فطری جذبے سے جدائی

Love

Love

تحریر : عرفانہ ملک
لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھایا شیریں فرہادیہ کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں۔ ان کی عشق و محبت کی داستانوں سے ہم خوب سے خوب تر واقف ہیں۔ یہ اور بات کے اب اس عشق و محبت کی داستانیں صرف ہمیں کتابوں میں ہی ملتی ہیں۔ حقیقی زندگی میں ان کا کوئی کردار نہیں اور یہ قصے ایسی یاد بن کررہ گئے ہیں جن کو جب دل چاہا یاد کر لیا۔ اس کا ہماری زندگی میں کوئی کردار نہیں۔ کیونکہ بڑے بڑے دعوں کے بعد شادی ہو جاتی ہے۔ تو چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات والی کہاوت دیکھنے کو ملتی ہے۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ شادی کامیاب ہوئی یا پھر ناکام۔ یقینا محبت بھی بعض اوقات ان تمام حقیقتوں کا سامنا کرتی تھی جو حقیقتیں پیار و محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ جینے مرنے کے وعدے کرنے والے اکثر چھپاتے رہتے ہیں۔

بے چارہ لڑکا تو کبھی لڑکی زمانے سے ”کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کر ”آنکھ بند کرلیتے ہیں اورشاید یوں سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا گول ہے۔ مطلب کہ اپنی اپنی حیثیت اور تھوڑا اوقات سے نیچے بے چارے ایک دوسرے کو اپنی تمام تر خوبیاں بیان کردیتے ہیں۔اسی حوالے اکثر ہم سوشل میڈیا پر بھی دیکھتے رہتے ہیںکہ جس میں لڑکا گائوںکے کسی کھیت میں کام کرتے ہوئے اپنی محبوبہ کو فون پہ یہ تاثردیتا ہے کہ میں آفس میں ہوں انتہائی اہم میٹنگ چل رہی ہے۔

Parting

Parting

فارغ ہوتے ہی تم سے رابطہ کر لوںگا۔دوسری جانب لڑکی بھی اپنے پتے پھینکتی ذرابرابردیر نہیںکرتی ہے ۔موصوفہ کہتی ہیں جی میں بھی ذرا شاپنگ کرنے نکلی ہوں ۔زیادہ نہیںبس دس بیس ہزار کی کر نی ہے۔کیا کروں کوئی ڈریس آنکھوں کو جچتا ہی نہیں۔ آپ فارغ ہولیں تو بات کرتے ہیں۔اوکے بائے۔۔۔

یہاں پہ اپنے قارئین کے لئے مشہورزمانہ کہانی”گھر سے گھر تک ”کاضرورذکر کرنا چاہوںگی۔کہ جس میں لڑکے والے کرائے کی گاڑی میں ،کرائے کے کپڑوںمیں لڑکی کا ہاتھ مانگنے آتے ہیں۔اوریہاںناظرین کی ہنسی اس وقت چھوٹ جاتی ہے جب یہ منظر لڑکی کے گھرمیں بھی چل رہا ہوتا ہے ۔لڑکی والے بھی پڑوسیوںکے برتن ،کپڑوں اورنہ جانے کن کن چیزوں سے لڑکے والوںکا سواگت کرتے ہیں۔لیکن جب پردہ اٹھتا ہے تو دونوںگھرانے اپنی اپنی حرکت سے لوٹ پوٹ ہوتے نہیں تھکتے۔

جناب یہاں تو معاملہ ہی کچھ اورہے۔اگر آپ کو شادی سے پہلے حقیقت کا پتا چل جائے تو ٹھیک ۔ورنہ شادی کے بعد لڑکے کا دفتر،لڑکی کی شاپنگ اُ ف اللہ کن کن باتوںکا ذکرکروں۔ایسے میں اکثرشادیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔وجہ لڑکے کی بتائی ہوئی خیالی شاہ خرچیاں ،یاپھر شادی سے پہلے کا دوست کاسکوٹریا موٹرسائیکل اورآج کل تو گاڑی۔لڑکی کا کسی امیر سہیلی کا سوٹ۔واللہ جی بھرکے ہنسے کو جی جاتا ہے۔

Wedding

Wedding

ہنسنا منع ہے شادی کے بعد کی بیڑیاں لڑکی کو شادی سے پہلے کی جنت کی بھرپوریاد دلاتے ہیں۔شادی سے پہلے جیسے اِدھر اُدھر گھوم پھر لیا۔موج مستی کرلی۔لیکن جونہی شادی کے پاکیزہ بندھن میں بندھے ،حقیقت کھلی،تمام وعدے قسمیں ٹوٹ گئیں اور مشہورزمانہ گیت یا غزل ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ” اپنے موبائل فون کی زینت بنا دی۔جہاں جہاں بھی بے چارہ لڑکا جاتاہے اسی ٹون کو سن کراپنے حسین مگر جھوٹے ماضی کو یاد کرتارہتاہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی ،یہی حال لڑکی کا بھی ہوتاہے۔وہ بھی باتوںباتوںمیں آسمان سے چاند تارے لیکن چونکہ زمانہ جدید ہے اس لئے الگ گھر،اچھا کھانا،اچھے پہناوے کی فرمائشیں کرتی نہیں تھکتی ۔مگر”اب کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت”۔اپنے سر کو پکڑکر بیٹھ جاتی ہے۔

کبھی کبھی پڑوسیوںسے فرمائش کرکے شہنشاہ قوال استادنصرت فتح علی خان کی وہ مشہورغزل لگانے یا سنانے کی فرمائش ضرورکرتی ہے۔کہ جس میں وہ یوں فرماتے ہیںکہ یہ عشق نہیں آساں ۔۔۔بس اتنا سمجھ لیجیے ۔۔۔اک آگ دریا ہے۔۔۔اورڈوب کے جاناہے۔۔۔۔باقی کا آپ خود سن لیں۔کیونکہ جناب اس کی بڑی وجہ اپنے مسائل کے سامنے ہم محبت کے فطری جذبے کوایک تابوت میں دفنا کراس میں آخری کیل ٹھوک چکے ہیں۔آگے آگے ہم ہیں اورپیچھے ہمارے مسائل ۔اوراسی بھاگ دوڑ ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔اس ترقی یافتہ دورمیں ہر چیز ایک مشین کی صورت اختیار کرچکی ہے۔اب ہم بھی کسی روبوٹ سے کم نہیںرہے۔ہم نے یہ راستہ خود چناہوتاہے۔جس راستے پر چل کر سکھ چین کی تلاش میںہم ا پنا سب کچھ کھو دیتے ہیں۔ایسے میں اپنے پیا ر کا گلا گھونٹ کر عشق کی تلا ش میں نکلنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔پُرانا مکان ،پھر نیامکان،ایک زمین کی منتقلی یا پھر دوسری کی۔اسی چکر میں ہم دنیا سے انتقال کرجاتے ہیں۔اوربقول شاعر کہ

زندگی جہدمسلسل کی طرح کاٹی ہے میںنے
جانے کس جرم کی سزا پائی ہے میں نے

پیار کی کہانیاں صر ف ہمارے مسائل کے گرد گھومتی رہتی ہیں۔زندگی کی اس دوڑمیں اسی حقیقی جذبے کو بہت پیچھے چھوڑآئے ہیں۔جیت ہمارے مسائل کی ہی ہوتی ہے۔محبت نام کا کہیںبھی پتا نہیں چلتا۔اس لئے کیونکہ ہم محبت کی جنگ نہیںلڑرہے ہوتے بلکہ وسائل کے لئے تگ ودو کرتے ہیں۔

Irfana Malik Logo

Irfana Malik Logo

تحریر : عرفانہ ملک