شب روز زندگی قسط 37

Layyah Hospital

Layyah Hospital

تحریر : انجم صحرائی
میں یہ تو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ مجھے انجمن فلاح و بہبودی مریضان کی نئی باڈی میں نا ئب صدر کا عہدہ دیا گیا تھا جبکہ سید فضل حق رضوی صدر تھے چند ہفتے ہی گذ رے تھے کہ ہو نے والے ایک اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ انجمن فلاح و بہبودی مریضان کے زیر اہتمام لیہ میں ایک فری آ ئی کیمپ لگا یا جا ئے ۔ فضل حق رضوی جو انجمن کے صدر تھے نے فورا سیکریٹری صاحب کی اس تجویز کو منظور کرتے ہو ئے سیکریٹری محکمہ صحت پنجاب کے نام ایک خط لکھ دیا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لیہ میں کو ئی آ ئی سرجن تعینات نہ ہے جس وجہ سے آ نکھوں کے مریضوں کو منہگا علاج برداشت کر نا پرتا ہے جو اس پسماندہ علا قہ کے غریب عوام کے لئے نا قا بل بر داشت ہے ۔ انجمن بہبودی مریضان اپنی مدد آپ کے تحت ایک فری آ ئی کیمپ لگا نا چا ہتی ہے براہ کرم اس فری آئی کیمپ کے لئے اعزازی طور پر کسی آ ئی سرجن کو بھیجا جائے تاکہ علا قے کے غریب عوام آ نکھوں کے مفت علاج اور مفت آپریشن کی سہو لتوں سے استفادہ کر سکیں ۔یہ خط لکھے ابھی چند دن ہی گزرے ہوں گے کہ ایک صبح سیکریٹری صاحب نے بتا یا کہ ایک محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے ایکآ ئی سرجن کی ڈیو ٹی لگی ہے اور وہ ڈاکٹر صاحب آ ئے ہو ئے ہیں اور ہم سے ملنا چا ہتے ہیں۔

میں اور فضل حق رضوی یہ خبر سن کر وا قعی بہت خوش ہو ئے ۔ ہم لاہور سے آئے ہو ئے ان ڈاکٹر صاحب سے ملے بقول ان کے وہ آ ئی سرجن تھے ان کے پاس نہ صرف سیکریٹری محکمہ صحت پنجاب کے نام لکھے ہو ئے ہمارے لیٹر کی فوٹو کا پی تھی بلکہ ایک اور لیٹر بھی تھا جس میں محکمہ صحت پنجاب نے لیہ میں منعقد ہو نے والے فری آ ئی کیمپ کے لئے بطور اعزازی سرجن ان کی ڈیوٹی لگا ئی تھی ْ ہم نے ان سے پو چھا کہ کیمپ پر کتنے اخراجات ہوں گے تو لا ہور سے غریبوں کے مفت علاج کا جذ بہ لے کر آ نے والے سرجن مسکرائے اور بو لے کچھ بھی نہیں ہو گا ۔ ہم نے کہا وہ کیسے تو جواب ملا آپ با لکل پریشان نہ ہوں میں فری آ ئی کیمپ کے لئے میڈ یسن اور مشینوں کا بندو بست کر کے آیا ہوں ابھی دو دن کے بعد وہ سارا سامان آ جا ئے گاکیوں جی آجائے گا نا

انہوں نے اپنے ساتھ آئے ایک بندے سے پو چھا اس نے بھی اپنا سر ہلاتے ہوئے تا ئید کی اور کہا ہاں جی بس ٹرک تو چل پڑا ہو گا جس میں میں نے سارا سامان بک کرا یا تھا ۔ وہ بندہ ان کا ڈسپنسر تھا قدرے لنگڑاکر چلتا تھا ڈاکٹر نے اطمینان بھری نظروں سے ہمیں دیکھا اور بولے ان دنوں میں ہم اپنی ابتدائی تیاریاں مکمل کر لیتے ہیں یہ سن کر ہم بہت خوش ہوئے کہ ہمارے فری آ ئی کیمپ پر ہمارا کچھ خر چہ نہیں ہو گا ویسے ہماری انجمن کے پاس شا ید تیس پینتیس ہزار مو جود بھی تھے جو ظاہر ہے کہ میڈ یکل فنڈ کی مد میں محکمہ زکواة عشر کی جا نب سے ہی ملے ہوں گے چو نکہ اس محکمہ کے علاوہ اس انجمن کا کوئی اور ڈو نر نہیں تھا خیر یہ ہمارے لئے بڑی خو شخبری تھی کہ فری آ ئی کیمپ پر ہمارا کو ئی خر چہ نہیں ہو گا ہمیں اس وقت وہ ڈاکٹر واقعی ایک مسیحا لگے لیکن ان کا اصل روپ کچھ اور تھا۔

Medical Camp

Medical Camp

ہم نے ان ڈاکٹر صاحب کی آمد کے بعد فری آئی کیمپ کی تیاریاں شروع کر دیں اشتہارات چھپوائے گئے بینرز لگا دئیے گئے طے پا یا کہ یہ تین روزہ فری آئی کیمپ محکمہ سو شل ویلفیئر کے کیمو نٹی سنٹر کی عمارت میں منعقد ہو گا ۔ فری کیمپ کی افتتا حی تقریب کے لئے ڈپٹی کمشنر احمد حسین سلیم کو دعوت دی گئی ۔ یہ افتتا حی تقریب ڈی ایچ کیو ہسپتال کے سبزہ زار میں منعقد ہو ئی خا صی بڑی تقریب تھی صدر انجمن فضل حق رضوی نے استقبا لیہ پڑ ھامیرے حصے میں نیابت آ ئی ۔ مسیحا ڈاکٹر نے فری آ ئی کیمپ میں طے کی جانے والی ترجیحات کا ذکر کیا اور دبے الفاظ میں اخراجات کا بھی ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ آ پریشن کے لئے تمام ضروری سامان و آلات تو انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لا ہور سے منگوائے ہیں مگر مر یضوں کے لئے ادویات بہر حال انجمن فلاح و بہبودی مریضان کو ہی فراہم کر نا پڑیں گی ۔ ڈاکٹر کی یہ بات سن کر ڈپٹی کمشنر نے پو چھا کہ ان تین دنوںکے فری آ ئی کیمپ میں ادویات پر کتنا خرچ آ ئے گا ۔ ڈاکٹر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ کم از کم ایک لا کھ روپے۔

یہ سن کر ہم سبھوں کی حالت دید نی تھی ڈپٹی کمشنر نے سو شل ویلفیئرآفیسر کو کھڑا کر کے سے پو چھا کہ تمہارے پاس کتنے فنڈز ہیں تو زمان خان بو لے تیس ہزار روپے یہ جواب سن کر ایسے لگا کہ ڈپٹی کمشنر کا موڈ خراب ہو گیا ہو کہنے لگے کہ جب مطلوبہ فنڈز نہیں تھے تو کیا ضرورت تھی یہسب کچھ کر نے کی ۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا ۔ شیخ شمش الدین اے ڈی سی جی بھی سٹیج پر ڈی سی کے ساتھ ہی بیٹھے تھے ڈپٹی کمشنر چند لمحے اے ڈی سی جی کے ساتھ سر گو شی کرتے رہے اسی دوران ڈاکٹر اپنی بات مکمل کر کے جا چکے تھے اور اب باری تھی صدر تقریب کے خطبہ صدارت کی جس کے لئے میں نے ڈپٹی کمشنر احمد حسین سلیم کو دعوت دی ڈپٹی کمشنر آئے اور انہوں نے اپنے مختصر خطاب میں ہماری کاو شوں کو سرا ہتے ہو ئے اس فری آئی کیمپ کے لئے مفت ادویات کی فراہمی کا اعلان کیا ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ سو شل ویلفیئر جس میڈ یکل سٹور سے ادویات خریدے گا ڈسٹرکٹ نا ظر آفس کی طرف سے تحقیق و تصدیق کے بعد ان بلوں کی ادائیگی کر ے گا ۔ ڈپٹی کمشنر نے یہ بھی اعلان کیا کہ فری آئی کیمپ کے تمام معا ملات کی نگرا نی اے ڈی سی جی شیخ شمش الدین کریں گے ۔ ادویات کی فراہمی کے لئے ایک میڈ یکل سٹور کے ساتھ بات چیت کر لی گئی ۔ فری آئی کیمپ کا آغاز ہوا مگر اس طرح کہ ابھی وہ ٹرک جو لا ہور سے آ لات سرجری لے کر آ رہا تھا

وہ ابھی لیہ نہیں پہنچ سکا تھا فری آئی کیمپ میں مریضوں کی ر جسٹریشن کا آ غاز ہوا تو لو گوں کا بہت رش تھا ۔ پہلے ہی دن مریضوں کی ایک بڑی تعداد نے رجسٹریشن کرائی کیمپ کے او پی ڈی میں ڈاکٹر صاحب مریض دیکھنے لگے اور سہ پہر تک مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو آ نکھوں کے آ پریشن کے لئے فری آ ئی کیمپ میں داخل کر لیا گیا مگر ان مریضوں کے آ پریشن نہ ہو سکے چو نکہ ابھی سامان سرجری راستے میں تھا اگلے دن بھی یہی ہوا مزید مریض داخل کر لئے گئے مگر آ پریشن دوسرے دن بھی نہ ہو سکے کہ آپریشن کے لئے کو ئی آلات دستیاب نہیں تھے لیکن یہ ضرور ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے فری آ ئی کیمپ کے لئے منگوائی گئی ادویات کا ایک معقول بل ڈی سی آ فس کے ڈسٹرکٹ نا ظر برانچ میں بھجوا دیا گیا ۔ فری آئی کیمپ میں آ پریشن کے لئے داخل مریضوں کو صبح دو پہر شام ادویات دی جا رہی تھیں تیسرے دن بھی مریض چیک ہو ئے آپریشن کے لئے داخلے ہو ئے مگر آپریشن نہ ہو سکے وہ اس لئے کہ سامان ابھی لا ہور سے نہیں پہنچا تھا اس روز سر جن ڈاکٹر کا موڈ بہت او کھا تھا

Medical Camp

Medical Camp

وہ اپنے لنگڑے معاون پر بہت گرجے بر سے کہ اس نے جس ٹرک پر سامان بک کرایا تھا وہ پانچ دن گذ رنے کے بعد بھی منزل مقصو د پر پہنچ نہیں پا یا تھا اب ڈاکٹر کو مریضوں کے ساتھ ساتھ لا کھوں کے اس قیمتی سامان کی فکر بھی ہو چلی تھی کہ مبادا ٹرک والا وہ سامان لے کر ہی فرار نہ ہو جائے طے پا یا کہ کو ئی بندہ لا ہور جا ئے اور گڈز کے اس اڈے پر رابطہ کر کے صورت حال بتا ئے اور پتہ کرے کہ ٹرک کی پوزیشن کیا ہے اس صورت حال سے ہم سارے تو بہت پریشان تھے ہمارا تو فری آئی کیمپ تقریبا ناکام ہو چکا تھا کہ تین روز گذرنے کے با و جود ایک آ پریشن بھی نہ ہوا تھا ۔ فری آ ئی کیمپ میں آ پریشن کے لئے داخل مریضوں کے لواحقین الگ پریشان تھے تیسرے دن جب میں کیمپ میں گیا تو ایک نوجوان نے میرا راستہ روک لیا اس کا بوڑھا والد کیمپ میں دو دن سے داخل تھا اس نے کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے نہ معلوم میرے والد کو کیا ہو گیا ہے جب وہ گھر سے آ یا تھا وہ ٹھیک ٹھاک تھا مگر کیمپ میں داخلے کے بعد نہ معلوم اسے کیسی ادویات دی جارہی ہیں کہ وہ ہر وقت سو تا رہتاہے

میں اس نو جوان کے ساتھ ہو لیا اس کمرے میں چلا گیا جہاں اس کا والد اور دوسرے مریض آ نکھوں کے آ پریشن کے لئے ایڈ مٹ تھے میں نے دیکھا کہ سارے مریض غنودگی کی حالت میں تھے ایسے لگتا تھا کہ جیسے انہیںکو ئی نیند آور ادویات دی جا رہی ہوں ۔ مریضوں کی یہ حالت میرے لئے خا صی تشویشناک تھی۔ مجھے بہت افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی آ یا میں وہاں سے نکل کر او پی ڈی کے کمرے میں پہنچا تو وہاں ڈاکٹر مو جود نہ تھے پتہ چلا کہ ڈاکٹر ابھی اندر سے باہر ہی نہیں آ ئے یہاں میں بتا تا چلوں کہ ایک کمرے کو ڈاکٹر صاحب نے اپنی رہائش کے لئے مختص کر رکھا تھا او پی ڈی کے کمرے میںوہاں وہ لنگڑا ڈسپنسر مو جود تھا میں نے اس سے پو چھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے آپ لوگ مریضوں کے سا تھ اور ہمارے ساتھ کیا مذاق کر رہے ہیں میری آواز قدرے بلند تھی اس نے کہا کہ آپ مجھ سے کچھ نہ پو چھیں ابھی ڈاکٹر صاحب آ جا ئیں گے وہی آپ کو جواب دے سکتے ہیں میں نے کہا کہ جائو اور ڈاکٹر صاحب سے کہو کہ میں ان سے ملنا چا ہتا ہوں وہ اندر چلا گیا تھوڑی دیر بعد وہ واپس آ یا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو آ پریشن تھیٹر میں بلا رہے ہیں میں اس کمرے میں چلا گیا جسے انہوں نے آ پریشن تھیٹر کا نام دے رکھا تھا وہاں ڈاکٹر مو جود تھے مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بو لے کیا ہوا اتنے ناراض کیوں ہیں َ میں نے کہا کہ تین دن ہو نے والے ہیں ایک بھی آ پریشن نہیں ہوا

مریضوں کی حالت نا گفتہ بہہ ہے لگتا ہے کہ انہیں کو ئی نیند آ ور ادویات دی جا رہی ہیں یہ کیا ہو رہا ہے ؟مریضوں کے لواحقین احتجاج کر رہے ہیں میری یہ بات سن کر ڈاکٹر بڑے غصے سے بو لے کو ئی احتجاج نہیں کر رہا یہ سارا تیرے داماغ کا فتور ہے اور مجھے تیرے جیسے لو گوں کا علاج کر نا بھی آ تا ہے یہ کہتے ہو ئے ڈاکٹر نے میز پر پڑی قینچی اٹھا ئی اور میری طرف بڑھے اور بو لے زیادہ بات کی تو سالے کا پیٹ پھاڑ دوں گا بڑا آیا سما جی کارکن ۔ ڈاکٹر کے ہا تھ میں قینچی اور آ نکھوں میں دیوا نگی دیکھ کر میرے تو اوساں ہی ختم ہو گئے اور میں نے سو چا کہ اب کیا کیا جا ئے ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کمرے کے باہر سے کسی عورت کے چیخنے کی آ واز آ ئی اور ساتھ ہی بند دروازہ زور زور سے بجایا جا نے لگا ۔۔۔

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی