اوبامہ، ٹرمپ اور عالم اسلام

Obama

Obama

تحریر : عبدالرزاق
امریکی صدر باراک اوبامہ کا آٹھ سالہ ہنگامہ خیز دور حکومت اختتام کو پہنچا تو اوبامہ نے شکاگو میں اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوے اپنے دور حکومت کو امریکی تاریخ کا سنہری دور قرار دیا۔ امریکی صدر نے جذباتی انداز اپناتے ہوے یوں اپنے صدارتی دور کے کارنامے گنوائے جیسے وہ واحد امریکی صدر ہیں جنہوں نے امریکی عوام کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دی ہو۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت، ایران کو ایٹمی قوت بننے سے روکنا اور نائن الیون کے ذمہ داروں کو سبق سکھانا جیسے کارناموں کو بڑی کامیابی قرار دیا ۔ علاوہ ازیں انہوں نے داعش کے خلاف کامیاب حکمت عملی کو بھی اپنی تقریر کا موضوع بنایا اور یوں تاثر دیا جیسے انہوں نے تمام ہی مسائل کا حل ڈھونڈ نکالا ہو جس سے امریکہ اور باقی دنیا نبرد آزما ہے۔

امریکی صدر اپنی کامیابیوں کا ڈھول بجاتے وقت شاید اس بات کو بھول گئے یا نظرانداز کر گئے کہ ان کے دور حکومت میں دنیا میں تشدد، نفرت اور نسلی امتیاز کا جو گھناونا کھیل جاری رہا اس کی بھی اس سے پہلے تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ مشرق وسطیٰ سمیت مسلم ممالک میں امریکہ کی لگائی ہوئی آگ کی چنگاریاں پوری مسلم امہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں ۔ مصر کی بربادی ابھی کل کی بات ہے ۔ امریکی ریشہ دوانیوں نے اس ملک کے باشندوں کو ایک دوسرے سے باہم برسر پیکار کروا کر مصر ی تہذیب و تمدن کا شیرازہ ہی بکھیر دیا ۔ مصری فوج اپنے ہی بھائیوں کے سر کچلتی رہی اور انسانیت چوک چوراہوں میں تذلیل ہوتی رہی جس کا نظارہ دیکھ کر امریکہ اپنے ہنر پر فخر کرتا رہا ۔ مصر ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھا لیکن پوری دنیا کو زیر تسلط رکھنے کا عزم باندھے امریکہ کو یہ ترقی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی سو اس نے کمال مہارت سے سازشوں کا ایسا جال بچھایا کہ جلد ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔

امریکی صدر کو اپنی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوے ذرا بھی شرم نہ آئی کہ اسرائیل کس طرح دیدہ دلیری سے نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا رہا اور امریکہ سب جانتے بوجھتے اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف رہا۔ فلسطین کے عوام تو آج بھی امریکہ سمیت پوری دنیا سے سراپا سوال ہیں کہ ان کے معاملہ میں آخر انسانیت کہاں کھو گئی ہے ۔ نہ جانے یہ امریکی کس منہ سے امن و امان اور انسانیت کے وقار کی بات کرتے ہیں ۔ شام کی صورتحال پر ،یمن کی حالت زار پر اور کشمیریوں کی بے بسی پر ان عیاروں، مکاروں اور فریب کاروں کی نظر کیوں نہیں ٹھہرتی ۔ کیا یہ کامیابی نہ ہوتی کہ مظلوم اور بے کس عوام کو خطرناک عزائم کے حامل ان بھیڑیوں کے چنگل سے آزاد کروانے کے لیے کوشش کی جاتی۔ اوبامہ کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اصل کامیابی ہی یہی تھی کہ مظلوم اقوام کی ڈھارس بندھائی جاتی اور ا ن کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی لیکن امریکہ کا عمل اس امر سے برعکس دکھائی دیا وہ مظلوموں کی آہ و بکا سن کر نہ صرف خاموش رہا بلکہ طاقت وروں کی پشت پناہی کر کے ان کی دہشت کے قلعے مذید مضبوط کرتا رہا۔

Donald Trump

Donald Trump

امریکہ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں مذید شگاف ڈالنے کی بھی بھرپور کوشش کی جس میں اسے خاطر خواہ کامیابی بھی ملی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا کا ایک اہم ترین ملک ترکی جوکچھ عرصہ قبل تک برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا امریکی سازشوں کی بدولت اب وہ بھی اندرونی و بیرونی خطرات میں گھر کر اپنی منزل سے پیچھے کی جانب کھسکنے لگا ہے ۔ عالمی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کو یہ خدشہ تو لاحق تھا کہ امریکہ ترکی کے ترقی کی جانب بڑھتے قدم ایک نہ ایک دن ضرور روکے گا لیکن یہ توقع ہرگز نہ تھی کہ یہ صورتحال اس قدر جلد جنم لے لے گی ۔ اب ترکی بھی افغانستان، پاکستان اور عراق کی طرح دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اس کی معیشت کو کاری ضرب لگ رہی ہے۔

مرد بحران طیب اردگان اگرچہ اس صورتحال سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں لیکن دشمن کی جانب سے بڑھکائی آگ اس قدر شدید ہے کہ اس پر قابو پانا اگرچہ ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے ۔شام میں داعش کے خاتمے کا بہانہ اور عذر تراش کر بربادی کی جو داستان رقم کی گئی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ بے حسی ،بے دردی اور ظلم کی قبا پہنے بیرونی طاقتوں نے جس طرح سرزمین شام کو تخت مشق بنایا اس میں بھی امریکہ پیش پیش رہا ۔ قصہ مختصر کہ اوبامہ کو اپنی مصنوعی کامیابیوں کا راگ الاپتے وقت اپنی ظالمانہ اور پرتشدد پالیسی کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا اور دنیا کو بتانا چاہیے تھا کہ کس طرح وہ اپنی چالاکیوں اور چیرہ دستیوں کی بدولت پوری دنیا کے وسائل پر قابو پانا چاہتا ہے اس عزم کا اشارہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی آخری تقریر میں اوبامہ نے چین اور روس کا بھی ذکر کیا جس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑتا چین اس کی آنکھوں میں کس طرح کھٹکتا ہے۔

اب سوچ طلب امر یہ ہے کہ اوبامہ تو اپنے حصہ کی تباہی مچا کر وائٹ ہاوس سے رخصت ہو نے کو ہیں لیکن اپنے پیچھے ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت ایک ایسا شیطان صفت انسان چھوڑ گئے جس کے بیانات سے اہل خرد خوب سمجھ سکتے ہیں کہ وہ مسلم امہ کے لیے کس حد تک خطرناک ہوں گے ۔ مسلمانوں کو تعصب اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھنے والے اس امریکی صدر کے عزائم اور خیالات سے پوری دنیا آگاہ ہو چکی ہے اور اس ہٹ دھرم انسان سے کچھ بعید نہیں کہ جو کچھ یہ کہتا رہا ہے وہ کر گزرے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے تو پاکستان کو بھی خطرات لاحق ہیں کیونکہ وہ متعدد مرتبہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا مرتکب رہا ہے اور پاکستان کے حوالے سے اپنے مذموم ارادے ظاہر کر چکا ہے ۔ اب یہ نواز شریف کی حکمت عملی پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس شریر انسان سے بچ کر اپنے ملک کے دفاع سالمیت اور تحفظ کو یقینی بناتے ہیں اور خدا نہ کرے اس شخص کے مکروہ عزائم کی کبھی تکمیل ہو۔

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

تحریر : عبدالرزاق