آپریشن ردالفساد کو متنازعہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ حصہ سوئم

Pak Army Operation

Pak Army Operation

تحریر : قادر خان
، ایک جانب بھارت پاکستانی علاقوں پر گو لہ باریاں کرتا ہے تو دوسری جانب ، ایران پاکستانی علاقوں پر گولیاں باریاں کرتا ہے ، افغانستان نے پاکستان کے تمام احسانات بھلا کر وہی روش اختیار کرلی ہے جو ایران و بھارت کررہے ہیں۔ پاکستان اس وقت عالمی طاقتوں کی سازشوں کا میدان بنا ہوا ہے ، یہاں شطرنج کی بازی لگی ہوئی ہے اور پاکستان چومکھی کی لڑائی تن و تنہا لڑ رہا ہے۔پاکستانی فوجی اداروں کے ساتھ ایک جانب سیاست دان بھی مخلص نہیں تو دوسری جانب اپنے بیانات سے پاک فوج کی قربانیوں کو سیاست زدہ کرنے میں بھی کسی موقع کو ضائع نہیں جانے دیتے ، ماضی میں لگنے والے والے مارشل لا ء بھی سیاسی جماعتوں کے بے وقوفیوں سے ہی لگے تھے ، سیای جماعتیں نام نہاد جموری نظام کو بچانے کے لئے پاکستانی عوام کو بھینٹ چڑھا رہی ہے۔آپریشن رد الفساد کو متانزعہ بنانے کی بھی کوشش کی جائے گی ، یقینی طور پر”آپریشن رد الفساد”کی کامیابی عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔ لیکن بعض سیاسی جماعتوں نے فوج کے دس آپریشنز پر اپنی سیاست چمکائی ہے ، “آپریشن رد الفساد” کا بھی اعلان نہیں ہوا تھا کہ خیبرپختونخوا کی ایک قوم پرست جماعت کے ترجمان نے پہلا بیان دیا کہ “آپریشن رد الفساد” پختونوں کے خلاف شروع کیا گیا ہے اور پورے ملک میں پختونوں کو پاکستانی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے ، لیکن ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ پنجاب میں کالعدم جماعتوں کے سربراہ اگر پنجابی ہیں تو ان کے آلہ کار سندھی ، بلوچ اور پختون بھی ہیں ، خاص کر پختونوںمیں ان کا با آسانی چھپ جانا اور پختون قوم کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کماحقہ تعاون نہ کرنا ، ایک بڑا المیہ ہے ، اس کی بنیادی وجہ وہ ڈر ہے جس کا شکار کراچی سمیت پاکستان بھر میں محنت کش پختون قوم کے وہ خاندان ہیں جو اپنے آبائی علاقوں میں غیر محفوظ ہیں ، ان کی سب سے بڑی خوبی جوکمزوری بن گئی ہے ، اپنے گھروں ، ہجروں میں مہمان کو نعمت سمجھ کر پناہ دینا بھی ہے۔

آج افغانستان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان میں پختون قوم کو جتنے مصائب کا سامنا ہے ، وہ کسی بھی قوم کو نہیں ہوگا ، منشیات ، کلاشن کوف کلچر اور انتہا پسندی کی جانب خود ساختہ علما سوکی جانب سے راغب کرنا ، پختون قوم کے لئے مسائل کا پہاڑ بنا ہوا ہے ۔ زمینی حقائق کو اگر مد نظر رکھیں تو پاکستان میں انتہا پسندی پنجاب سے آئی اور ان کالعدم تنظیموں و جماعتوںکے سربراہ کوئی پختون نہیں بلکہ پنجابی ہیں ، لیکن افغان مہاجرین کے کییمپوں میں پناہ لیکر پیسوں کے خاطر پاکستان کے خلاف نوجوانوں کو استعمال کرنا ، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔”آپریشن رد الفساد” میں ملک بھر سے اسلحہ سے پاک کرنے کی بات کی گئی ہے ، پنجاب میں خیبر پختونخوا سے زیادہ اسلحہ اور جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ کراچی بارود کے ڈھیر پر ہے ۔ بلوچستان میں اسلحہ ملک دشمن عناصر سے مل رہا ہے ، اس صورتحال میں کہ جب پڑوسی ملک افغانستان میں داعش کو عالمی قوتیں ایک سازش کے تحت اکھٹا کررہی ہیں اور امارات اسلامیہ ان کے خلاف کاروائی کرتی ہے تو عالمی پروپیگنڈے کے طور پر امارات اسلامیہ کے خلاف ہی بیان بازی کی جاتی ہے۔ اس خطے میں داعش کے لئے افغانستان کی سر زمین سازگار بنائی جا رہی ہے اور افغانستان میں موجود عسکریت پسند وہ گروپ جو پاکستان کے خلاف ہیں۔ان کا ایک الائنس بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، اگلی جنگ کا خدشہ بھارت یا افغانستان سے نہیں بلکہ عالمی قوتوں کے لے پالک داعش سے ہے۔

سندھ کی سرزمین داعش کیلئے ایک آئیڈیل ہے ، جہاں ان کی خود ساختہ ریاست کیلئے فضا ساز گار بنائی جا چکی ہے ، بلوچستان اور بھارت کے بزدیک ہونے کے ناطے داعش کے لئے پاکستان میں کاروائیاں کرنا مشکل نہیں ہے ۔ اسی سانپ کے دیئے گئے بچے ، لشکر جھنگوی العالمی ، لشکر زنیبون ، کالعدم حزب اللہ ، فاطمییون بریگیڈ ، سپاہ محمد جیسی کالعدم جماعتیں ملک میں بیرونی ایجنڈوں پر کام کررہی ہیں ، “آپریشن رد الفساد” میں سرحدوں سے دہشت گردوں کی آمد کی روک تھام ہی ایک ایسا بنیادی نقطہ ہے ، جس پر تمام مشکلات کے بعد اگر ہم اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا لیتے ہیں تو یقینی طور پر بقایا15فیصد فساد بھی ختم ہو جائے گا ۔ فرقہ وارنہ خانہ جنگیوں میں تمام مکتبہ فکر کو ایک میز پر بیٹھا کر اجتماعی اتفاق رائے پر آئین سازی کی جا سکتی ہے۔ علما ء دین کومدارس کو اکابرین علما ء کے تعاون سے ان نام نہاد مدارس سے الگ کیا جاسکتا ہے جو فساد فی الارض کا موجب بن رہے ہیں ،”آپریشن رد الفساد” میں کسی خاص مسلک یا قوم کو نشانہ بنانے سے ملک دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد کو تکمیل پہنچے گی ۔ “آپریشن رد الفساد” میں عوام کا تعاون ضروری ہے ۔ اس کے لئے حالیہ بلدیاتی نظام میں منتخب ہونے والے ان نمائندوں کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے ، جو ابھی سیاست میں نو وارد ہیں اور وطن سے محبت کا جزبہ رکھتے ہیں ،پولیس کو غیر سیاسی کرنے کی اشد ترین ضرورت ہے کیونکہ ، انتہا پسندوں کو حساس موومنٹ کی اطلاعات کا واحد ذریعہ پولیس اور پولیس کا وائر لیس سسٹم ہے جو فرسودہ نظام کے تحت چل رہا ہے اور کسی بھی عملیات کی اطلاع انتہا پسندوں کو با آسانی مل جاتی ہے۔

سوشل میڈیا میں ان گنت ایست سہولت کار ہیں جو ان انتہا پسندوں سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اس کا بر ملا اظہار بھی کرتے ہیں ، جدید سائبر نظام کے تحت ان تک پہنچنا اب ناممکن نہیں رہا ۔ ٹیلی گرام واٹس ایپ سمیت ایسی سوشل میڈیا کی اپیلی کیشن ہیں جو عالمی سازشوں کے تحت گھر گھر استعمال ہو رہی ہیں ،اور انھیں قانون نافذکرنے والے حساس ادارے سرچ بھی نہیں کرسکتے ۔ “آپریشن رد الفساد” کی کامیابی کا تمام تر دارو مدار گذشتہ دس آپریشنز میں ہونے والی خامیوں کو سمجھ کر دشمن پر کاری وار کرنا ہے ۔ ہم بھارت ، افغانستان، ایران سے جنگ نہیں چاہتے ، لیکن پاکستان پر کسی بھی قسم کی آنچ آنے کی صورت میں پاکستان کا ایک ایک شہری ہر اول کا دستہ ثابت ہوگا ۔ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے ۔ عرب ممالک کو ایک منظم سازش کے تحت پاکستان سے دور کیا جارہا ہے ، جس کی مثال متحدہ امارات کی جانب سے بھارت کے ساتھ200ارب ڈالر کے معاہدے ہیں ،،چین ہمارا آزمایا ہوا قابل اعتماد دوست ہے جس نے حالیہ دور میں کئی مرتبہ ویٹو پاور کا استعمال کرکے پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کو نقصان پہنچایا ہے ۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسیوں میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ چین کو ہماری ضرورت ہمیشہ سے اسی طرح رہی جیسے ہمیں چین کی ۔ امریکہ کی طرح چین کو پاکستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی بنانے کے بجائے خود انحصاری کی جانب گامزن رہنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہو۔

خلیج ممالک سی پیک منصوبے کی کامیابی سے خوش نہیں ہیں ، ہمیں صرف ایران ، بھارت ، افغانستان کی سازشوں پر ہی نظر رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان عرب ریاستوں کے لئے خارجہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو مستقبل میں سی پیک منصوبے کے بعد تنہائی کا شکار ہو جائیں گی۔ پارلیمنٹ کو فوری طور پر فرقہ وارنہ مواد ، تقاریر سمیت مسلکی جذبات مشتعل کرنے کے خلاف توہین صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین اور آئمہ اکرام اور اہل بیت کے خلاف ہرزہ سرائی کے قوانین کو توہین رسالت ۖ کے قانون میں ضم کرنے کی ضرورت ہئے۔”آپریشن رد الفساد” کی کامیابی کیلئے اختلافات کو پس پشت رکھ کر اور تنقیدکی سیاست سے بالاتر ہوکر مثبت اقدامات کی ضرورت ہے ۔ کل کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا نخواستہ ہر شہری نے اپنی حفاظت کیلئے ہتھیار اٹھا لیا ہو اور فوج بھی کچھ نہ کرسکے۔

Qadir Khan

Qadir Khan

تحریر : قادر خان