ضربِ قلم اور آن لائن لکھاری

Writer

Writer

تحریر : شیخ خالد ذاہد
پاکستان میں لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ سیاست پر لکھنے کی بات ہو یا ادب کی کسی بھی صنف پر طبع آزمائی درکار ہو، آپ کو ایک سے ایک قلم کار مل جائے گا۔ جب سے انٹرنیٹ پر اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو ہم جیسے لکھنے والے بھی کسی حد تک پڑھے جانے لگے ہیں۔ پاکستان میں انگنت ویب سائٹز جہاں ہماری قومی زبان کی سربلندی کیلئے برسرِ پیکار ہیں وہیں لکھنے والوں کی بھر پور حوصلہ افزائی کا بھی سامان کئے ہوئے ہیں۔ ان ویب سائٹس کا تذکرہ نا کرنا ان کی خدمات سے انحراف کرنے کے مترادف ہوگا، اس فہرست میں سب سے پہلے ہماری ویب ڈاٹ کام کا ذکر کرنا چاہونگا جس کی سرپرستی میں ایک انفرادی نوعیت کا ” ہماری ویب آن لائن رائٹرز کلب ” بھی چل رہا ہے۔ جس کی ایک عدد گورننگ اور انتظامی باڈی بھی ہے اور اسے بذریعہ گورننگ باڈی ممبرز کے منتخب کیا جاتا ہے اور یہ عمل گزشتہ دو سالوں سے ہو رہا ہے۔

ہمارے ملک کے معروف شاعر و ادبی محترم جناب پروفیسر سحر انصاری صاحب ہماری ویب رائٹرز کلب سے بطور “سرپرستِ اعلی” منسلک ہیں ان کا یہ اعزازی عہدہ تا حیات رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اہم اور قابلِ ذکر ویب سائٹس ہیں ان میں اردو پوائنٹ ڈاٹ کام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، اردو 123، اردو فن، اردو مزا، اردو نیٹ، لائؤ اردو، اردو کلاسک، اردودوست، اردو منزل، گردوپیش ڈاٹ کام، جیواردو، آئی بی سی اردو، لالٹین، دلیل ڈاٹ پی کے اور دیگر۔ان کے علاوہ تقریباً ہر اخبار کی ویب سائٹ بھی دستیاب ہے جہاں “بلاگ” کی صورت میں لکھنے والوں کو جگہ دی جاتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لکھا تو بہت کچھ جا رہا ہے مگر اسکا نتیجہ کیوں نظر نہیں آرہا۔ ہماری کم علمی کے مطابق چند مذکورہ بالا ویب سائٹس نامی گرامی ہیں جو اردو کی خدمت میں ہر اول دستے کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا بھی سبب بن رہی ہیں۔ملکی سطح پر انکو نظر انداز کرنا ان اداروں کے ساتھ بہت نا انصافی ہے۔ یہی ویب سائٹس دنیا بھر میں پاکستان کے صحیح چہرے کی ترجمانی کر رہی ہیں۔ ان ویب سائٹس کی مرہونِ منت اب ہم کسی بھی سائٹ پر اپنی قومی زبان یعنی اردو میں اپنے احساسات اور جذبات بیان کر سکتے ہیں۔

5 جنوری 2016 سے اسلام آباد میں پاکستان ادبیات اکادمی کے زیرِ انتظام چوتھی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔ مذکورہ کانفرنس 5 جنوری کو شروع ہوچکی ہے اور یہ مختلف ادوار سے ہوتی ہوئی 8 جنوری کو اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ چار دنوں پر مشتمل اس کانفرنس کا بنیادی مقصد دنیا میں ہونے والے ادبی، زبانوں اور معاشروں پر ہونے والے تغیرات پر سود مند اور صحت افزاء مباحثے اور مکالموں کا پڑھنا ہوگا۔ 5جنوری کو اس علمی و ادبی کانفرنس کا افتتاح ہوا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب میاں محمد نواز شریف صاحب نے بہت خوبصورت الفاظ میں معاشرے کی ابتری اور نوجوان نسل کی بے راہ روی کی وجہ ادب سے دوری بتائی اور اس سے نمٹنے کیلئے “ضربِ قلم” بطور اصطلاح استعمال کر کے اہلِ قلم کے دل کی بات کہہ دی (یقین سے تو نہیں مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میاں صاحب کے ادا کئے گئے الفاظ محترم عرفان صدیقی صاحب کے قلم کے شایانِ شان تھے)۔ اچھی بات کوئی بھی کہے اسے سراہا جانا چاہئے۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

ادیبوں فنکاروں اور اہل قلم کیلئے سرکاری فنڈز میں اضافے کا بھی اعلان کیا گیا اور سرکار سے وابسطہ قلمکاروں کی دیگر مراعات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔وزیرِ اعظم صاحب کو یہ علم بھی ہونا چاہئے کہ جتنا خرچہ آپ نے ضربِ عضب کو کامیاب بنانے کیلئے کیا ہے اس کا پانچ سے دس فیصد بھی آپ ضرب قلم پر کردیں تو دعوے سے لکھ رہا ہوں کہ آپ کو پھر کبھی ضربِ عضب جیسے آپریشن کی نوبت نہیں آئے گی۔ بہر حال آپ کے یہ اقدامات بھی قابلِ ستائش ہیں۔ محترم وزیرِ اعظم صاحب اورقومی تاریخ و ادبی ورثہ کے مشیر جناب عرفان صدیقی صاحب مذکورہ اقدامات ضرب قلم کیلئے نا کافی ہیں۔ ہم سب باخوبی واقف ہیں کہ بے ادب بچہ ہو یا معاشرہ بہت تدبیر اور تدبر سے سدھارا جا سکتا ہے بصورتِ دیگر رسوائی مقدر کے دروازے پر دستک دینا شروع کر دیتی ہے۔

ملک کے کونے کونے سے لکھنے والے اپنی تحریریں آن لائن شائع کروا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل یا ثبوت ہیں کہ لکھنے کا رجھان تو بہت ہے یا پھر ملک کے بگڑے حالات کا دکھ بہت زیادہ ہے۔ لکھنے والے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھ رہے ہیں لیکن اس سارے ماحول میں جو افسردہ کرنے والی بات ہے وہ یہ کہ ان تحریروں میں ادب کا وسیع تر فقدان ہے۔ لکھنے والے جو ہے جیسا ہے لکھے جا رہے ہیں۔ بظاہر اس کی ایک وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ ادبی محفلوں کا اہتمام بہت کم ہوگیا ہے۔ دوسرے یہ کہ ادبی لوگ اپنی اپنی عزتوں کی حفاظت خود ہی کرنا چاہتے ہیں اسلئے شائد اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں۔ پھر حکومتی سرپرستی کسی سطح پر نہیں کی جاتی۔ حکومت صرف آرٹس کونسل تک اپنی ذمہ داری نبہا کر سمجھتی ہے کہ بہت بڑا کارہائے نمایاں انجام دے دیا جب کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

بدقسمتی سے اس کانفرنس کا حصہ نہیں بن پایا مگر اپنے اس مضمون کے توسط سے وطن عزیز کہ اربابِ اختیار تک اپنی گزارشات پہنچانے کی کوشش کرونگا ۔ آن لائن لکھنے والوں کی ایک باقاعدہ ادارے کی شکل دی جائے جو اپنا ایک ضابطہ اخلاق مرتب دیں اور اپنے لکھنے والوں کی اعانت کا بھی کوئی بندوبست کریں، یونین کونسل کی سطح پر بڑی لائبریریاں بنوائی جائیں اور ان کی آپسی نتیٹورک کو جوڑنے کی کوشش کیجئے اور پھر ایک ایک چھوٹی لائبریری ہر کونسل میں بنائی جائے۔ یونین کونسل کی سطح پر قرب و جوار کے لوگوں پر مشتمل ادبی کمیٹیاں بنائی جائیں۔

ادبی بیٹھکوں کا جال بچھایا جائے، پنجاب میں ٹی ہاؤس جیسی بیٹھک مختلف شہروں میں ہیں مگر کراچی جیسا بڑا شہر ایسی ایک بھی بیٹک سے محروم ہے۔ پارکس میں ایسی بیٹھکوں کا باقاعدہ افتتاح کیا جائے اور سرکاری سرپرستی کا یقین دلایا جائے۔ آرٹس کونسلز کی شاخیں ضلع کی سطح پر بنائی جائیں۔ سب سے بڑھ کر آپ واقعی سنجیدگی سے ضربِ قلم چاہتے ہیں تو بلدیاتی نشستوں میں ایک ادبی نشست کا اضافہ کیجئے تاکہ بنیادی سطح پر اس علمی و ادبی تبدیلی کیلئے کاویشیں کی جائیں۔ خدا کیلئے اسے بھی صرف سیاسی ڈائس مت سمجھئے گا آپ نے “ضربِ قلم” کی صورت میں بہت بڑی بات کہہ دی ہے اب اس کے لئے عملی اقدامات کر کہ ثابت کرنا ہوگا کہ آپ واقعی ایسا چاہتے ہیں۔ یقین کرلیں ہمارے ملک کہ بہت سارے مسلئے آپ کے ضربِ قلم سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔

Khalid Zahid

Khalid Zahid

تحریر : شیخ خالد ذاہد