اویس مظفر کے بارے میں ڈاکٹر عاصم کا بیان

Dr Asim Hussain

Dr Asim Hussain

تحریر : محمد اشفاق راجا
سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم نے کچھ نئے انکشافات کرکے ایک ایسا پنڈورا باکس کھول دیا ہے جس سے نکلنے والے سانپ اور کچھوے اب شاید مزید پھیل جائیں۔ ان کا تازہ ہدف اویس مظفر عرف ٹپی بنے ہیں، جو سابق صدر آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی ہیں۔ ان کا یہ کہنا تو خیر سندھ کے حوالے سے کوئی نئی بات نہیں کہ وہ وزیراعلی نہ ہوتے ہوئے بھی وزیراعلیٰ کے اختیارات استعمال کرتے رہے ہیں۔ سندھ میں جب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت آئی یہ شکایت سنی گئی، سید قائم علی شاہ اب مسلسل 8 سال سے سندھ کے وزیراعلیٰ ہیں، لیکن وہ اتنی مرنجاں مرنج شخصیت ہیں کہ انہیں یہ شکایت کبھی نہیں رہی کہ کوئی ان کے اختیارات استعمال کر رہا ہے۔

اس لئے ان کی حکومت میں اگرکوئی پارٹی یا پارٹی قیادت سے قریبی تعلق کی بنا پر سرکاری محکموں میں رکے ہوئے کچھ کام کرالیتا ہے یا اس کے کہنے پر کسی کو ملازم رکھ لیا جاتا ہے یا کوئی ایسی سہولت دے دی جاتی ہے جو عام طور پر لوگوں کو مفت نہیں ملتی اور سرکاری افسر یہ جان کر کہ وہ حکمران جماعت کی قیادت سے قریبی تعلق رکھتا ہے اس کے کام کردیتا ہے تو اسے ”وزیراعلیٰ کے اختیارات” تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن ڈاکٹر عاصم نے یہی بات کی ہے۔ ان پر کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم نیب کی تحویل میں ہیں اور خود ان کے خلاف کرپشن کے مختلف الزامات کے تحت مقدمات زیر سماعت ہیں۔

اس لئے کہنے والے تو یہ بھی کہیں گے کہ انہوں نے یہ تازہ ویڈیو بیان دباؤ کے تحت دیا ہے لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مشکل ایام نے ڈاکٹر عاصم کی ہمت کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور وہ ایسے انکشافات پر تل گئے ہیں جس سے انہیں کوئی فائدہ ہو نہ ہو، جن لوگوں کا نام لے کر ان پر الزام لگائے جا رہے ہیں ان کی شہرت ضرور خراب ہوگی۔ ویسے جہاں تک اویس مظفر کا تعلق ہے ان کے بارے میں کراچی اور سندھ کے لوگوں کا جو عمومی تاثر ہے ڈاکٹر عاصم کے تازہ بیان کے انکشاف اگرچہ اس تاثر کو گہرا کرتے ہیں لیکن وہ کوئی ایسے انکشافات بہرحال نہیں ہیں جنہیں سن کر لوگ چونک گئے ہوں یا سکتے میں آگئے ہوں۔ چونکا تو اس انکشاف پر جاتا ہے جو پہلی دفعہ سامنے آیا ہو، جو بات پہلے ہی زبان زدعام رہی ہے وہ غلط یا صحیح دونوں صورتوں میں چونکا دینے والی نہیں ہوتی۔

Owais Muzaffar

Owais Muzaffar

البتہ اتنا ضرور ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے انکشاف کو اویس مظفر کے بارے میں ایک محرم راز کی گواہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں اس انکشاف کی ضرورت کیوں پیش آگئی تھی اور اس کی پہل قدمی کس جانب سے ہوئی، اگر تو دوران تفتیش اس کی ضرورت محسوس کی گئی تو کیا انہوں نے یہ انکشاف رضاکارانہ طور پر کئے یا کسی دباؤ کے نتیجے میں، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے بعض حلقوں سے ناراض ہیں وہ غالباً یہ سمجھتے ہیں کہ ایک صوبے کی حکمران ہونے کی حیثیت میں پیپلز پارٹی نے ان کی وہ مدد نہیں کی جو وہ کرسکتی تھی یا اسے کرنی چاہئے تھی۔ وہ وفاقی وزیر رہے تھے اور پارٹی چیئرمین سے ان کے گہرے دوستانہ مراسم تھے، جس کا اعتراف خود آصف علی زرداری کرتے رہے ہیں اس لئے ڈاکٹر عاصم کو کوئی گلہ تھا تو اتنا بے جا نہ تھا۔

انہوں نے اگر یہ تصور قائم کرلیا تھا کہ سندھ میں پارٹی کی حکومت کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا تو ان کی توقع بہرحال پوری نہیں ہوسکی اور غالباً انہیں قلق بھی یہی ہوگا کہ وہ برے وقت میں جن لوگوں کی خدمت کرتے رہے ہیں وہ ان کے مشکل وقت میں ان کی کوئی مدد نہیں کررہے۔ اگر انہیں یہ شکوہ ہے تو اس میں وہ کوئی زیادہ حق بجانب نہیں کیونکہ ان کی مدد کیلئے تو آصف علی زرداری کافی دور تک گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سمیت پارٹی کے بعض دوسرے رہنماؤں نے بھی ان کے معاملے کو ہر اس جگہ اٹھایا ہے جہاں اٹھانا ممکن تھا تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ اس معاملے میں پیپلز پارٹی کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہوسکیں عدالتوں کے اندر بھی ان کے بارے میں ایسے بیانات داخل کرائے گئے جن سے انہیں قانونی فائدہ پہنچ سکتا تھا لیکن ایسے بیانات بھی ان کے کسی کام نہیں آئے اس لئے انہوں نے پریشانی کی حالت میں بزعم خویش ایسا انکشاف کردیا ہے جس سے اضطراب کی لہریں دور تک پھیل سکتی ہیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے یا یہ کوشش بھی مقاصد کے حصول میں رائیگاں جائے گی۔

Politics

Politics

ڈاکٹر عاصم کے بیان سے یہ تو ضرور محسوس ہوتا ہے کہ دوران حراست انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جن کی وہ توقع بھی نہیں کر رہے تھے یہ بیان ان مشکلات کے زیر اثر ہی دیا گیا ہے۔ بیان اگر دباؤ کے تحت بھی دیا گیا ہے تو بھی اس کی وجہ قید کی وہ کیفیات ہیں جن سے وہ گزر رہے ہیں اور جن کا انہیں پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ایک تو وہ ڈاکٹر ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں وہ کئی ہسپتال کامیابی سے چلا رہے تھے، خوشحال زندگی گزار رہے تھے، عملی سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا، نہ انہوں نے باقاعدہ کوئی سیاست کبھی کی تھی۔

وہ تو سیاست میں سیدھے حکومت میں شامل ہوگئے اور آصف زرداری کی مہربانی سے سرکاری منصب پر فائز ہوگئے۔ سیاست میں انہوں نے چند روز پہلے گزارے ہوتے تو انہیں سیاستدانوں کی مشکلات کا تھوڑا بہت اندازہ ہوتا۔

انہوں نے غالباً یہ سمجھا تھا کہ سرکاری منصب پر فائز ہونا ہی سیاست کی معراج ہے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس میدان میں دوچار بہت سخت مقام بھی آتے ہیں اس لئے اگر سرکاری عہدوں سے ہٹ کر انہیں اب مشکلات کا سامنا ہے تو یہ سیاست کا دوسرا رخ ہے جو انہیں دیکھنا پڑ رہا ہے۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا