کیا نواز شریف نااہل ہو چکے ہیں؟

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
پاکستانی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو جہاں اپنے ذاتی اثاثے ظاہر کرنا ہوتے ہیں وہیں اپنی بیوی ،اپنی اولاد اور دیگر لواحقین کی بھی ملکیتی جائداد کا گوشوارہ فارم نامزدگی میں پر کرنا ہوتا ہے۔مگر الیکشن کمیشن کے نامزدگی فارموں میں نوازشریف نے بطور امیدوار قومی اسمبلی2013میں اس کا ذکر تک کرنابھی مناسب نہیں سمجھا ۔حقائق چھپانے سے آدمی جھوٹا ہو جاتا ہے اور کوئی جھوٹا شخص آئین کے آرٹیکل کی شق نمبر2 کے مطابق الیکشنی امیدواری سے ہی نااہل ہو جاتا ہے۔ اب تقریر دلپذیر میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان لمبی مہلت حاصل کرنے اور خود کو نااہلی سے بچانے کے لیے ڈھونگ رچاڈالنے کے مترادف ہے۔ا ہم راہنمایان اور پوری قوم ایسے کسی نام نہاد کمیشن کے بنائے جانے کو مسترد کرچکی ہے۔خود ساختہ کمیشن کا جو نتیجہ نکلے گا وہ سبھی کو معلوم ہے۔

تقریباً سبھی ممالک کے بادشاہ ان کے شہزاد گان سارے پاکستانی حکمرانوں کی طرح کرپشن ،منی لانڈرنگ اور بیرون ممالک کے بنکوںمیں ا ربوں ڈالر مدفون کرنے اور آف شور کمپنیاں بنانے میں شہرت یافتہ ہیں ۔کچھ کو تو ان کے ہی عوام نے حتیٰ کہ باڈی گارڈز اور بااعتبار فوجیوں نے وقت آنے پر بھون ڈالا شہنشاہ ایران بھاگا تو کسی ملک میں جائے پناہ بھی نہ مل سکی حتیٰ کہ مدفون ہونے کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی۔

شریفوں کے پاکستان سے خود کو سعودی عرب شفٹ ہونے پر ائیر پورٹ پر الوداع کہنے کو بھی کوئی نہ تھا۔پاکستان چونکہ لاکھوں مسلمان مائوں ،بہنوں ،بیٹیوں ،بیٹوں و بزرگوں کی قربانیوں اور شہادتوں سے بننے والا دنیا کا واحد نظریاتی ملک ہے۔اسلئے جب بھی اس ملک کا کسی طرح نقصان یا رسوائی ہوتے دیکھتے ہیں تو سبھی پاکستانی خون کے آنسو روتے ہیں اور سخت ہیجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔اب پانامہ لیکس کے انکشافات اور پھر سوئس بنکوں میں اربوں ڈالر پاکستانی حکمرانوں اور ان کے شہزادوںکے جمع ہونا عوام میں سخت تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

Pakistan Army

Pakistan Army

شہدا کے وارث خاندان کے عظیم سپوت خدا کی مہربانیوں سے افواج پاکستان کے سربراہ ہیں اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے تیغ براں بنے ہوئے ہیں۔ہوش اور عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔جذباتیت اور اقتدار ی خواہشات کی غلامی کرتے ہوئے ہم نے آدھا ملک گنوا ڈالا تھا مرحوم بھٹو صاحب کو تو سلامتی کونسل میں پاکستانی نمائندہ نامزد کرکے بھیجا گیا تھا یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھارتی فوجیں مشرقی پاکستان کا بارڈر کراس کرکے اندر داخل ہو چکی تھیں اور جنگ آخری مراحل میں تھی مگر انھوں نے پو لینڈ کی قرارداد جس میں جنگ بندی کا فوراً اعلان مقصود تھا۔وہ پھاڑ کر جذباتی انداز میں کہ ہم واپس جائیں گے اور جنگ جاری رکھیں گے۔ اور کسی بحث و تمہیض میں حصہ لیے بغیر اجلاس سے باہر نکل پڑے ۔ اور واپس پاکستان آگئے ۔ یہ سارا ڈارمہ دراصل یحییٰ بھٹو معاہدہ پر عمل در آمد کے لیے ہی تھا۔

اس وقت تک مسٹر بھٹو در پردہ یحیٰی خان سے اس کی صدارت اور اپنے لیے مغربی پاکستان میں مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لیے کمپرو مائز کرچکے تھے۔پی پی پی والے کھلم کھلا کہتے پھر رہے تھے کہ بنگالیوں سے جان چھڑائو اور یہاں پورا اقتدار حاصل کرو۔اگر ملک متحد رہتا تو ہر صورت وزیر اعظم مجیب الرحمٰن ہوتے اور بھٹو کواپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پڑتا۔قرارداد پھاڑ کر واپس آجانے کے چند ہی روز بعد اٹھانوے ہزار مسلم سپاہ نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیے۔ہندو قابض ہو گیا۔وہ دور بد کردار یحیٰی خان اور جذباتی اور اقتدار کے لالچی بھٹو کا تھا۔ اور اندرا گاندھی بھی ہمیں نظریہ پاکستان کو بحیرہ بنگال میں دفن کرنے کا اعلان سنانے پر تلی ہوئی تھی۔جونہی ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالے گئے اورپاکستان ٹی وی نے خبر نشر کی تو ہم چند دوست قلعہ کہنہ قاسم باغ سے ملحقہ خیبر ہوٹل میں بیٹھے تھے۔

ملتان کے جذباتی پیپلیوں نے اٹھ کر جھومر ڈالنا شرو ع کردیا کہ اب یہاں اقتدار ہمارا ہے۔ہم خوں کے آنسو روتے رہے اور وہ ڈانس میں مشغول۔لڑائی جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا کہ ہوٹل انتظامیہ نے بیچ بچائو کرواڈالا۔آج تو سیاسی جنگل میں اگنے ،بڑھنے اور قد آور ہو جانے والے زہریلے درختوں پر کڑی نظر رکھنے اور انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا آسان ہے۔سیاسی معاشی دہشت گردوں ، جغادری کرپٹ سیاستدانوں سے اگر جان نہیں چھڑائی گئی تو ملک مزید دشواریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔جو مال لوٹ کر خزانوں کی خوردبرد کرکے بیرون ممالک جمع کروائے بیٹھے ،پلازے فلیٹس تعمیر کیے ہوئے اور آف شو کمپنیوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں وہ پاکستانی معاشرے کے انتہائی غلیظ ترین افراد ہیں ان کی سرکوبی کی جانی اور لوٹا ہوا مال واپس ملک میں لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ دہشت گردوں کی پٹائی۔

Corruption

Corruption

اگر پاکستانی سیاسی جنگل کی صفائی ستھرائی نہ کی گئی اور اقتدار پھر سامراجی گماشتوں ،نودولتیے سرمایہ داروں ،لوٹ کھسوٹ میں ملوث ،سود در سود لینے والے اور کئی گنا منافع وصول کرنے والے کرپٹ صنعتکاروں ،ظالم وڈیروں ،بد کردار جاگیرداروں میں ہی گھومتا رہا۔تو پھر ہمیں تو اپنے کیے کی سزا ضرور مل کر رہے گی۔سیاسی میدان میں موجود کرپٹ ،ذاتی جیلیںاورذاتی فوجیں رکھنے والوں اور سرکاری خزانہ کو شیر مادر سمجھ کر پی جانے والوں کا قلع قمع ضروری ہے جس کے لیے ہماری ایجنسیوں کے پاس بے شمار ثبوت موجود ہی ہیں۔اور بیرونی میڈیا اور ایجنسیاں بھی ہماری بھرپور مدد کر رہی ہیں اور ایسے افراد کی فہرستیں شائع کرتی رہتی ہیں ۔مگر نہ سمجھ میں آنے والی بات صرف یہ ہے کہ جو بھی نئی پارٹی ابھرتی ہے۔

وہ خواہ عمران خان کی ہو یا کوئی دوسری وہ انھی وڈیروں اور کرپٹ صنعتکاروں کو گلے لگا لیتی ہے جس پر ان کے کالے دھن کو پھر سہارا نصیب ہو جاتا ہے اور وہ پارٹی پر خرچہ کرکے قابض ہو جاتے ہیں ۔ اور پارٹی کارکنان آوے ہی آوے ۔جاوے ہی جاوے کے نعرے لگاتے رہ جاتے ہیں ۔پوری قوم دعاگو ہے اور امید کرتی ہے کہ نیب اور راحیل شریف پاکستانی خونخوار سیاسی جنگل کوصاف کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تاکہ2016کے آمدہ انتخابات تک ان کا وجود ہی ختم ہو جائے۔

خدانخواستہ اگر گھسے پٹے سیاستدانوں کا مکمل احتساب کرکے ان کا تیا پانچا نہیں ہو پاتا تو پھر اغلب امر یہ ہے کہ عوام خود اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے تحریک کی صورت میں ضرور بالضرور نکلیں گے اور دنیا کی انوکھی احتسابی تاریخ رقم کرتے ہوئے کرپشنوں کے غلیظ گٹروں میں نہائے ہوئے سیاستدانوں کو انہی گٹروں میں بند کرکے اوپر سے سیل کرکے ویلڈ کر ڈالیں گے تاکہ کفن دفن کا خرچہ بھی قوم کو نہ کرنا پڑے اور ملک دشمن افراد خود بخود ہی مدفون ہو کر رہ جائیں۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری