نوبل پیس پرائز کا حقیقی حقدار ایدھی

 Abdul Sattar Edhi

Abdul Sattar Edhi

تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
پاکستان میں بہت سی ایسی شخصات ہیں جن پر ہم فخر کر تے ہیں۔ جن مختلف شخصیات نے سیاسی ، معاشی، سماجی ، سائنسی، ادبی، علمی اور دفاعی خدمات میں نہ صرف اپنا نام بلند کیا بلکہ ان کی خدمات نے بین الاقوامی طور پر پاکستان کی عزت اور وقار میں اضافہ کیا۔ انہیں میں ایک نام جناب محترم عبدلستار ایدھی کا ہے۔

عبدل ستار ایدھی جنوری 1928 بنتوا ،جونا گڑ (اب انڈیا ) میں پیدا ہوئے ۔ سماجی خدمات میں ویسے تو بہت سے لوگ اور تنظیمیں پاکستان میں اور بیرون پاکستان سرگرم ہیں ۔ اور یہ سب بہت ایمانداری سے کام کرتے ہیں۔ بہت پڑھے لکھے لوگ بڑے بڑے دفاتر میں بیٹھ کر فلاحی کاموں میں مصروف ہیں۔ یورپ اور امریکا میں تو ان فلاحی اداروں کے دفاتر شہر کے مہنگے اور پوش علاقوں میں واقع ہیں۔

اس کے علاوہ ان کے نیٹ ورک ان تنظیموں کو میڈیا کے زریعے ہر وقت سامنے رکھتے ہیں۔ اور ان کے فلاحی کاموں کو دنیا کے سامنے لاتے ہیں جس کی وجہ سے ان تنظیموں اور اداروں کو فنڈز اکھٹا کرنے مین اتنی دشواریاں نہی ہوتی۔ میرا مقصد ان اداروں پر تنقید کرنا ہر گز نہی ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ نیکی کر کوہیں میں ڈال کا محاورہ آپ کی روحانی زندگی تو سنوارتا ہے مگر دنیاوی زندگی کو چلانے کے لئے تھوڑی بہت خودنمائ بھی ضروری ہے ۔ مگر پاکستان سے تعلق رکھنے والی یہ شخصیت اس شور شرابے سے کہیں دور چُپ چاپ نسل انسانی کی خدمات میں مصروف عمل ہے۔

انتہائ سادہ زندگی گزارنے والا یہ خدا کا بندہ جس کے جسم پر آرمانی اور ورساچی کے نام کی مہنگی پوشاک کے بجائے پیوند لگے کپڑے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھیں ہیں۔ اور نہ ہی اس کے پاؤں میں برلوٹی یا ٹیسٹونی کے جوتے ہوتے ہیں ۔ میں کراچی کا رہنے والا ہوں اور میں نے ایدھی صاحب کو دو بار نزدیک سے دیکھا ہے۔ وہ شخص جسے میں نے ایک بار بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ تھا۔

چند سال گزرے جب میں اور میرے چند دوست کراچی میں صرافہ بازار کے پاس سے گزر رہے تھے کہ ایدھی صاحب اور ان کے ساتھ چند اور لوگ بھی ایدھی کا چندہ بکس رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے ، شاید پاکستان کو کسی بڑے سیلاب کا سامنا تھا اور سیلاب زدگان کی امداد کے لیئے کام کر رہے تھے ۔ میں نے اس شخص کو لوگوں سےبھیک مانگتے دیکھا جس نے 1951 میں ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی ۔ جس کے اپنے 300 سینٹر پاکستان کے مختلف حصوں میں 24 گھنٹے متحرک ہیں ۔ جس کے 8 ہسپتال ہیں جس میں آنکھوں کا ہسپتال، کینسر، شوگر کے مریضوں کا ہسپتال اور ان کے علاوہ گردشی (موبائل ہسپتال) ہسپتال بھی شامل ہیں۔ جو مکمل طور پر مفت علاج اور دوا فراہم کرتے ہیں۔ جس کے 15 اپنا گھر ہیں جن میں بوڑھے، بیوہ، یتیم بچے اور معزور لاواث لوگوں کو بستر اور کھانا مفت ملتا ہے۔ جس کے پاس سینکڑوں ایمبولینسس کے علاوہ 3 ہوائ ایمبولنسس بھی ہیں۔

Nobel Peace Prize

Nobel Peace Prize

لاوارث نومولود بچوں کے لئے جھولہ، میٹرنٹی ہوم، بھوکے لوگوں کے لئے لنگر ویغرہ ،،،،،، میں سمجھتا ہوں کہ شاید میں ایدھی صاحب کی خدمات کی مکمل تصویر کشی نہ کر سکوں۔ میں ایدھی صاحب سے بہت متاثر ہوا تھا۔ یہ شخص جو کہ پاکستان میں واحد سماجی شخصت ہے جو نسل انسانی کے لئے خدمات بغیر رنگ، نسل، زبان اور مزہب کرتا ہے ۔ میں نے کئ مسیحی نوجوانوں کو ایدھی سینٹر میں دیکھا جو ہیروئن کی نشے کی وجہ سے معاشرے سے کٹ کے رہ گئے تھے۔ جب ایدھی سینٹر میں لاوارث لاش لائ جاتی ہے تو اسے سرد خانے میں کسی بھی مزہبی تفریق کے رکھا جاتا ہے۔ یہ شخص کوئ سیاسدان نہی ہے نہ ہی کوئ بیروکریٹ یا پھر حکومتی محل کے کسی ستون کا حصہ ہے۔ ہمارے سیاستدان ایک ہسپتال، اسکول بنا کر اس کو کیش کرواتے ہیں اپنی سماجی خدمات کے بل بوتے پر الیکشن لڑتے ہیں اور اپنی خدمات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مگر ایدھی صاحب نے کبھی بھی اپنی خدمات کو کیش نہی کیا۔ وہ آج بھی عام لوگوں کی طرح عام کھانا کھاتے ہیں اور اسی طرح کراچی کی سڑکوں پر بغیر کسی سیکیورٹی گارڈز کے گھومتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے میٹھادر میں واقع اپنی ہی ڈسپینسری کی ایک نرس محترمہ بلقیس سے شادی کر لی۔ جو آج بھی قدم سے قدم ملا کر ایدھی صاحب کے ساتھ نسل انسانی کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔

رات دن کی محنت نے ایدھی صاحب کو بیمار کر دیا ہے۔ ایدھی صاحب آج شدید بیمار ہے۔ اور ان کے دونوں گردوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے اور وہ اب ڈالیئسس پر ہیں۔ جس دن ان کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے اس دن ان کے متعلق چھوٹی سی خبر آ جاتی ہے۔ ورنہ جس عزت اور احترام کا حق ایدھی صاحب رکھتے ہیں وہ ان کو نہی ملا ہے۔ ہم نے اپنے پڑوسی ملک میں دیکھا کہ جہاں مدر ٹریسا کی خدمات پر جس طرح سے ان کو باوقار انداز میں یوارڈ دیے گئے۔ ان کے مرنے کے بعد بھی ان کو احترام اور عقیدت کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے۔

ایدھی صاحب کے پاس بھی نشان امتیاز ہے مگر وہ اس سے زیادہ کے مستحق ہیں اور خدا نہ کرے اگر وہ نہ رہے تو پھر ہم ان کو یاد کریں گے۔ میں نے جب دیکھا کہ سوشل میڈیا پر ایدھی صاحب کے حوالے سے ایک تحریک چل رہی ہے کہ ایدھی صاحب کو نوبل پیس پرایز کے لئے نامزد کیا جائے تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئ کہ اس تحریک میں بھی ہمارے کسی بڑے میڈیا گروپ نے کوئ خاطر خواہ حصہ نہی لیا۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو پٹیشن ان کے حوالے سے اس تحریک کا حصہ ہے ، تین دن گزرنے کے بعد بھی 70 ہزار کا ہدف عبور نہ کر سکی۔ جب کہ ہماری آبادی 18 کروڑ کا ہندسہ عبور کر چکی ہیں۔ میں تمام پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ دستخط کر کے ان کی نامزدگی کو یقینی بناہیں۔ اور جیسے ایدھی صاحب کی شخصیت ہے کہ وہ بغیر رنگ، نسل، مزہب، فرقہ کی تفریق کے سب کی خدمت کرتے ہیں ہم بھی ان کو یہ اہم ترین اعزاز دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Watson Saleem Gill

Watson Saleem Gill

تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم