عالمی نیوکلئیر کانفرنس اور دہشتگردی

Nuclear Conference

Nuclear Conference

تحریر: محمد نواز بشیر
امریکہ کے صدر باراک اوباما نے واشنگٹن میں گلوبل نیوکلئیر سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ دنیا کے دہشت گرد گروہ جوہری صلاحیت حاصل کرنے کے لئے بے تاب ہیں ، اس لئے دنیا کو اس ممکنہ تباہی سے بچانے کے لئے دنیا بھر کے سب ملکوں کومل کر جوہری ہتھیار محدود کرنے اور انہیں محفوظ بنانے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ سربراہی کانفرنس بر سلز ا ور لاہور میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے فوری بعد منعقد ہوئی۔ ان حملوں میں 112 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف لاہور کے گلشن اقبال پارک میں خود کش حملہ کی وجہ سے اس کانفرنس میں شرکت کے لئے واشنگٹن نہیں جا سکے تھے۔ اس لئے پاکستان کی نمائیندگی وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی تھی اس علمی نیوکلئیر کانفرنس میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری بھی شامل تھے۔

کانفرنس میں پچاس ملکوں کے سربراہان شریک ہوئے لیکن روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس میں شرکت سے گریز کیا ۔ اس لئے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ کانفرنس جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوگی۔تاہم اس وقت دنیا کی اہم ترین ایٹمی طاقتیں جن میں روس اور چین بھی شامل ہیں، جوہری مواد اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے متفق ہیں اور گزشتہ کئی برس سے اس بارے میں تعاون بھی دیکھنے میں آرہا ہے پاکستان اس وقت دنیا کی سات مسلمہ ایٹمی طاقتوں میں واحد ملک ہے جو ایٹمی ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے میں ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے نہایت محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کا عالمی ادارہ IAEA بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں اب تک مختلف نوعیت کے پونے تین ہزار جوہری حادثات رجسٹر کئے گئے ہیں جن میں پانچ بھارت میں ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اگرچہ چالیس برس پرانا ہے لیکن ہمارے حفاظتی اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں اس قسم کا کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا

Terrorist groups

Terrorist groups

دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے اکثر ماہرین پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور دہشت گرد گروہوں کی قوت کی وجہ سے خاص طورپر چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں اور انہیں نشانے پر پھینکنے والے شارٹ رینج میزائل سسٹم سے ہی ذیادہ خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ عام طور سے یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ یہ ہتھیار آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتے ہیں اس لئے اگر کسی طرح پاکستان اور امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان اس حوالے سے اعتماد کی فضا موجود نہیں ہے۔ اس لئے جب بھی ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول کی بات ہوتی ہے، پاکستان کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور پاکستان کے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ اس کا مقابلہ اپنے سے پانچ گنا بڑے ملک بھارت سے ہے ، اس لئے خود حفاظتی کے مقصد سے پاکستان کے لئے ایٹمی صلاحیت برقرار رکھنا ضروری ہے۔ امریکہ جوہری پھیلاؤ کے بارے میں پریشانی کا اظہار کرنے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان اس حوالے سے کوئی تفہیم کروانے میں بھی ناکام رہا ہے۔

اس کے برعکس چند برس قبل امریکہ نے بھارت کے ساتھ ایٹمی مواد کی فراہمی کا معاہدہ کیا تھا، یورپ اور امریکہ نے نصف صدی سے زائد عرصہ تک جوہری قوت کو حفاظت کا ذریعہ سمجھنے کے بعد بالآ خر سرد جنگ کے خاتمہ پر اس راز کو پالیا کہ ایٹمی ہتھیار صرف بربادی کا پیغام ہیں اور ان کے ذخیرے کرہ ارض کے انسانوں کی زندگیوں کے لئے ایک مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن پاکستان کے لیڈر اور کسی حد تک عالمی مباحث سے نابلد ماہرین بھی مسلسل عوام کو یہ یقین دلانے میںقاصر رہتے ہیں کہ پاکستان کے وجود کے لئے ایٹمی طاقت لازمی ہے۔ بھارت کے ساتھ دشمنی اور مخالفت کے تناظر میں اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے تو بھی خود حفاظتی کے لئے محدود جوہری قوت کافی ہے ۔ گزشتہ دنوں بلجئیم میں پیرس اور برسلز پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے جس گروہ کا سراغ لگایا گیا ہے ، اس کے قبضہ سے ایک ایسی ویڈیو بھی ملی ہے ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گروہ بلجئیم کے ایک ایٹمی سائنسدان کی نگرانی کرتا رہا ہے۔

Obama

Obama

صدر باراک اوباما نے جوہری سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس ویڈیو کا ذکر کیا اور کہا کہ داعش اس سے پہلے کیمیاوی اور مہلک ہتھیار استعمال کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پلوٹینیم کی معمولی مقدار بھی دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس سے لاکھوں افراد کو ہلاک کرسکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہوگی جو دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دے گی، ایک طرف امریکہ کے صدر دنیا کو جوہری مواد کے پھیلاؤ سے ڈرا رہے ہیں تو دوسری طرف امریکہ کا صدر بننے کے خواہشمند ڈونلڈ ٹرمپ کاکہنا ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا کو اگر شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام سے اندیشہ ہے تو وہ خود بھی اپنے ہتھیار بنا لیں۔ امریکہ کب تک دوسرے ملکوں کی حفاظت پر اپنے وسائل صرف کرتا رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے امریکہ کو اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے جاپان اور دوسرے ملکوں کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا حق دینا چاہئے۔ ایک مقبول امریکی لیڈر کی ان باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تباہ کن فیصلے کرنے والے صرف چھوٹے ملکوں میں ہی نہیں بستے۔ امریکہ میں بھی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے بعض غیر ذمہ دار لیڈر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

تحریر: محمد نواز بشیر
nawaz.fm51@yahoo.com