فطرتی چناؤ اور بقائے اصلح کی حقیقت

Universe

Universe

تحریر : فیضان رضا سید
مفروضۂ اِرتقاء کی حامیوں کا دعویٰ ہے کہ تمام مخلوقات ’فطری چناؤ‘ یا ’بقائے اَصلح’کے قانون کے تحت ارتقاء یافتہ ہوئی ہیں۔۔۔اس کے مطابق انسان یک خلوی جاندار سے ارتقاء پاکر حالات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرتا ہوا موجودہ ہیئت تک پہنچا ہے۔۔ فطری چناؤ کے مطابق ہر جاندار نے اپنے حالات، ضروریات اور ماحول کے مطابق اپنے وجود میں بہتری لانے کے عمل کو جاری رکھا اور اپنے آپ کو موجودہ وجود میں متشکل کرنے کے قابل ہوا۔۔ یعنی غیر جاندار جسم سے پہلے یک خلوی جاندارمیں تبدیل ہوا۔

پھر اسی فطری چناؤ کو محسوس ہوا کہ دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے بل کھاتے کان، سونگھنے اور سانس لینے کے لیے ستواں ناک، بولنے کے لیے تھرتھراتی زبان، سوچنے کے لیے ایک اچھوتا دماغ، خون کی ترسیل و دوران کے لیے دھڑکتا دل، سانس لینے کے لیے پھیپھڑے، چلنے کے لیے خاص زاویئوں اور لمبائی پر پاؤں اور ٹانگیں، ہاضمے کا نظام، اخراج کا نظام اور نروس سسٹم وغیرہ کے نظاموں کو تشکیل دینا ہے۔۔ ارتقاء پرستوں کے نزدیک حالات کے مطابق اپنے آپ کو بہتر سے بہتر بنانے کا یہ عمل بہت سست لیکن جاری و ساری ہے اور اس قسم کاتبدل ہزاروں لاکھوں سال پر محیط ہوتا ہے ۔۔ لمحہ بھر کے لیے ان کی بات مان بھی لی جائے تو میرے ناقص ذہن کوکوئی ارتقائی سائنس دان چند باتوں کا جواب عنایت کردے گا۔

1۔تغیر کا یہ عمل اگر لاکھوں سال پر محیط ہے تو اس کا مطلب ہے انسان کی موجودہ ارتقائی شکل کئی لاکھ سال کے فطری چناؤ کے بعد لاکھوں سال پہلے وجود میں آئی ہوگی۔۔اس حساب سے انسانی آبادی کا تناسب بہت زیادہ بنتا ہے ۔ صرف یہ دیکھ لیں کہ پچھلے ایک ہزار سال میں آبادی کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔۔ اگر پہلا مکمل انسان کئی لاکھ سال پہلے اس دنیا میں آچکا تھا تو آبادی کے بڑھنے کا عمل اتنا سست کیوں رہا؟آپ یہ دعویٰ تو ہرگز نہیں کریں گے انسان نے اپنی نسل بڑھانے کے عمل کو کئی عرصہ تک روکے رکھا کیونکہ یہ تو ہمارے فرضی بیان کہ بقائے اصلح ہوئی ہے کو بھی باطل کردے گا۔۔

Battle

Battle

اگر آپ کہتے ہیں کہ پہلے لوگ جنگ و جدل کی نذر ہوتے رہے ہیں تو جناب من آپ ہر صدی میں جنگ کے دوران قتل ہونے والے افراد کی شرح نکال لیں توپچھلی ایک صدی میں جتنے لوگ جنگوں میں مارے گئے ہیں انسانی تاریخ کی کسی صدی میں اتنے لوگ قتل نہیں کیئے گئے۔۔آپ شاید کہیں کے پہلے لوگ علاج نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریوں اور حادثات کا شکار ہوکر ہلاک ہوتے رہیں جس سے انسانی آبادی بڑھنے کا عمل سست روی کا شکار رہا ہے تو یہ بات بھی ناقابل ہضم ہے کیونکہ جدید دور جتنی قسم کی مہلک بیماریوں کا شکار ہے تاریخ انسانی میں ان کا ذکر بھی نہیں ملتا۔۔نیز ہم جتنے حادثات کا شکار ہیں ماضی میں اس کی عشر عشیر بھی کوئی مثال نہیں دکھتی۔۔چنانچہ اس الحادی منطق کی رو سے اس زمین پر اس قدر انسانی آبادی ہوجانی چاہیئے تھی کہ یہاں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔

2۔ پورے جسم سے ہم صرف ایک عضو آنکھ کی مثال لے لیتے ہیں۔۔ مان لیا کہ فطری چناؤ کو لگا (جو کہ حقیقتاً ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ فطری چناؤ کو کیسے معلوم تھا ارتقاء کی سب سے بہترین منزل کیا ہے لیکن چونکہ ہم فر ض کر رہے ہیں کہ فطری چناؤ ہوا ہے اس لیے ہم اس پہلو سے ارتقائیوں کو تنگ نہیں کریں گے) دیکھنے کے لیے بہترین آنکھیں کیا ہوسکتی ہیں، چنانچہ اس نے بہترین آنکھوں کے حصول کی کوشش کو برقرار رکھا اور جب تک انسانی آنکھ موجودہ پرفیکشن تک نہیں پہنچی اصلاح کا عمل جاری رہا۔۔ اس کو عقلی دلائل کی روشنی پر پرکھ کر دیکھ لیتے ہیں۔۔کیا یہ ارتقاء ایک ہی انسان پر ہوتا رہا ہے؟ آپ یقیناً نہیں کہیں گے۔۔ انسانی نسل پھیل چکی ہے۔۔ مختلف انسان علاقوں میں بٹ چکے ہیں لیکن دیکھنے کا عمل مفقود ہے، کیونکہ آنکھوں پر ارتقاء کا عمل جاری ہے۔۔

میرا ناقص سا سوال ہے کہ مختلف انسانوں پر ہونے والا یہ ارتقاء کا عمل ایک ہی طرح کی آنکھوں پر کیوں منطبق ہوا؟ سب میں وہ ہی ریٹینا، وہ ہی لینز، وہ ہی آپٹیکل نروزوہ ہی طریقہ بصارت۔۔۔ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ بعض انسانوں میں ارتقاء کے عمل سے آنکھیں تو بنیں، لیکن کسی کی آنکھیں گالوں پر بنیں، کسی کے سر کے پیچھے، کسی کے ماتھے کے اوپر، کسی کی گردن کے نیچے وغیرہ وغیرہ۔۔؟؟ ایسے ہی باقی اعضائے جسم کی کہانی ہے جن کا انجام ایک ہی طرح کے انسان پر ہوا۔۔آپ جھٹ سے کہیں گے کہ یہ ہی تو بقائے اصلح ہے جو بہترین تھا وہ رہ گیا باقی سب مٹ گیا تو حضور ِ والا اس کا فیصلہ کون کرے گا یہ آنکھیں ہی بہترین ہیں؟ کیوں کہ یہ باقی رہ گئی ہیں ؟ کیا مذاق ہے۔۔۔!! اس قسم کی بحاث میں ایک بڑی” زبردست” قسم کی دلیل دی جاتی ہےکہ جناب تحقیق کا عمل جاری ہے۔

Scientist

Scientist

سائنسدان ان سب کی کھوج میں سرگرم ہیں اور جلد ہی ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ پتہ چلا لیں یہ فطری چناؤ سب نسل انسانی میں ایک ہی طرح کا کیوں ہے؟ ہم اتنی سی عرض کر یں گے کہ جب تحقیق تمام نہیں ہوئی، کھوج مکمل نہیں ہوئی تو اس بات کو لے کر اتنا واویلا اور شور کیوں ہے؟ آپ اہل مذہب کو خدا کے تصور سے کیوں ہٹانا چاہتے ہیں جب آپ خود اپنی تحقیق پر پریقین نہیں ہیں؟ مجھے کوئی ایک ارتقائی دکھادیں جو ارتقاء کے عمل پر یقین سے دعویٰ کرسکتا ہو؟ یہ صرف ایک مفروضہ ہے اور رہے گا اور اس کی بنیاد پر خدا کے تصور کو مٹانا سراسر جہالت ہے۔۔

3۔تحقیق کے مطابقرُوئے زمین پر موجودتقریباً 15 لاکھ اَقسام پر مشتمل زِندہ مخلوقات کے مقابلے میں معدُوم مخلوقات کی تعداد 100 سے زیادہ نہیں ہے۔اگر 15 لاکھ زندہ اقسام اپنے آپ کو مختلف حالات و ماحول کے مطابق برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئیں تو کیا وجہ ہے انسان کی بقائی اصلاح کے سفر کا ایک کے علاوہ کوئی بھی مسافر اس وقت حیات نہیں ہے؟؟؟ انسان جیساعجوبہ بنانے میں کتنی گمشدہ کڑیاں ہیں جن کو ڈھونڈنے میں ارتقائی ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔۔انسان کی موجودہ حالت کے علاوہ باقی وہ تمام کردار منظر سے غائب ہیں جنہوں نے انسان کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔۔ آخر کیوں۔۔۔؟؟؟؟ وہ تمام انسان جن میں مختلف قسم کا ارتقاء ہوا صفحہ ہستی سے کیوں مٹ گئے؟۔

مثال کے طور پر دو مختلف ابتدائی انسان جنہیں چلتے ہوئے اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے “فطری چناؤ” نامی مشین سے اپنی ٹانگیں بنوانی ہیں تو ایسا کیوں نہ ہوا ہوگا کہ ایک انسان کو توازن کے لیےاپنی دو ٹانگوں کی ضرورت پڑی ہو جبکہ دوسرے کو تین ٹانگوں کی۔۔ تو ایسا کیا ہے کہ وہ تین ٹانگوں والا انسان تو اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا کیونکہ وہ “فطری چناؤ” کو پسند نہ تھا اور یہ دو ٹانگ والا انسان اپنے آپ کو برقرار رکھ سکا کیونکہ یہ Survival of the fittest تھا۔۔

Syed Faizan Raza

Syed Faizan Raza

تحریر : فیضان رضا سید
03457227990
Faizanshah.raza@gmail.com