را کی کاروائیاں اور پاکستان

Karachi Bus Firing

Karachi Bus Firing

تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
کراچی صفورہ گوٹھ پر اسماعیلی برادری کی بس پر سفاکانہ کاروائی کر کے ٤٤ خواتین، مرد اور بچوں کو شہید کر دیا گیا۔ سانحہ صفورہ پر پورے ملک میں سوگ منایا گیا۔ کراچی میں نظام زندگی معطل رہا۔ سرکاری اور نیم سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ سانحہ میں جان بحق افراد کی نماز جنازہ الاظہر گارڈن میں ادا کی گئی اور سخی حسن قبرستان میں تدفین ہوئی۔

پرنس کریم آغا خان صاحب نے کہا کہ پرامن کمیونٹی پر دہشت گر دحملہ نا قابل فہم ہے۔میری ہمدردیاں غم زدہ خاندانوں کے ساتھ ہیں حکومت اسماعیلی کمیونٹی کی سیکورٹی یقینی بنائے۔ آرمی چیف اور وزیر اعظم پاکستان نے اسماعیلی برادری کے پرنس کریم آغا خان کو فون کر کے تعزیت کی اور مجرموں کو کفیرکردار تک پہنچانے کا عزم کیا۔اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے مختلف آرائیں سامنے آئیں ہیں۔ سب سے پہلے اور فوراً الطاف حسین صاحب نے کہا یہ کام داش اور طالبان نے کیا ہے۔ نہ جانے اتنی جلدی اُنہیںخبر کیسے اور کس ذرائع سے معلوم ہوئی۔اخبار میں خبریں چھپیں کہ میمن اسپتال پہنچنے والے متحدہ رہنمائوں کے خلاف لواحقین نے احتجاج کیا۔رابطہ کمیٹی کے عارف خان صاحب میڈیا سے بات کرنے لگے تو لوگوں نے ڈرامے بازی بند کرو، جھوٹ بند کرو کے نعرے لگائے۔کنور نوید، سینیٹر عبدلحسیب صاحبان اور دیگر رہنمائوں کی آمد پر بھی احتجاج کیا گیا اور کہا اصل ڈرامہ یہی کرتے ہیں لواحقین کا مو قف۔ ایک ذرائع نے جلسے میں انکشاف کیا کہ اُس علاقعے سے ایم کیو ایم کو توقع سے کم ووٹ ملنے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

MQM

MQM

پی ٹی آئی کے ایک مقامی رہنما جو سردار خان صاحب کے ٹی وی ٢٤ شو پروگرام میں شریک تھے نے قسم اُٹھا کر کہا کہ ہمارے ایک اسماعیلی ووٹر نے ملاقات میں ایم کیو ایم کو بدعائیں دے دے کر شکایت کی۔شرجیل میمن صاحب وزیر اطلاعات حکومت سندھ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ کراچی کے ٹارگٹڈ آپریشن کو ناکام کرنے کی کوشش تھی۔ انہوں نے مزیدکہا مجرموں کو ہر حالت میں گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ واردات کے پاس داش کے پمفلٹ پھینکے گئے تھے جو تفتیش کا رخ بدلنے کی کوشش تھی۔ پاکستان چوک کی جس پرنٹنگ پریس میں یہ پمفلٹ چھاپے گئے تھے ۔ اس پرنٹنگ پریس کے دو افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے پاکستان چوک کی اس پرنٹنگ پریس میں امریکی خاتون کا لج کی پرنسپل پر حملے میں پھینکا جانیوالا پمفلٹ بھی اسی پریس میں چھاپا گیا تھا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار خان صاحب نے پریس کانفرنس میں داش کی پاکستان میںموجودگی کی نفی کی۔ سانحہ صفورہ میں مزید چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ایک ملزم کا خاکہ تیار کر لیا گیا ہے۔ سانحہ صفورہ پر آرمی چیف اپنا سری لنکا کا دورہ کینسل کر کے فوراً کراچی تشریف لائے تھے۔ بعد میںایپکس کمیٹی میں شرکت کی اورانہوں نے فورسز کے مشترکہ آپریشن کی منظوری بھی دی۔ نواز شریف صاحب بھی کراچی تشریف لائے ۔نواز شریف صاحب کی زیر صدارت گورنر ہائوس میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا تھا جس میں آرمی چیف نے بھی شرکت کی تھی۔

نواز شریف صاحب نے محکمہ داخلہ سندھ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کیا۔٤ماہ میں ٣ سیکرٹری داخلہ کیوں تبدیل کیے گئے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا۔کراچی آپریشن مزید تیز کرنے کا عزم کیا اور کہا کہ دہشت گردی کے واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ کراچی رینجرز کے چیف میجر جنرل بلال اکبر نے کہااسماعیلی برادری کو نشانہ بنانے کے پیچھے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں مختلف زاویوں سے تحقیق شروع کر دی ہے۔ نواز شریف صاحب نے کہا کہ کچھ اندرونی و بیرونی قوتیں پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتیں۔ آپریشن ضرب عضب ناکام نہیں ہو گا۔ ملک میں دہشت گردی ختم کر کے امن قائم کریں گے۔پا ک چین رہداری منصوبہ دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ کور کمانڈر لفٹینٹ جنرل نوید مختار صاحب نے ہفتہ کے روز ایک مقامی ہوٹل میں کراچی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی المناتی ایسوسی ایشن سندھ چیپٹر کے تحت امن،سیکورٹی اور گورنس کے موضوع پر سیمنار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا۔اس سیمنار میں پیپلز پارٹی کی شریں رحمان صاحبہ نے بھی شرکت کی۔ کور کمانڈر صاحب نے کہا کہ کراچی کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو عسکری ونگ اور جرائم پیشہ عناصر کاخاتمہ کرنا ہو گا۔ کورکمانڈر صاحب نے مزید کہا کہ کراچی میں سیاسی اور انتظامی نا اہلی نے مسائل میں اضافہ کیا۔پولیس کو غیر سیاسی کرنا ہو گا۔

Terrorism

Terrorism

شہر میں منشیات فروشوں سے لے کر القاعدہ نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔آپریشن بلا تفریق اور منطقی انجام تک جاری رہے گا۔ ہر قسم کی دہشت گردی، سہولت کاروں، متوازی حکومتوں اور طاقت کے مراکز کاخاتمہ ناگریز ہے۔ انتظامیہ کو آذاد ہونے کی ضرورت ہے۔دہشت گردوں ،ٹارگٹ کلرز، بھتاخوروں، اغواہ کاروں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف لڑ رہے ہیں۔یہ سب تجزیے اخبارات میں آ چکے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ را کی کاروائی ہے۔ کس پاکستانی کو معلوم نہیں کہ پاکستان کو کون ڈسٹرب کر رہا ہے۔ کس کا یہ مشن ہے ۔کون اس کام کے لیے اعلانیہ فنڈ مختص کر رہا ہے۔ کس نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ را کے ٹرینگ قائم کیے ہوئے ہیں۔ کس نے پاکستان کو دولخت کیا تھا۔ پاکستان میں کس کس سے را کے رابطے ہیں وغیرہ۔

صاحبو! پاکستان میں یہ سب چیزیں روزروشن کی طرح عیاں ہیں جو کسی اور طرف اشارے کرتی ہیں۔ مثلاً مرحوم جی ایم سید صاحب کا کہنا کہ جو کام میں ٤٠ سال میںبھی نہیں کر سکا وہ الطاف حسین صاحب نے ٤٠ دن میں کر دیا اور سب پاکستانیوں کو پتا ہے کہ جی ایم سید صاحب کا مشن پاکستان توڑنا تھا۔ جب عامر خان اورآفاق احمد صاحبان ایم کیو ایم سے علیحدہ ہوئے تھے تو کراچی شہر کی سڑکوں پر انہوں نے بینرز لگائے تھے الطاف حسین را کا ایجنٹ ہے۔ گھر کے بیدی سے بڑی گواہی کس کی ہو سکتی ہے۔ شہیدصلاح الدین صاحب کے پرانے تکبیر رسالے میں را سے ٹرینگ لینے کی کہانیاں اب بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔

رائو انوار صاحب نے جو پریس کانفرنس کی ہے اور جی آئی ٹی کی رپورٹ تو ابھی ابھی سامنے آئی کہ فلاں فلاںنے را سے ٹرینگ لی ہے فلاں فلاں ان کو بھیجنے والے ہیں اور فلاں وہاں پر موجود ہے۔ ذوالفقار مرز صاحب نے قرآن سر پر رکھ کر کہا تھا کہ الطاف حسین صاحب نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان توڑنا چاہتا ہے اور میں امریکہ کی مدد کروں گا۔ان چیزوں کے بعد ہمارے سیکورٹی اداروں کو کس قسم کے شواہد چاہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ ان شواہد کو سامنے رکھ کر تقیقات کرنی چاہیں اور قانون کے مطابق کاروائی کر کے اس مسئلے کا ہمیشہ کے لیے علاج کرنا چاہیے تاکہ ملک کی طر ف برُی نظریں رکھنے والوں کو انجام تک پہنچایا جا سکے۔ اللہ ہمارے مثل مدینہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان (سی سی پی)