آپریشن ضرب القلم

Dream

Dream

تحریر : عثمان غنی
لکھنا دراصل اپنے آپ سے ہمکلام ہونے کا نام ہے خواب سے لیکر تعبیر تک کا سفر، احساسات ، محسوسات ، جذبات ، مشاہدات ، الغرض تجربات کو خون دل سے کشید کے بعد، الفاظ کو نوک قلم سے نازک سی ایک چیز کاغذ پر اتارنا ،لکھنا کہلاتا ہے ۔ الفاظ ہمکلام ہونے کی صلاحیت سے پوری طرح مالامال ہوتے ہیں۔ اچھے وقتوں کے ساتھی ،مشکلات میں امید کی ڈھارس بندھانا ، گھپ اندھیرے میںجنگنو بن کر سفر کو وسیلہ ظفر بنانا ، دل و دماغ کو تروتازگی و راحت عطا کرنا ، الفاظ دو اسے زیادہ طاقتور ہوا کرتے ہیں ۔سچے الفاظ ، موتیوں کی طرح نکھرے ہوئے الفاظ ، ادب کی پرورش دل کی ”آباد” زمینوں پر ہوا کرتی ہے ۔ بقول ایس ایس بٹلر(History Of Art, is The History of, Revivals) شاعر نے چیخ کر کہا تھا میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے جب حالات انگریزی والے Equilibriumسے اوپر نیچے ہو جائیں تو اکثر و بیشتر مرہم پٹی بھی ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے ۔ مریض بیچارہ مگر درد کی شدت سے سٹپٹا رہا ہوتا ہے ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ” والا مصرعہ یاد آتا ہے۔

ان حالات میں اس درپیش مرض کو Operateکرنا انتہائی اہم ہوتا ہے ہاں مگر بروقت !ایسے ہی ہمارے ملک میں فساد ، دہشت گردی ، بدامنی کو جہنم واثق کرنے کیلئے آپریشن ”رد الفساد” شروع کیا گیا ہے ، جس کا Objectiveمگر یہ ہے کہ ملک کے کونے کونے ، نگری نگری سے ان تمام ناپاک سوغاتوں کا خاتمہ کیاجائے۔ آپریشن ”رد الفساد” کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے فورسز دن رات سرگرم عمل ہیں اور انہیں پاکستانی عوام کی Moralسپورٹ بھی یقینا پوری طرح حاصل ہے ۔ اسی طرح ادبی کونسل آزادکشمیر نے اپنے حصے کی شمع جلاتے ہوئے ”آپریشن ضرب القلم” شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آپریشن ضرب القلم کی کشمیر سے ابتداء ، کشمیریوںکے پاکستان کے بلاتنخواہ سپاہی ہونے کا Litmusٹیسٹ ہے ، کشمیریوںنے ہمیشہ سچے اور پکے پاکستانی ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے ، مگر پاکستان کی شہ رگ ، کشمیر پر ہندوستان کا جابرانہ قبضہ ہے جو زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گااور آزادی کی روشن صبح کشمیریوں کا ضرور مقدر بنے گی۔

آپریشن ضرب القلم کی ابتداء چاروں جانب سے بلندو بالا پہاڑوں میں گھرے ہوئے آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے ہوئی ہے ، آزادکشمیر یونیورسٹی مظفرآباد جو شہر کے عین وسط میں مواقع ہے ، میں پہلی قومی کشمیر ادبی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا ، جس میں صدر ادبی کونسل بلال ہاشمی ، چیئرمین دانشور اکرم سہیل صاحب ، نظامت کے فرائض بطریق احسن نبھانے والے جناب علامہ شاکر یوتھ کے روح رواں خواجہ ذوالقرنین سمیت تمام اضلاع سے آنے والے منتظمین انتہائی متحرک تھے ۔ پرنسپل گورنمنٹ کالج میرپور پروفیسر صغیر آسی نے مظفرآباد چلنے کو کہا تو ناں کرنے کا کوئی جواز نہ تھا ، سوچل دئیے ،سپاس نامہ اکرم سہیل صاحب نے پیش کیا ۔ جس کا ایک لفظ انتہائی چونکا دینے والا تھا ، افتاد گان خاک ۔۔۔۔۔ادب افتادگان خاک کا ورثہ ہے اور اسے فائیو سٹارہوٹلوں اور دیدہ زیب کمروں سے باہر کر لاکر عوام تک منتقل کرنے کا وقت آگیا اور کشمیری اس کی خشت اول ثابت ہونگے ،کسی دور میں ادب افتادگان خاک کی پہچان ہوا کرتا تھا جیسا کہ جالب نے زنجیر پہن کر رقص کرنے کو ترجیح دی ، فیض نے ادب کے فروغ کیلئے خون دل میں انگلیاں ڈبونا ضرور ی سمجھا، منیر نیازی نے عمر بھر کے سفر کو رائیگاں کرنے میں قطعاً کوئی تاخیر نہ کی اقبال نے سب نقش نا تمام قرار دے دئیے خون دل کے بغیر وغیرہ وغیرہ۔

Writing

Writing

حسن کی طرح ، قلم کی طاقت ، کسی کی میراث نہیں ہوا کرتی وہ ذات جسے چاہے یہ طاقت عطا کر دے ، اسکے لئے اہم مگر مناسب Plateformکی موجودگی ہوتی ہے جو کئی آبلہ پاوئوں کو نصیب نہیں ہو پاتا ، بزم کی رونق آکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو کی موجودگی تھی ، جنہوںنے ادب کے فروغ کیلئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ادبیوں اور شعراء کیلئے ایوارڈ ، مالی امداد اور کتابوں کی رہنمائی سمیت مظفرآباد میں بھی اکیڈمی ادیبات کا دفتر کھولنے کی یقین دھانی کرائی ۔اس سے پہلے لاہور ، کراچی ، کوئٹہ اور پشاور میں اکیڈمی ادبیات کے دفاتر موجود ہیں ۔ تقریب کے پہلے حصے میں اکرم سہیل کی کتاب ”نئے اجالے ہیںخوب میرے ”اور چوہدری رفیق کی کتاب ”جہاںحیرت ”کی تقریب رونمائی بھی کی گئی جب کے دوسرے حصے میں محفل مشاعرہ میں شعراء کرام نے تازہ کلام پیش کر کے خوب داد سمیٹی جس میں ناز مظفرآبادی کا یہ قطعہ دیکھئے
التجاکی ہے ، جستجو کی ہے
تیرے ملنے کی آرزو کی ہے
لوگ کہتے ہیں شاعری اسکو
میں نے جو ، گم سے گفتگو کی ہے
ایسے ہی ملتے جلتے اشعار جان ایلیا کے بھی ہیں ، پتہ نہیں یہ ”تصور” کس کے ذہن میں پہلے آیا
میں نے ہر وقت تجھے سے ملتے وقت
تجھے سے ملنے کی آرزو کی ہے
تیرے جانے کے بعد میں نے
تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے

چیئرمین شب کی آسامی کیلئے قاسم بھگیو صاحب باقاعدہ طور پر Advertisementکے بعد چیئرمین بنے ہیں اور یہ Advertisement، آکادمی ادبیات کی تاریخ میںپہلی دفعہ ہوئی ہے ، میرٹ پر ہونے والے کام حکومتوں کی نیک نامی کا سبب بنتے ہیں ، آپریشن ضرب القلم دہشت گردی ، بدامنی ، کینہ فساداور جہالت کے خاتمے کیلئے امید کی ایک کرن ہے ، جس سے علم و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ بھائی چارہ ، ہم آہنگی اور دوسری اخلاقی قدروں کی کونپلیں نشوونما پائیں گی ۔جو قومیں ادب کے فروغ کو پروان چڑھاتی ہیں اس معاشرے میں بے ادبی اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔

ادبی کونسل کے ارباب اختیار کو چاہیے کہ اخبارات کے چیف ایڈیٹرز صاحبان کے ساتھ بھی نوجوان چہروں کو متعارف کروائیں تاکہ عملی طورپر وہ بطور کالم نگار ، قوم کی فکری و اصلاحی بھاگ دوڑ سنبھال سکیں اس کے علاوہ سکولوں ، کالجز ، یونیورسٹیز میں بھی ادبی شعور کو روشناس کروانے کی اشد ضرورت ہے ، رات کو جب کمرے میں پہنچے تو آدھی رات گزر چکی تھی اور چاند یکساں آر پار کے کشمیر کو روشن کر رہا تھا ، 192کلومیٹر دور سرینگر سے آنے والی یخ بستہ ہوائیں اور ہمت و حوصلہ سے لبریز صدائیں ، براہ راست دلوں کے تار چھیڑ رہی تھیں ۔ شائد اسی وجہ سے آسی صاحب رات بھر کروٹیں بدلتے رہے تھے۔

Usman Ghani

Usman Ghani

تحریر : عثمان غنی