صرف 2 سال

PML-N

PML-N

تحریر: روہیل اکبر
مسلم لیگ ن کی حکومت کو گذشتہ روز دو سال مکمل ہوگئے وزیر اعظم اور آرمی چیف اپنے اپنے نمائندوں کے ہمراہ افغانستان کے ایک روزہ دورہ پر تشریف لے گئے ہیں جہاں پر بہت سے اندرونی اور بیرونی مسائل پر بات ہوگی مگر میں یہاں پر صرف مسلم لیگ ن کی حکومت کے ان گذرنے والے دو سالوں کا ہی تذکرہ کرونگا کیونکہ ان دو سالوں میں حکمرانوں نے عوام کو نانی یاد دلادی ان سے قبل پیپلز پارٹی نے عوام کی وہ درگت بنائی کہ سب پرانے حکمران اچھے لگنے لگے تھے اور لوگ پرویز مشرف کے دور کو سنہری دور کہتے تھے۔

اب ان دو سالوں میں کی حکمرانی نے پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور کو شکست دیدی ہے جہاں ایک طرف لوگ بجلی کو ترس رہے ہیں وہی پر اب عوام پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لیے روٹی کو بھی ترس چکے ہیں کراچی کی صورتحال اب کھل کر سب کے سامنے آچکی ہے جہاں لوگ پانی کو ترس رہے ہیں عمران خان کے بلندو بانگ دعوے بھی وفا نہ ہوسکے پنجاب میں ہر کسی کو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر آنا پڑ رہا ہے لاقانونیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جسکا جو دل چاہے کرتا پھرے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرلی ہے بجلی صرف نام کو رہ رگئی ہے دن بھر کام کاج سے تھکا ہارا جب انسان رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہے تو رات 9بجے پھر 1بجے اور پھر 4بجے بجلی چلی جاتی ہے جسکی واپسی کا کوئی وقت مقرر نہیں بڑے بڑے شہروں میں چھوٹے چھوٹے مکانوں نہیں بلکہ کمروں میں رہنے والوں کے دن اور رات حکمرانوں نے حرام کررکھے ہیں نہ انہیں دن کو روزگار میسر آتا ہے اور نہ ہی انہیں رات کو سکون کی نیند آتی ہے دن کے وقت بھی بجلی کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کب اس نے آنا اور جانا ہے۔

Loadshedding

Loadshedding

جبکہ زیادتیوں کا یہ حال ہے کہ عوام اپنے حقوق کے لیے اپنے پیاروں کی لاشیں کبھی گورنر ہاؤس ،کبھی وزیر اعلی ہاؤس اور کبھی اسمبلی کے باہر رکھ کر احتجاج کررہے ہوتے ہیں یہ وہ مظلوم لوگ ہوتے ہیں جو شائد عام حالات میں گھر سے بھی نکلنا گوارا نہ کریں مگر دکھ اور تکلیف کی اس سطح پر آجاتے ہیں کہ اپنے ہی پیاروں کی لاشیں لاکر سڑکوں پر بیٹھ جاتے ہیں گذشتہ چار روز سے پنجاب کے وہ لوگ جنہیں ہم معمار قوم اور بچوں کے روحانی باپ جیسے الفاظات سے یاد کرتے ہیں وہ اساتذہ کرام فیصل چوک پنجاب اسمبلی کے باہر مسلسل رات دن دھرنہ دیے بیٹھے ہیں اور حکومت ہے کہ انہوں نے ایک بار بھی ان سے نہیں پوچھا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے کیونکہ حکمرانوں نے چن چن کر ایسے افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کررکھا ہے جن میں بولنے کی سکت ہے اور نہ ہی کسی مسئلہ کو حل کرنے کی کوئی صلاحیت ہے انکو جو احکامات اوپر سے آتے انہی پر انکھیں بند کرکے عمل کروانا شروع کردیتے ہیں پنجاب کے ہر محکمہ کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے سینئر افسران جو کام کو سمجھتے ہیں اور جن کے اندر بولنے اور بات منوانے کی صلاحیت ہے۔

انہیں کھڈے لائن لگا رکھا ہے اور جو یس سر کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں بولتے انہیں اہم عہدوں پر تعینات کرکے عوام پر حکمران بادشاہ سلامت بنے بیٹھے ہیں یہ ایسے بادشاہ ہیں جو آئے تو عوام کے ووٹوں سے ہیں مگر عوامی نمائندوں سے ملنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا خیال شائد یہ ہے کہ اگر وہ کسی کھبمے کو بھی ٹکٹ دیدتے تو وہ بھی ایم پی اے یا ایم این اے بن جاتا اس لیے وہ کسی سے بھی نہیں ملتے اور جن سے ملتے ہیں وہ صرف یس سر اور نو سر کہنے کے سوا کچھ نہیں بولتے یہی وجہ ہے کہ آج عوام کا بری طرح استحصال ہو رہا ہے۔ نوجوان اپنی ڈگریاں ہاتھوں ممیں اٹھائے خاکروب ،چپڑاسی اور نائب قاصد جیسی نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں مگر پتا چلتا ہے کہ ان سیٹوں پر بھی میرٹ ،میرٹ اور صرف میرٹ کی گردان الاپنے والوں نے اپنی پسند کے بندے رکھ لیے ہیں۔

افسران جو عوام کی خدمت کے لیے مامور ہیں وہ اپنے دفتروں میں کسی نواب کی طرح براجمان ہوتے ہیں اور وحشت اور ہیبت کا یہ انداز ہوتا ہے کہ وہ سائل جسکی خدمت کے لیے انکواے سی والا ٹھنڈا دفتر ،چپڑاسی ،پی اے ، نئے ماڈل کی ٹھنڈی کار ،گھر اور تمام لوازمات جیسی یہ تمام سہولیات دی جاتی ہیں وہی سائل ڈرتا ہوا انکے کمرے میں جانے سے کتراتا ہے کیونکہ افسر کی دہشت کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جسطرح حکمرانوں کی انکے دلوں پر دہشت طاری ہے اسی طرح انکی بھی عوام پر دہشت طاری رہے جسطرح حکمران کسی سے نہیں ملتے بلکل اسی طرح ہمارے افسران بھی کسی سے نہیں ملتے ان افسران میں بھی پھر بہت سی قسمیں نکل آتی ہیں اور ان میں جو ڈی ایم جی طبقہ ہے وہ اپنے آپ کو بلکل حکمرانوں کی طرح ہی سمجھتا ہے ہم میں ایک کمال جو مشترکہ ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی کو کوئی عہدہ یا اختیار ملتا ہے تو پھر وہ عوام سے دور ہوجاتا ہے موجودہ حکومت کی انہی پالیسیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے چوہدری سرور جیسا انسان بھی گورنری کو لات مارگیا تھا ابھی تو صرف دو سال ہی گذرے ہیں تین سال باقی ہیں اب دیکھتے لوگ کس کو اچھا کہتے ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر: روہیل اکبر
03004821200