بچہ جمورا

bacha jamura

bacha jamura

بچہ جمورا
میں کون ۔۔۔۔عامل
تو کون ۔۔۔۔معمول
عامل۔۔۔۔جو کچھ پوچھوں گا بتلائے گا۔
معمول۔۔۔۔ بتلائوں گا
عامل۔۔۔۔ گھوم جا
معمول ۔۔۔۔گھوم گیا
عامل۔۔۔۔ کیا دیکھ رہا ہے
معمول ۔۔۔۔داغِ دل ہم کو جلانے لگے داغِ دل ہم کو جلانے لگے لوگ اپنے دیئے جلانے لگے داغِ دل ہم کو جلانے لگے
لوگ اپنے حالِ دل ہم کو بتانے لگے داغِ دل ہم کو جلانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عامل۔۔۔۔بچہ! کس کی محبت میں گرفتار ہوکر دل جلابیٹھا ہے؟ معمول ۔۔۔۔استاد جی ! میں اپنے دل کے جلانے کی بات نہیں کررہا بلکہ ایک مزدور کے دل جلنے کی بات کررہا ہوں کیونکہ وہ قیام پاکستان سے لیکر تیسری چوتھی نسل تک مزدور کا مزدور ہی ہے ۔ جس نے سنگ لاخ چٹانوں کے سینے چیر کر سیمنٹ ، جپسم ،کوئلہ ، سونا ، چاندی ،پیتل، لوہا غرضیکہ تیل ، پٹرول اور سوئی گیس تک نکال باہر کی ہے ، اس کے علاوہ موٹروے ، ہائی وے ، پارلیمنٹ ، ڈیم ، پلازے بھی اسی مزدور کے ہاتھوں سے تعمیر ہوئے ہیں ، جبکہ یہی مزدور کسان کی شکل میں گندم ،مکئی ،سبزیاں ، فروٹ بھی اگاتے ہیں ، جس سے پورا پاکستان سال کے چاروں موسموں میں ہر قسم کے پھل اور سبزیوں سے فیضیاب ہورہا ہے ۔عامل۔۔۔۔بچہ! حکومت پاکستان نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 13ہزارروپے تو مقرر کر رکھی ہے ، حکومت تعاون بھی کررہی ہے،مزدور خوش بھی ہے؟

معمول۔۔۔۔استاد جی! اول تو13ہزار روپے ملتے ہی نہیں اگر مل بھی جائیں تو اتنے پیسوں میں روٹی تو درکنار ایک ہنڈیا بھی نہیں پک سکتی تو روٹی، کپڑا اور مکان کہاں سے لائے گا۔مثلاً بچوں کی تعلیم ، صحت ،شادیاں وغیرہ کے لئے پیسہ کہاں سے آئیں گے ، مزدور کا تو حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں نے بیڑہ غرق کردیا ہے ، جبکہ مزدور تمام حکومتی ترقیاتی منصوبے بنا کر قومی خزانہ کو بھر نے میں مصروف ہے،جبکہ سرکاری مزدور نے واپڈا ، ریلوے ، پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے اداروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے ، پرائیویٹ مزدور نے پاکستان بنتے وقت اپنے گھر بار لٹا کر قیمتی جانوں کے نذرانے بھی دیئے ،اس کے مقابلے میں سرکاری مزدور اور افسران ہاتھ پہ ہاتھ دھرے 20روپے کاکام تک نہیں کرتے ۔ لاکھوں ، کروڑوں روپے کی تنخواہیں لیکر قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔

PAKISTAN

PAKISTAN

عامل۔۔۔۔۔ بچہ! تمہیں سرکاری مزدور اور پرائیویٹ مزدور میں فرق ہی نہیں معلوم ۔سرکاری مزدور سرکار ہونے کے ناطے سے پاکستان کو چلا رہے ہیں جبکہ پرائیویٹ مزدور کو تو الف ب بھی معلوم نہیں ،یہ تو انپڑھ ہوتا ہے ،اس نے ملک کو کیا سنوارنا ہے ؟
معمول۔۔۔۔۔استاد جی ! یہی مزدور تو قومی /صوبائی اسمبلیوں میں ممبران کو ووٹ کے ذریعے بھیج رہے ہیں ، حکومتیں بھی مزدور ہی بناتے ہیں اور یہی گراتے بھی ہیں ،سرکاری مزدور تو صرف سرکار کے غلام ہوتے ہیں صرف حکم کی تکمیل کرنا جانتے ہیں جبکہ پرائیویٹ مزدور ہی اصل میں حکومت کی معیشت اور پہیہ چلارہے ہیں ۔سرکاری مزدور تو آجکل کرپشن کی پیداوار ہوچکے ہیں ، ان لوگوں نے تو حکومتی اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ،یہ لوگ تنخواہیں بھی لیتے ہیں اور رشوت کے بغیر کام بھی نہیں کرتے اور پھر بھی مزدور ہونے کے دعوے کرتے ہیں۔

عامل۔۔۔۔۔ بچہ! تمہاری بات کچھ کچھ سمجھ تو آرہی ہے مگر بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ مزدور کی مزدوری اسکے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دینی چاہیئے مگر سرکاری مزدوروں کا تو پسینہ کبھی نظر نہیں آیا، یہ کیا ماجرا ہے ؟
معمول۔۔۔۔۔ استاد جی ! میںبھی تو اسی کا رونا رورہا ہوں ۔ سرکاری مزدور تو اے سی والے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر کام کرتے ہیںجبکہ پرائیویٹ مزدور تو ”ڈیلی ویجز ” سخت سردی ہویا گرمی ،کھلے آسمان تلے کام کرتے ہیں ، سرکاری مزدور کو تو سرکار چھٹی کے باوجود تنخواہ دیتی ہے انکا علاج معالجہ بھی کرتی ہے ،مگر پرائیویٹ مزدور اگر صحت مند ہوگا تو کام کرتا رہے گا،دیہاڑی لگ گئی تو ٹھیک ورنہ آمدن بند۔نتیجتاً تمام کنبہ فاقوں کا شکار ۔عامل۔۔۔۔۔بچہ! تو سرکار کو کیوں کوس رہا ہے ؟ ہر سال دوران بجٹ مراعات تو دیتی ہے اور خود مشکل میں رہتی ہے۔ کروڑوں ،اربوں اور کھربوں روپے اسی مزدور پر ہی تو خرچ کرتی ہے ،تو پھر بھی ناخوش ہے؟

Tax

Tax

معمول۔۔۔۔۔استاد جی! مزدور کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی ،دیہاڑی لگ جائے توشام کو بچوں کیلئے دال روٹی پک جاتی ہے اگر پرائیویٹ ملازمت کررہاہو تو مالک جب چاہے نکال دے ، پھر اسکی قسمت میں فاقے ہی فاقے۔ آپ بجٹ کی بات کررہے ہیں ،یہ تو صرف اور صرف سرکاری ملازمین اور پنشنرز کیلئے ہوتا ہے ،جتنی بھی تنخواہیں یا پنشن بڑھتی ہیں تو وہ سرکاری ملازمین کی ۔یہ تو سرکار کا ملازم بنتے وقت (پہلے دن) سے لیکر ریٹائر منٹ تک اور پھر ریٹائرمنٹ سے قبر تک سرکاری خزانے کا حصے دار ہوتا ہے جو اسے ملتا رہتا ہے ،بلکہ اسکے فوت ہونے کے بعد بھی اسکی بیوہ اور بچوں میں منتقل ہوجاتاہے حالانکہ یہ سرکاری ملازمین آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔بجٹ میں پرائیویٹ مزدوروں پر تو ٹیکس ہی ٹیکس لگتے ہیں جواسے ہر صورت میں ادا کرنے پڑتے ہیں، مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ مزدور کا گذر بسر ناممکن ہوچکا ہے ، رہی بات سرکار کی تو وہ اگر اربوں کھربوں روپے خرچ کررہی ہے تو وہ صرف ان سرکاری ملازمین پر۔جن کو تنخواہوں و دیگر مراعات کی مد میں دیتی ہے، ایک ملازم کو تنخواہ تو گورنمنٹ نے مقرر کر دی ہے مگر سرکاری ملازمین کی اس سے سیر نہیں ہوتی وہ اضافی طور پر مختلف الائونس دفتر میں کام کرنے کے علاوہ آنے جانے ،کھانے پینے کے بھی لیتے ہیں ، انہی اضافی الائونسز نے ہی تو سرکاری خزانے کو تباہ کر دیا ہے ، اس کے برعکس پرائیویٹ مزدور کو حکومت کیا دیتی ہے، صرف اور صرف اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے ۔

عامل ۔۔۔۔۔ بچہ! اس کا حل بھی تو بتا۔کس طرح مزدور کو انصاف ملے گا حالانکہ یہ بھی پاکستان کے شہری ہیں ؟ ان کے بچوں کے بھی بنیادی حقوق ہیں؟ معمول ۔۔۔۔۔استاد جی! حکمرانوں کو بجٹ بناتے وقت ان کا خیال رکھنا چاہیئے ، عرب و دیگر یورپی ممالک عام مزدور کو اس کے بنیادی حقوق مثلاً صحت ، صاف پانی اور روٹی کپڑا مکان کے علاوہ یتیم بچوں اور بیوائوں کو وظائف بھی مقرر کررکھے ہیں ، جبکہ بڑھاپے میں بڑھاپا الائونس بھی کیش دیا جاتا ہے یہاں ایسا کیوں نہیں ۔ پاکستانی عوام کا بھی حق ہے ۔ تمام مزدوروں کو کم از کم 6ہزار روپے ماہانہ ۔بیوائوں اور بچوں کیلئے 12ہزار روپے وظیفہ دیا جائے ۔ علاج معالجہ کیلئے حقیقی معنوں میں سہولیات فراہم کی جائیں ، سرکاری ملازمین و افسران پرائیویٹ مزدوروں اور عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح سلوک کرنے کی بجائے ملکی شہری تصور کریں اور ان کو عزت دیں تاکہ یہ لوگ بھی مغربی تہذیب و ثقافت کو بھول کر پاکستان میں ہی رہنا پسند کریں اور اسلامی ریاست کے اندر صحیح معنوں میں منصفانہ نظام (مساوات محمدیۖ) رائج ہوسکے ۔

میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو اللہ تعالےٰ نے تین تین بار مواقع فراہم کئے ہیں ، شاید اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے لئے ان سے مزید کام لینا چاہتا ہے ۔مگر بدقسمتی سے یہ دونوں بھائی پچھلے دو پیریڈ گذار کر اب تیسرا بھی آدھا ضائع کر چکے ہیں ۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے اور بندوں کی خدمت کرنی ہے تو انہیں چاہیئے کہ وہ آئندہ بجٹ 2016ء میں تمام مراعات کا اعلان کریں۔ پرائیویٹ افراد کے لئے رقم مختص کی جائے تاکہ یہ غریب عوام ہمیشہ کی طرح کھانستے کھانستے ہی نہ مرتی رہے اور دن قیامت کے ان کے ہاتھ اور آپ کے گریبانوں پر نہ ہوں۔

Riaz mughal

Riaz mughal

تحریر:۔ریاض احمد مغل