نیویارک بم دھماکے، مشتبہ شخص پولیس کی حراست میں

Ahmad Khan Rahami

Ahmad Khan Rahami

امریکہ (جیوڈیسک) امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کے شہر نیویارک میں ہونے والے بم دھماکوں میں مطلوب مشتبہ شخص احمد خان رحمی کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔

احمد خان رحمانی کو نیو جرسی میں لنڈن شہر میں ایک پولیس اہلکار پر فائرنگ کے بعد حراست میں لیا گیا ہے۔
اس سے قبل امریکی حکام کی جانب سے نیو یارک میں اختتامِ ہفتہ پر ہونے والے تین دھماکوں کی تفتیش کے سلسلے میں ایک مشتبہ شخص کی شناخت کی تھی۔

حراست میں لیے گئے مشتبہ شخص 28 سالہ احمد خان رحمی ہیں جو افغان نژاد امریکی شہری ہیں۔ نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ نے ان کی تصویر بھی جاری کی تھی۔

اس سے اعلان سے کچھ دیر قبل ہی شہر نیو جرسی میں ایک ٹرین سٹیشن کے قریب ملنے والے بم کو ناکارہ بنانے کی کوشش کے دوران وہ بم پھٹ گیا تاہم اس واقعے میں کسی کے زخمی یا ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایک روبوٹ کی مدد سے بم کو ناکارہ بنا رہے تھے جب وہ پھٹ گیا۔ حکام نے بتایا کہ یہ ان پانچ بموں میں سے ایک تھا جو کہ ایک بستے میں سٹیشن کے قریب ملے تھے۔

حراست میں لیے گئے مشتبہ شخص 28 سالہ احمد خان رحمی ہیں جو افغان نژاد امریکی شہری ہیں حکام نے بتایا کہ یہ ایک کنٹرولڈ ڈیٹونیشن یعنی جان بوجھ کر بم کو ایک محتاط انداز میں تباہ کرنے کی کارروائی نہیں تھی اور یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب روبوٹ نے ایک تار کاٹی۔

یاد رہے کہ گذشتہ اختتامِ ہفتہ پر نیویارک اور نیوجرسی میں تین دھماکے کیے گئے۔ نیویارک شہر کے علاقے چیلسی میں ہونے والے دھماکے میں 29 افراد زخمی ہوئے تھے تاہم ان سب کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

چیلسی کا شمار مین ہٹن کے امیر علاقوں میں ہوتا ہے جہاں بازار اور ریستوران ہفتے کے آخر میں کافی مصروف ہوتے ہیں اور یہاں ہجوم رہتا ہے۔

اس سے قبل امریکہ میں حکام کا کہنا تھا کہ نیویارک میں سنیچر کی رات ہونے والے دھماکے اور قریب سے ہی ملنے والے ایک اور آلے دونوں ہی میں لوہے کے ٹکڑوں بھرے پریشر ککر کا استعمال کیا گیا۔

دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی نے اس حملے میں ملوث ہونے کے شک میں پانچ افراد کو حراست میں لینے کی اطلاعات کی تردید کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ پوچھ گچھ کے لیے چند مشکوک افراد سے بات کی گئی ہے۔

حکام کے مطابق یہ بم سنہ 2013 میں بوسٹن میراتھن کے موقعے پر کیے دھماکوں میں استعمال کیے گئے بموں سے مشابہت رکھتے ہیں۔

شہر میں قانون نافذ کرنے والے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ دونوں دھماکہ خیز آلات میں فلپ فونز اور کرسمس لائٹس کا استعمال کیا گیا تاکہ دھماکہ کیا جا سکے۔

امریکی ریاست نیویارک کے گورنر اینڈیو کومو کا کہنا ہے کہ نیویارک شہر میں ہونے والا دھماکہ دہشت گردی کی کارروائی تھا تاہم تاحال اس میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔

گورنر کومو کا کہنا تھا کہ دھماکے سے واضح نقصان ہوا ہے اور ’ہم خوش قسمت ہیں کہ کوئی جان ضائع نہیں ہوئی۔‘ اینڈریو کومو کے مطابق شہر کے اہم مقامات پر ایک ہزار اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔

حکام نے بتایا کہ یہ ایک کنٹرولڈ ڈیٹونیشن یعنی جان بوچھ کر بم کو ایک محتاط انداز میں تباہ کرنے کی کارروائی نہیں تھی ان کا کہنا تھا کہ ’جس کسی نے بھی یہ بم رکھے ہیں، ہم انھیں ڈھونڈ لیں گے اور انھیں انصاف کے کٹہرے تک پہنچایا جائے گا۔‘

اس سے قبل نیویارک کے میئر نے اسے ’دانستہ کارروائی‘ سے تعبیر کیا تھا۔ نیویارک کے میئر بل دا بلیسیو کا کہنا تھا کہ ’نیو یارک کے علاقے چیلسی میں ہونے والا دھماکہ دانستہ کارروائی تھا۔‘ تاہم انھوں نے کہا ہے کہ اس کا یا پھر اس سے قبل پڑوسی نیو جرسی میں ہونے والے دھماکے کا کسی دہشت گرد گروپ سے کوئی تعلق نہیں۔‘

خیال رہے کہ نیوجرسی میں ہونے والا دھماکہ ایک فوجی خیر سگالی کے سلسلے میں منعقد کی گئی ایک ریس کے متعین راستے پر ہوا تھا۔

منگل کو صدر اوباما اور کئی عالمی رہنما نیویارک میں ہی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ہیں۔