آرگن ٹرانسپلانٹیشن

Transplantation

Transplantation

تحریر: صائمہ حسیب
گذشتہ ہفتے میری ایک کزن جو ایک این جی او میں سوشل ورکر کے طور پر کام کرتی ہے نے بتایا کہ اُس کے ایک جاننے والے کے گردے مکمل طور پر فیل ہوچکے ہیں۔ اس لئے Oپازیٹوبلڈ گروپ کا حامل کوئی شخص اگر اپنی گردہ فروخت کرنا چاہے تو مجھے مطلع کرنا۔ معاملے کی سنگینی اور انسانی ہمدردی کے تحت مجھے انسانی اعضاء کی ٹرانسپلانٹیشن پر تحقیق کرنا پڑی۔ پاکستان میں (PNHOTA) پاکستان نیشنل ہیومن آرگنز ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی نے انسانی اعضاء کی تبدیلی کیلئے منظم اصول وضع کئے ہیں۔ دور ِ حاضر مین میڈیکل سائنس کی ترقی نے جہاں انسانیت کو فوائد پہنچائے ہیں وہاں اس کے منفی اثرات نے معاشرے میں بہت سی برائیوں کو جنم دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسانی اعضاء کی ٹرانسپلانٹیشن ہر سال ہزاروں لوگوں کو نئی زندگی بخشتی ہے۔ ہر سال یورپ امریکہ اور آسٹریلیا سے کافی تعداد میں مریض غریب ملکوں بشمول پاکستان، بنگلہ دیش، انڈیا، فلپائن اور چائنہ تک کا سفر کرتے ہیں۔ تاکہ اپنے گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کرواسکیں۔ چائنہ میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کیلئے گردے زیادہ تو سزائے موت کے قیدیوں سے لئے جاتے ہیں۔ آرگن ڈونیشن کیلئے ملک میں قانوں موجود ہے ۔

جولائی 2007 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کو پابند کیا کہ انسانی اعضاء کی منتقلی سے متعلق قانون وضع کیا جائے۔ جب میڈیا نے اس بات کو اچھالا کہ لاہور کے کم از کم دس بڑے ہسپتال اس کالے دھندے میں ملوث ہیں۔ اور انسانی اعضاء کی بلیک مارکیٹنگ بڑی خوش اسلوبی سے کررہے ہیں۔ اس کے بعد پاکستان کی حکومت نے ٹرانسپلانٹیشن آف ہیومن آرگن اینڈ ٹشوز بل 2007نیشنل اسمبلیوں سے پاس کیا۔ اس بل کے مطابق کسی بھی قسم کی اعضاء کی ڈونیشن یہاں تک کے خون کی ڈونیشن بھی اٹھارہ سال سے کم عمر انسان نہیں دے سکتا۔ اس قانون کے مطابق میڈیکل ایکسپریس کی کمیٹی کی رائے کے مطابق ہی کوئی ٹرانسپلانٹیشن کی جائے گی۔ اس قانون کو توڑنے والے کو دس سال جیل کی سزا کا نفاذ تھا۔ مومن پورہ وسطی پنجاب کا ایک گائوں ہے۔ جہاں کی آبادی میں بچے بوڑھے اور بیماروں کے علاوہ 80فیصد لوگ اپنے ایک ایک گردہ فروخت کرچکے ہیں۔ ہیلتھ ریسچرچ نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں بہت سے غریب لوگوں نے کسی ضرورت کی خاطر یا پھر کچھ کش ہسیہ کی خاطر اپنے اعضاء تک فروخت کررہے ہیں۔

Kidney Sales

Kidney Sales

یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اور فی الھال اربابِ اختیار اس مسئلہ کی سنگینی سے ناواقف ہیں۔ WHO کے مطابق تقریباً دس ہزار لوگ سالانہ ناجائز طور پر انسانی اعضاء کی ٹرانسپلائٹ کیلئے اعضاء خریدتے ہیں ۔ اور بیچنے والے عموماً ضرورت مند غریب یا پھر اغواء شدگان ہوتے ہیں۔یہ ایک منظم طریقے سے ہورہا ہے۔ جن میں اعضاء میں 75 فیصد صرف گردے ہوتے ہیں۔ ایشیاء میں پاکستان ، چائنہ ، بنگلہ دیش اور انڈیا میں یہ شرع زیادہ ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسے زیادہ تر کیس پنجاب سے رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس مکروہ عمل میں بچوں کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ PNHOTAاتھارٹی نے کہا ہے کہ زیادہ تر یہ ناجائز کڈنی ٹرانسپلانٹ کے سنٹر پنجاب میں ہیں۔ اگرچہ دوسرے شہر بھی اس سے بچے ہوئے نہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ملک میں گردے بیچنے والوں کی تعداد خریداروں سے کئی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وسطی ایشیاء اور دیگر کئی ممالک کے ضرورت مند لوگ اس قسم کے اعضاء کی خریداری کیلئے پاکستان اور خصوصاً پنجاب کا رخ کرتے ہیں۔

ماہرین نے شدت سے اس بات پہ زور دیا ہے کہ بنیادی وجہ غربت اور بے روزگاری ہے۔ بنیادی ضرورت کی کمی اور بھوک و افلاس سے تنگ آکر بہت سے لوگ یہ سنگین قدم اُٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے ایک آسان ہدف ہیں اور وہ برضا ان ناجائز منافع خوروں کا شکار بن جاتے ہیں۔ اگرچہ اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہین لیکن سب سے بڑی وجہ غربت ہی ہے۔افسوس اس مکروہ عمل میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو بظاہر مسیحا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ میڈیکل پیشے سے وابستہ افراد ہی یہ مکروہ دھندا چلا رہے ہیں۔ کیونکہ باقاعدہ طور پر ٹرانسپلانٹ کی تعلیم حاصل کئے بغیر اس قسم کے آپریشن ناممکن ہیں۔

Pakistan

Pakistan

اگرچہ پاکستان میں آرگن ٹرانسپلانٹیشن کے متعلق قانون موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہیلتھ ریسرچ کے مطابق اعضاء کی خرید و فروخت میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ ماہر صحت اور سول سوسائٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو قانون کے نفاذ کے سلسلے میں سختی سے کام لینا چاہیے۔ اس قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے اب قانون ساز ادارے سرگرم ہوگئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے تمام صوبوں کو ہدایا ت دی ہین کہ تمام ذمہ داران کے خلاف چارہ جوئی کی جائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو مستقبل ِ قریب میں وطن عزیز میں پیدا ہونے والے صحت کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ حکومت اور سول سوسائٹی کو عوام میں آگہی بیدار کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

تحریر: صائمہ حسیب