نرسنگ ،شعبہ صحت میں ریڑھ کی ہڈی !

Nurses

Nurses

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
اکثر نرسیں مریضوں کی اپنے والدین کی طرح ،بہن بھائیوں کی طرح خدمت کرتی ہیں ، انہیں کھلاتی پلاتی ہیں ،دوا وقت پر دیتی ہیں ،ان کا بستر ،لباس صاف رکھتی ہیں ،مریض بے ہوش ہو تو اس کو کروٹ دلانے سے لے کر اس کی بنیادی ضروریات کا بھی خیال رکھتی ہیں ،نرسیں مریضوں کو ماں کی طرح سنبھالتی ہیں ، ان کی مریضوں سے بے لوث محبت ہوتی ہے مریض کا خیال رکھنے میں ان کی مالی حیثیت کا لحاظ نہیں رکھتیں، سب کا ایک جیسا خیال رکھتی ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ نرسیں مریض کا ڈاکٹروں سے بھی زیادہ خیال رکھتی ہیں ۔سفید لباس پہنے نرس مریض کو دوا دینے سے لے کر ڈرپ لگانے ،مریض کو خوش رکھنے اور سب سے بڑھ کر مریض کا حوصلہ بڑھانے تک ،خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہر لمحہ سرکاری و پرائیویٹ ہسپتال میں مصروف رہتی ہے ۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 12 مئی کو نرسوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میں نرسنگ کے شعبے کی انسانیت کے لئے خدمات کا شعور بیدار کرنا عوام میں نرسنگ کے شعبے کی انسانیت کے لئے خدمات کا شعور اجاگر کرنا ،ان کی خدمات کو سراہنا ہے اور جدید نرسنگ کی بانی برطانوی نرس فلورنس نائٹ انگیل کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنھوں نے 1854 کی جنگ میں صرف 38 نرسوں کی مدد سے 1500 زخمی اور بیمار فوجیوں کی دن رات تیمار داری کی ۔

Begum Rana Liaquat Ali Khan

Begum Rana Liaquat Ali Khan

پاکستان میں نرسنگ کے شعبے کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔ جس کے بعد 1949میں سنٹرل نرسنگ ایسوسی ایشن اور 1951میں نرسز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا ۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق ملک میں نرسنگ کی بنیادی تربیت کے لیے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 162 ادارے قائم ہیں۔ ان میں سے پنجاب میں 72، سندھ میں 59، بلوچستان میں 12 جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نرسنگ کے 19 ادارے قائم ہیں۔ جبکہ نرسنگ کے شعبے میں ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام پیش کرنے والے اداروں کی تعداد صرف پانچ ہے ۔ نرسیں انتہائی مشکل حالات میں کم تنخواہ اور کم سہولتوں کے باوجود خدمت خلق کی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ سردی گرمی’ بارش آندھی اور رات دن کی پروا کئے بغیر مریضوں کی خدمت گزاری کے فرائض سرانجام دینے والی نرسیں انتہائی مشکل حالات میں کم تنخواہ’ کم سہولتوں کے باوجود انسانیت کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں ۔

انہیں مریضوں اور ان کے لواحقین کے ہتک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔معاشرہ میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ،انہیں مردوں کے وارڈ میں ڈیوٹی کے دوران جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے،جنسی طور پر ڈاکٹر بھی ہراساں کرتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نرسیں خود کوغیر محفوظ خیال کرتی ہیں ، نرسوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے دوران ذہنی دبائوکا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لوگ انہیں سسٹر کہتے تو ہیں سمجھتے نہیں، ان کی اتنی خواہش ہے کہ لوگ انہیں سسٹر سمجھنا بھی شروع کر دیں۔ دوسری طرف نرسنگ کی طالبات کو ہوسٹلوں میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے ۔اخباری اطلاع کے مطابق انہیں مریضوں سے لگنے والی بیماری کے بعد مفت علاج کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔

Nurses

Nurses

دارالحکومت کے ایک بڑے نجی ہسپتال کی نرسنگ ڈائریکٹر یاسمین ساگو نے کہا کہ چھ مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے کم ازم کم ایک نرس کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ تیس مریضوں کے لئے صرف ایک نرس دستیاب ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ معاشرے کے اندر روایتی طور پر نرسنگ کے شعبے کو جائز وقارنہیں دیا جا رہا اور اسے ایک معمولی نوعیت کا کام تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت نرسوں کو ان کی قابلیت کی بنیاد پر سولہ سے سترہ گریڈ تک میں نوکریاں مل سکتی ہیں لیکن صرف معاشرتی رویے کی وجہ سے عورتیں اور مرد اس طرف نہیں آ رہے۔

یاسمین ساگو کی رائے میں پاکستان میں نرسوں کی موجودہ کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر سال تقریباً تین ہزار افراد اس شعبے میں بہتر مستقبل کی غرض سے بیرون ملک چلے جاتے ہیں ۔ان کا کہا تھا کہ نرسوں کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ دائیوں اور خواتین ہیلتھ ورکز کی کمی کو پورا کرنا بھی بہت ضروری ہے جس سے زچہ و بچہ کی تشویشناک حد تک زیادہ شرح اموات کم کی جا سکتی ہے ۔نرس مریض کے لیے مسیحا کا درجہ رکھتی ہے ،نرسنگ کو شعبہ صحت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ آج کے دور میں بھی نرسنگ کو باعزت پیشہ نہیں سمجھا جاتا ، دیگر بہت سے مسائل و مشکلات کے ساتھ ساتھ ایک نرس کو اچھا جیون ساتھی ملنا مشکل ہوتا ہے۔

Akhtar Sardar Ch

Akhtar Sardar Ch

تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال