکھا ہو۔

Pakistan

Pakistan

جب تک ہم اپنی قومی زبان کو جلا وطن کئے رکھیں گے ہمارا دنیا میں الگ تشخص اپنا وجود کھو دے گا ۔یہ آئی تھنک I THINKاوریو نو YOU KNOWکے پرچارک اپنی زبان میں گفتگو کو توہین سے تشبیہ دیتے ہیں تو کیا جب یہی لوگ بیرونی دوروں پر جا کر غلط انگریزی بول کر شرمندگی کا باعث نہیں بنتے ملک و قوم کے لئے ؟ہندوستان کی دفتری زبان ہندی ہے ،بنگلہ دیش جس کا خواندگی کا معیار ہم سے بہت آگے ہے انہوں نے بھی دفتری زبان اپنی زبان کو ہی رکھا ہوا ہے اور پاکستان کے رہنے والے اپنی دھرتی کو مادر وطن بھی کہتے ہیں اور اس کی قومی زبان سے منحرف بھی ہیں کیا یہ دھرتی سے بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا ؟ اگر آج سے آپ اپنے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اردو رائج کر دیں اپنی نسلوں کی بہتر تعلیم کے لئے تعلیمی اداروں میں اردو کا نفاذ کر دیں تو دیکھیں کہ آئیندہ نسلوں کی جڑیں بھی دھرتی کے ساتھ جڑی رہیں گی اور ترقی کی منازل بھی کتنی تیزی سے طے ہوتی ہیں۔

یہ المیہ نہیں کہ پہلی جماعت سے لے کر ایم اے تک صرف انگریزی پر ہی زور دیا جا رہا ہے اور تمام سکولوں کو انگلش میڈیم کر کے ہم کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ؟کہ ہماری اپنی کوئی شناخت نہیں یا ہماری قومی زبان کی ہمارے مستقبل کو کوئی ضرورت نہیں ؟یاد رہے کہ جاپان نے امریکی تسلط میں رہتے ہوئے بھی نظام تعلیم اپنا رکھا اور اپنی زبان کو ہمیشہ اولیت دی تبھی ترقی کی لا محدود منازل کو طے کیا ۔آخر ہم ہی احساس کمتری کا شکار کیوں ہیں ؟ہم بڑے فخر سے تعلیمی اداروں کے بورڈوں پر جلی حروف میں لکھ رہے ہیں کہ مکمل انگلش میڈیم آکسفورڈ سلیبس کیا اس میں قوم کی تکریم ہے یا تذلیل ؟ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ ہماری قومی زبان اردو ہے اور اس قومی زبان کے ساتھ سلوک کیا کر رہے ہیں کہ ماسٹر ڈگری اگر اردو میں کرو تو اختیاری مضمون جان کر ؟قومی زبان کے ساتھ اس سے بدتر سلوک اور کیا ہوگا کہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں اسے شجر ممنوعہ سمجھ کر اکھاڑ پھینکا ہوا ہے۔
پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

ہم نے تو زبان غیر کا مکمل لبادہ ہی اوڑھ لیا ہے اوراپنی قومی زبان کو اس دھرتی کے سرکاری اداروں میں گھسنے کی اجازت نہیں جس کیوہ قومی زبان کہلاتی ہے اپنی زبان کے ساتھ ایسا ظالمانہ رویہ ختم کر کے اپنے آپ کو پاکستانی قوم سمجھ کر قومی زبان کو ملک میں کلی طور پر نافذ کر کے اس پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے۔

Dr M H Babar

Dr M H Babar

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile;03344954919
Mail;mhbabar4@gmail.com