پاکستان : افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

Afghan Refugees

Afghan Refugees

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کے لیے پاکستان کی سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے۔

یہ درخواست انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم ایک وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔

انھوں نے اپنی درخواست میں میڈیا رپورٹس کا حوالے دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ افغان مہاجرین کو افغانستان واپسی کے لیے دباؤ کا سامنا ہے جب کہ انھیں صوبہ خبیر پختونخواہ اور صوبہ پنجاب میں مبینہ طور پر ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔

ذوالفقار بھٹہ نے کہا کہ یہ اقدامات قومی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

انھوں نے اپنی درخواست میں یہ موقف بھی اختیار کیا کہ ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین اس صورت حال کی وجہ سے ایک ایسے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہیں جہاں وہ تین دہائیوں سے زائد عرصے نا صرف مقیم ہیں بلکہ اپنا کاروبار بھی کر رہے ہیں۔

ذوالفقار احمد بھٹہ نے کہا کہ انھوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ افغان مہاجرین کو مناسب مہلت دی جائے تاکہ وہ پاکستان میں اپنا کاروبار سمیٹ سکیں۔

’’ایسے افراد جنہوں نے کاروبار میں دو کروڑ سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہوئی ہے ان کے قیام میں مزید پانچ سال کی توسیع کی جائے، اسی طریقے سے جن لوگوں نے پاکستان میں جائیداد خریدی ہوئی ہے اور اس کی مالیت ایک کروڑ ہے ان کو کم از کم دو سال کا وقت دیا جائے اور جو عام مہاجرین ہیں ان کے قیام کی مدت میں دسمبر 2017ء تک توسیع دی جائے تاکہ یہ لوگ آسانی سے واپس جا سکیں۔‘‘

پاکستان حکومت نے ملک میں قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں رواں سال مزید چھ ماہ کی توسیع کر کے اس مدت کو 31 دسمبر 2016ء تک بڑھا دیا تھا۔

گزشتہ ماہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے عمائدین نے پاکستان میں اپنے کاروبار کو سمیٹنے کے حوالے سے مشکلات کے پیش نظر حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے پاکستان میں قیام کی مدت میں مناسب توسیع کی جائے۔

پاکستان کے سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند نے کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر افغان مہاجرین پرامن طریقے سے رہ رہے ہیں اور اُن کے بقول افغانستان میں ایسے حالات نہیں کہ یہ فوری طور اپنے ملک واپس جا سکیں۔

’’یہاں یہ پرامن طریقہ سے رہ رہے اور کسی بھی نوعیت کے منظم جرائم میں ملوث نہیں ہیں اور اپنی روزی خود کما رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ٹرانسپورٹ اور تعمیراتی شعبہ میں ان کا اہم کردار ہے۔‘‘

رواں ہفتے ہی پاکستان کی ایک سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ افغان مہاجرین کو زبردستی ان کے ملک واپس بھیجنا کسی طور مناسب اقدام نہیں ہے۔ انھوں نے حکام پر زور دیا کہ ان کی باعزت واپسی کو یقینی بنایا جائے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا چلا آ رہا ہے اور ایک غریب ملک ہونے کے ناطے سے یہ اس کی معیشت کے لیے بھی دباؤ کا باعث رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں افغانستان واپس جانے والے مہاجرین کی تعداد میں قابل ذکر حد تک اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں اندراج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً پندرہ لاکھ ہے اور اتنی ہی تعداد غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی ہے۔