سکوتِ شامِ الم سے تیرا پتا مانگوں

سکوتِ شامِ الم سے تیرا پتا مانگوں
دعائے آخرِ شب میں کوئی سزا مانگوں

چراغ لے کے چلوں اور پھر ہوا مانگوں
مجھے نوازا ہے اوقات سے میری بڑھ کر

بہت دیا ہے خدا نے میں اور کیا مانگوں
غریبِ شہر کی تعظیم کے لئے اب کے

امیرِ شہر کا در بھی کھُلا ہوا مانگوں
کبھی تو گونگے مکینوں کی بات سننے کو

پسِ فصیلِ خموشی کوئی صدا مانگوں
میں اپنا خونِ جِگر ہی جلاتا ہوں لیکن

جو آندھیوںمیں نہ بجھ پائے وہ دِیا مانگوں
ہوا کی لوح پہ لِکھ ڈالوں بے قراریء دِل

سکوتِ شامِ الَم سے تیرا پتا مانگوں
بڑھا کے دستِ طلب ایک بار پھر ساحل

جو دُوریوں پہ نہ بھُولے وہ آشنا مانگوں

Sahil Munir

Sahil Munir

تحریر: ساحل منیر