غیر سیاسی لوگوں کا مطالبہ

PTI

PTI

تحریر: عقیل احمد خان لودھی۔ وزیرآباد
ملک کی دو سیاسی پارٹیوں کے درمیان کھینچا تانی کا عمل انتخابات کے بعد سے مسلسل جاری تھا۔ دھاندلی کے الزامات کے بعد اپنا اثر ورسوخ دکھانے کیلئے تحریک انصاف کی جانب سے 126 روز کا دھرنا بھی دیا گیا اور اس دھرنے میں تحریک انصاف کو مولوی طاہر القادری کی حمایت بھی حاصل تھی کیا ہوا کہ حکمرانوں نے دھرنے کے شرکاء حریف جماعتوں کے عام غریب حمایتیوں پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے ریاستی اداروں کی طاقت کا بے جا استعمال کروایا۔ اندھا دھند فائرنگ اور تشدد کے واقعات میں خواتین سمیت کئی افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا قیمتی (مگر سیاسی طبقہ کے نزدیک قیمتی نہیں) انسانی جانوں کے ضیاع سے بھی کسی سیاسی لیڈر کی شان بے نیازی میں ذرا فرق نہ پڑا بلکہ دونوں اطراف گردنوں میں تنائو اور زیادہ آگیا۔

تحریک انصاف کے میدان عمل میں آنے سے پاکستان کے عام سادہ لوح افراد کو توقع تھی کہ یہ جماعت پڑھے لکھے محب وطن لوگوں کو آگے آنے کا موقع دے گا اور ملک کی دو روایتی جماعتوں میں رہ کر اعلیٰ عہدوں کے مزے لوٹنے والوں اور جھوٹے وعدوں پر اقتدار میں آنے والوں کو جماعت میں جگہ نہیں دے گی مگر یکے بعد دیگرے اس جماعت میں بھی لوٹوں کی اکثریت غالب آگئی اور لاکھوںباشعور پاکستانی اس جماعت کی پالیسیوں سے متنفر ہو کر اس سے دور ہوگئے اور دن بدن اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

دوسری طرف صرف 4 مختلف انتخابی حلقوں کی سیٹوں پر دھاندلی کے الزامات پر اب اڑھائی سالہ طویل مدت میں ایک کے بعد دوسرے تیسرے آنے والے فیصلوں سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے ملک میں کس قدر شفاف انتخابات کے نتیجہ میں موجودہ حکومت نے اقتدار حاصل کیا ، انتخابی نظام کتنا پائیدارہے اور چار حلقوں کی نشاندہی پر تین کے آنے والے فیصلہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے انتخابات ماضی میں بھی کس طرح ہوتے رہے ہیں۔ اداروں کی مدد سے کس طرح بااثر شخصیات اقتدار میں آکر کروڑوں پاکستانیوں کی تقدیروں سے عرصہ دراز سے کھیل رہے ہیں۔ فیصلوں کا حال یہ ہے کہ غریب کہیں پھنس جائے تو اس کا کچومر نکال دیا جائے۔

Fake Degrees

Fake Degrees

جبکہ جعلی ڈگریاں رکھنے استعمال کرنے اور ان کے ذریعے اقتدار میں رہنے والوں کو عوامی خزانے کا بے دریغ استعمال کرنے پر بھی جیلوں میں نہیں ڈالا جاتا ان کی سزا بھی اتنی ہی دی جا تی ہے کہ وہ بس سیٹ چھوڑ دیں اور آزاد فضائوں کے مزے لیں۔ یہ سب سیاست اور ملک میں جمہوری نظام کی بدولت ممکن ہے۔دھرنوں کی بات کی جائے تو حالیہ دھرنے سے قبل ملک کے نوجوان طبقہ کو گمراہ کر کے سیاسی تقریروں کے ذریعے اشتعال دلوایا گیا اور پھر مقابلے میں طاقت کے استعمال کے نتیجہ میں سانحہ ماڈل ٹائون نے جنم لیا۔سانحہ ماڈل ٹائون جیسے واقعات کے بعدراقم کا سیاست اور سیاسی لوگوں پر جو تھوڑا بہت اعتماد اور محبت کا رشتہ تھا وہ ختم ہوچکا ہے۔

سیاستدان جب بھی اپنے مفاد کی کوئی بات کرتے ہیں تو ہر بات میں 18, 19 کروڑ پاکستانیوں کو گھسیٹ لاتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کروڑوں پاکستانیوں کی من مرضی کے مطابق کبھی کوئی قدم اٹھایا ہی نہیں گیا اور وطن عزیز میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جو سیاست اور ان سیاسیوں سنیاسیوں کو بالکل پسند نہیں کرتے اس جمہوری نظام کا فائدہ بہرحالا ن نام نہاد جمہوریوں کو ہی ہے کہ خاندانوں کے خاندان جمہوریت سے بھرپور ثمرات حاصل کرتے ہیںاعلیٰ ترین عہدے انجوائے کرتے خزانہ سرکار پر بھرپور ہاتھ صاف کرتے ہیں۔

Pakistan People

Pakistan People

جمہوریت کے نام پر ووٹ کی آڑ میں دھاندلی یا بغیر دھاندلی کے چند لوگوں کی سپورٹ پر منتخب ہونے والے افراد ان کروڑوں پاکستانیوں کے بھی حاکم بن جاتے ہیں جو اس نظام پر لعنت بھیجتے ہیں اور سیاست سے خائف ایسے افراد کو اس جمہوریت زدہ وطن میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے کہ ایسے افراد کو نا م نہاد میرٹ کی بھینٹ چڑھا کر کہیں بھی اوپر نہیں آنے دیا جاتا کسی سرکاری ادارے میں اعلیٰ عہدے پر کیا کسی چھوٹی پوسٹ پر بھی انہیں ملازمت نہیں مل سکتی۔ میرے خیال میں سیاسی لوگوں کے عتاب سے بچنے کا حل یہی ہے کہ کروڑوں پاکستانی جو اِن سیاسیوں کو پسند نہیں کرتے اپنے حق کیلئے متحد ہوجائیں کم ازکم اپنے اور اپنی اولادوں کے روزگار اور ملک کے اہم اداروں میں ملازمتیں حاصل کرنے کیلئے اپنا حق مانگیں۔

ملک کے عظیم رہنمائوں سے گزارش ہے کہ براہ کرم ایسے کروڑوں پاکستانیوں کو اقلیت ہی سمجھ کر ملازمتوں کے کوٹے میں غیرسیاسی افراد کا کوٹہ رکھیں اور کسی سیٹ پر تقرر کے انتخاب کیلئے متعلقہ تعلیمی قابلیت رکھنے والے تمام امیدواروں کے درمیان قرعہ اندازی کا طریقہ اختیارتا کہ غیرسیاسی لوگ نام نہاد میرٹ کی زد سے بچ سکیں اور مطمئن ہو کر ملک وقوم کیلئے اپنی خدمات سرانجام دے سکیں۔

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

Aqeel Ahmed Khan Lodhi

تحریر: عقیل احمد خان لودھی۔ وزیرآباد