پڑوسی اور حسن سلوک

Neighbor and Good Behavior

Neighbor and Good Behavior

تحریر : علی عبداللہ
اک زمانہ تھا جب مکانات قریب قریب اور ایک تسلسل کے ساتھ ہوا کرتے تھے _ گو کہ بیشتر مکانات کچے اور سادہ ہوتے تھے لیکن ان میں رہنے والوں کے جذبات اور اخلاق نہایت مضبوط ہوا کرتے تھے _ یہ وہ دور تھا جب لوگ اپنے ارگرد کے رہنے والوں کی خبر رکھتے تھے اور ان کی مشکلات سے واقف رہتے تھے _ بعض دفعہ تو پڑوسیوں کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہو جاتا تھا کہ خونی رشتے بھی اس جیسے تعلق پر رشک کرنے لگتے تھے _ مالی طور پر مستحکم ہو یا غربت کا شکار جھونپڑی میں رہنے والا, لوگ اپنے پڑوسیوں کی خوشی غمی میں برابر شریک رہتے تھے _کوٹھی بنگلوں اور سٹیٹس کی دوڑ جب سے شروع ہوئی ہے لوگوں کو پڑوسی تو کیا اپنے گھر کے افراد سے تفصیلی گفتگو کیے ہفتوں گذر جاتے ہیں _ لوگ سالہا سال سے ایک جگہ پر رہنے کے باوجود نہیں جانتے کہ ان کے پڑوس میں کون کون رہتا ہے ؟ آپکو کو کبھی بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں جانے کا اتفاق ہو تو وہاں یہ بات عام نظر آتی ہے۔

برصغیر کی تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نور پھیلانے میں سب سے اہم کردار حسن سلوک کا رہا ہے _ مالا بار کے علاقے میں تابعین اور بعض روایات کے مطابق کچھ صحابہ کرام آئے اور انہوں نے تجارت کا آغاز کیا _ ان کے معاملات میں سچائی, دیانت داری اور انسان دوستی سے ہی یہاں کے لوگوں کے دل کھینچنا شروع ہوئے اور وہ مسلمان ہونا شروع ہو گئے _ یہیں سے پھر باقی بر صغیر میں اسلام پھیلتا چلا گیا _رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے , ” اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو تو تم مسلمان بن جاؤ گے “اس ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ پڑوسیوں کے حقوق ادا نہ کرنا اور ان حسن سلوک نہ رکھنا مسلمان نہ ہونے کی نشانی بن جاتا ہے _ ایک اور حدیث میں آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا, ” حضرت جبرئیل مجھے مسلسل پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں تاکید کرتے رہے , کرتے رہے , کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید کوئی ایسا حکم آنے والا ہے جس میں پڑوسی بھی وارثوں میں شمار ہونے لگیں گے _ قران پاک نے پڑوسیوں کی تین اقسام بتائی ہیں _ پہلا قسم ” الجاری ذی القربی” ہے یعنی وہ پڑوسی جس کے گھر کی دیوار آپکے گھر کی دیوار سے ملی ہوئی ہو _ دوسری قسم کے پڑوسی ” الجار الجنب” ہیں یعنی وہ پڑوسی جن کے گھر کی دیوار تو نہیں ملی ہوئی لیکن وہ رہتا بلکل قریب ہی ہے _ جبکہ تیسری قسم کا پڑوسی ” الصاحب بالجنب” جسے آپ تھوڑی دیر کا ساتھی کہہ سکتے ہیں یعنی اگر آپ بس یا ریل میں سفر کر رہے ہوں تو برابر بیٹھا اجنبی شخص بھی پڑوسی کہلائے گا اور چونکہ کچھ دیر کے لیے وہ آپ کے ساتھ ہے اس لیے قران کے مطابق اس کے حقوق بھی آپ کے ذمے ہوں گے _ بزرگان دین کہتے ہیں کہ لائن میں لگے ہوئے آپ سے آگے اور پیچھے والا بھی پڑوسی کی اس تیسری قسم میں شمار ہوتا ہے _ اور ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔

Neighbor Rights

Neighbor Rights

آجکل عجیب مادیت پسندی کی روایت چل پڑی ہے _ کمپیٹیشن کے نام پر آگے بڑھنے کی اندھا دھند دوڑ میں لوگوں کی غالب اکثریت اندھی ہی ہو جاتی ہے _ انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے ساتھ ارگرد بھی کچھ لوگ موجود ہیں جن سے حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کے حقوق پورے کرنا ان پر لازم ہے _ مگر یہ لوگ بس اپنا نفع دیکھنے کے چکروں میں باقی سب کو بھول جاتے ہیں _ جو شخص اللہ پر ایمان اور رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر یقین رکھتا ہے وہ ہمیشہ خود سے بڑھ کر اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک سے پیش آتا ہے _ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک بھی فرمایا کہ جس کے پڑوس میں کوئی آدمی بھوکا سو جائے تو وہ مسلمان نہیں۔

ہمارے اکابرین اور بزرگان دین نے اس معاملے میں ہمارے لیے عملی نمونہ پیش کیا ہے اور بے شمار ایسے واقعات ہیں جن میں ان بزرگان نے صحابہ کرام کے دور کی یاد دلا دی ہے _ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن رح جو کہ دار العلوم دیوبند کے مفتی اعظم تھے ان کے گھر کے قریب کچھ بیوہ عورتیں رہا کرتی تھیں _ حضرت صاحب کا معمول تھا کہ وہ گھر سے مدرسے جاتے وقت پہلے ان عورتوں کے گھر جاتے اور ان سے سودا سلف کا پوچھتے _ جن کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی تھی وہ بذات خود بازار سے لا کر انھیں دیتے اور اس کے بعد مدرسے روانہ ہوتے تھے _ اسی طرح ایک اور بزرگ حضرت میاں اصغر حسین رح جو کہ استاذ حدیث بھی تھے اور کتابوں کی تجارت کرتے تھے _ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق کے باوجود ان کا مکان کچا تھا _ ہر بارش کے موقعہ پر اس کی چھت یا برآمدہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا تھا _ ایک بار مفتی شفیع رح جو ان کے شاگرد بھی تھے نے کہا کہ آپ ایک ہی دفعہ پکا مکان بنا لیں بارش سے مسئلہ نہیں ہوگا تو انہوں نے فرمایا اس گلی میں کسی کا پکا مکان نہیں مجھے اچھا نہیں لگتا کہ پڑوسی تو کچے مکانوں میں رہیں اور میرا مکان پکا ہو _ یہ شریعت کا تقاضا نہیں تھا لیکن حسن سلوک کا تقاضا سمجھ کر انہوں نے عمر بھر اسی کچے مکان میں گذارا کیا۔

اسلام نے پڑوسی مسلم اور غیر مسلم دونوں کو ایک ہی درجے میں رکھا ہے _ غیر مسلم پڑوسی کے بھی وہی حقوق ہیں جو ایک مسلمان پڑوسی کے حقوق ہیں _ غیر مسلم پڑوسی سے حسن سلوک کا اتنا ہی اجر ہے جتنا کہ ایک مسلم پڑوسی سے _ کئی واقعات ایسے موجود ہیں جن میں غیر مسلم پڑوسیوں نے حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا _ قران فرماتا ہے ” اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ ” لہٰذا جہاں باقی فرائض کو توجہ کے ساتھ پورا کیا جا رہا ہو وہاں پڑوسیوں سے حسن سلوک سے پیش نہ آنا تربیت میں کمی کی جانب نشاندھی کرتی ہے _ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اردگرد لوگوں پر نظر رکھیں اور کسی منصب, عہدے اور مالی حیثیت کی بنیاد پر پڑوسیوں کا تعین کرنے کی بجائے ہر عام و خاص کو جو پڑوسی ہونے کی تعریف پر پورا اترتا ہو کا خیال رکھیں, ان سے حسن سلوک سے پیش آئیں اور ان کے مسائل کو ممکنہ حد تک حل کرنے کی کوشش کریں۔

Ali Abdullah

Ali Abdullah

تحریر: علی عبداللہ