نہال ہاشمی، جو تنہا رہ گیا

Nihal Hashmi

Nihal Hashmi

تحریر : حفیظ خٹک
سینیٹر نہال ہاشمی، جو کہ اب سینیٹر نہیں رہے اور نہ ہی وہ اس جماعت کہ جس کے باعث سینیٹر بنے ، اس سے ان کا کوئی تعلق رہا۔ وہ نہا ل ہاشمی جن پر آج ان کی اپنی سیاسی جماعت ہی نہیں اپنے دوست احباب تک طعنہ زن ہیں ، ان کے حالیہ اقدام کے باعث ان پر غصے میں ہیں ۔ وہ نہال ہاشمی چند پل میں کیا سے کیا ہوگئے؟ وزیر اعظم کے گن گانے والے کارکن نہال ہاشمی ،آج زندگی کے ایسے مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں کہ جن کا انہوں نے کبھی سوچا نہ ہوگا ۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور ملک کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کیلئے جو کبھی قانونی ایڈوائزر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے ، کبھی ایسا بھی ہوا کہ وہ وزیرا عظم ان کی ایک اک بات پر مسکرایا کرتے تھے ، اور اب ایسا دورآگیا کہ وزیر اعظم انہیں اپنے دولت کدے پر بلا کر کے بھی ملاقات نہیں کرتے ۔ بحر حال نہال ہاشمی نے معاشرے میں ایک وکیل کی حیثیت سے زندگی گذاری ہے انہوں نے بہت سے مقدمات لڑے ہونگے ، کئی ہارے بھی ہونگے ۔ اک ہار کے بعد جو کیفیت ہوتی ہے اس وقت ان کی کیفیت اس ہارے ہوئے فرد سے بھی دس گنا زیادہ ہوگی ۔ہمدردی کے چند بول ہی صحیح کچھ تو ان کو اچھا سننے کو چاہئے ، کوئی تسلی و تشفی کے جذبات ہی ان کے لئے کافی ہوسکتے ہیںلیکن حقیقت میں معاملہ قطعی مختلف ہے۔ وہ کارکنان ، رہنما اور وہ ہمدرد آج نہال ہاشمی کیلئے رک سے گئے ہیں۔

نہال ہاشمی کا پورا نام سید نہال ہاشمی ہے اور 28جنوری 1960کو ان کی پیدائش ہوئی ۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک قانون دان (وکیل ) ہیں اور مسلم لیگ (ن) سے ان کی وابستگی برسوں سے ہے۔ سندھ خصوصا شہر قائد میں مسلم لیگ کو فعال بنانے کیلئے وہ ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔ دو برس قبل 2015میں انہیں سینیٹ کا رکن مسلم لیگ نے بنایا اور انہوں نے سینیٹ میں اپنی بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ تیز زبانی ان کی خاصیت رہی جس سے سبھی آگاہ تھے ۔ کراچی پریس کلب کی اندر تقاریر میں بھی ان کی اپنی انفردیت رہی ہے ۔

برسوں سے امریکی جیل میں قید قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے انہوں نے بھی آواز اٹھائی اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے ان کی والدہ سے ملاقاتیں کیں۔ وہ ان ملاقاتوں میں بھی یہ کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی قوم کی بیٹی ہیں لہذا ان کی واپسی کیلئے ، جلد رہائی کیلئے حکومت کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کے حلف لینے کے بعد جب کراچی آمد ہوئی تو انہوںنے گورنر ہاﺅس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں اور والدہ سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اب قوم کی بیٹی کو وہ خود واپس لے کر آئینگے ، لیکن ایسا اب تلک نہ ہوسکا اور ایسا کیوں نہ ہوسکا اس بات کا جواب تو وزیر اعظم ہی بہتر انداز میں دے سکتے ہیں ۔ تاہم نہال ہاشمی جو کہ عافیہ موومنٹ کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتے تھے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے ہونے والے سیمینار و دیگر پروگرامات میں ضرور شریک ہوا کرتے تھے ، انہیں بھی جب سینیٹ کا رکن بنایا گیا تو اس کے بعد ان کی بھی چال ڈھال میں کچھ تبدیلی آگئی ۔ عافیہ موومنٹ سے ان کا رابطہ کم ہوگیا اور ڈاکٹر عافیہ کیلئے ان کی آواز بھی مدھم ہی نہیں قریبا بند ہی ہوگئی ۔

عجب معاملہ ہے ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس شہر قائد سے تعلق رکھتی ہیں ، اور ملک کا صدر ممنون حسین بھی اسی شہر قائد سے ہیں لیکن انہوں نے صدارت سنبھالنے کے بعد بھی آج تلک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا ، نہال ہاشمی جب سینیٹر نہیں تھے تب تک وہ عافیہ موومنٹ کے ساتھ رہتے تھے لیکن جب سے ان کی حکومت آئی تو ان کی آمد میں کمی ہوگئی اور جب انہیں سینیٹر بنایا گیا تو اس کے بعد ان کی آمد و رابطہ برائے نام ہوگیا ۔ ایسا کیوں ہوا ؟ وزیر اعظم نے وعدہ کرکے بھی اب تلک اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور صدر نے بھی کچھ نہیں اور ان کے ساتھ ساتھ نہال ہاشمی نے بھی وہی کچھ کیا جو ان کے رہنما کر تے آئے تھے۔

اس وقت ان کے کرداروں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس شہر قائد کا ہر باسی ہی نہیں اس وطن عزیز کا ہر شہری یہ سوال کر تا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کیونکر واپس لانے کیلئے حکومت نے قدم نہیں اٹھا یا ؟ نہال ہاشمی نے جو بھی تقریر کی اس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ، اس کے ساتھ وزیر اعظم نے بھی حکم دیا کہ ان کی پارٹی رکنیت ختم کردی اور اس کے ساتھ ان سے سینیٹ کے رکنیت بھی لے لی۔ اس حوالے سے مزید اب کچھ کہا جانا بے جاہ ہے ، قانون کا فیصلے چند ایام میں آجائیگا اور قوم کو یہ بھی یاد ہے کہ یہ وہی جماعت ہے کہ جس نے ماضی میں اسی سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا اور نہال ہاشمی بھی اسی جماعت کا ایک رہنما ہے جس نے وزیر اعظم کے حق میں نہایت ہی نپا تلا بیان دیدیا ۔ عوام کو نہال ہاشمی کے اس اقدام پر فیصلے کے ساتھ جے آئی ٹی کے فیصلے کا بھی شد ت سے انتظار ہے ۔ جب قوم کے رہنما اپنے صدر کا خطاب نہیں قومی اسمبلی میں بیٹھ کر نہیں سن سکتے تو اس صورتحال میں یہ وقت ہے کہ سپریم کورٹ انصاف پر مبنی فیصلے دے کے اپنی آس کو تقویت پہنچائے۔

تحریر : حفیظ خٹک