پاکستان زراعت، جائیداد اور خدمات سے ٹیکس وصولیاں بڑھائے، آئی ایم ایف جائزہ رپورٹ

IMF

IMF

کراچی (جیوڈیسک) بینک کے بعد آئی ایم ایف نے بھی کارپوریٹ ٹیکس کی شرح میں کمی، ٹیکس چھوٹ اور مراعات محدود کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

پاکستانی معیشت کی دسمبر جائزہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے ٹیکس نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 22.3 فیصد تک بڑھانے کے لیے موثر اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق ٹیکس وصولیوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجوہ میں ٹیکس گزاروں کی محدود تعداد، بے دریغ ٹیکس مراعات و چھوٹ، ریونیو ایڈمنسٹریشن کی خامیاں، غیردستاویزی معیشت اور آمدن کو کم ظاہر کرکے ٹیکس ادائیگی کا رجحان شامل ہیں۔

معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے کیلیے ٹیکس وصولیاں بڑھانے کی کوششیں بھی تیز کرنا ہوں گی، اگرچہ 3 سال کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 3 فیصد اضافے سے 2015 تک 11 فیصد کی سطح پر آچکا ہے تاہم یہ اب بھی 1996 کے مقابلے میں 1.4 فیصدکم اور ٹیکس وصولیاں جی ڈی پی کے 22.3 فیصد تک بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں صوبائی حکومتیں زراعت، خدمات اور پراپرٹی ٹیکس وصولی کی ذمے دار ہیں جن کا معاشی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ ہے تاہم صوبوں کے پاس ٹیکس جمع کرنے کی انتظامی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت فسکل خسارے پر قابو پاکر ترجیحی مقاصد پر وسائل خرچ کرتے ہوئے 2020 تک ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب 14.5 فیصد تک بڑھانے کا عزم رکھتی ہے، پاکستان پر واجب پبلک قرضوں کا حجم ٹیکس ریونیو سے 600 فیصد زیادہ ہے جس کی وجہ سے حکومت ترقیاتی منصوبوں سے کہیں زیادہ رقم سود کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کو بھی ٹیکس نظام کی فعالیت پر اثر انداز ہونے والا عنصر قرار دیا اور کہا کہ انفرادی ٹیکس گزاروں کی تعداد 2000 میں 7 لاکھ 52 ہزار 695 تھی جو 2014 تک بڑھ کر 36لاکھ تک پہنچ چکی ہے تاہم یہ ملازمت پیشہ افراد کی مجموعی تعداد 5کروڑ 65لاکھ کے مقابلے میں بہت کم ہے، دوسری جانب فعال انفرادی ٹیکس گزاروں کی تعداد 9لاکھ 82 ہزار 525 ہے جبکہ سرکاری رپورٹ کے مطابق 57لاکھ افراد قابل ٹیکس آمدن کی حد میں آتے ہیں۔

اسی طرح کارپوریٹ ٹیکس گزاروں کی رجسٹرڈ تعداد 60 ہزار مگر گوشوارے صرف 25 ہزار 551 جمع کراتے ہیں، بجلی کے کمرشل اور صنعتی صارفین کی صرف 0.8 فیصد تعداد ریٹرن جمع کرا رہی ہے جبکہ 14 لاکھ ریٹیلرز میں سے صرف 1 لاکھ 78 ہزار 190 جنرل سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، ان عوامل کی بنا پر پاکستان کا بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار بڑھ رہاہے۔

رپورٹ کے مطابق ٹیکس ٹوجی ڈی پی ریشو بڑھانے کیلیے موجودہ ٹیکس گزاروں پر دباؤ بڑھانا طبقات میں عدم توازن کومزید بگاڑنے ، ٹیکس ادائیگی کے رجحان میں کمی اور آخر کار معاشی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کا سبب بنے گا۔ رپورٹ کے مطابق صوبے زرعی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلیے دلچسپی نہیں رکھتے، مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 25 فیصد ہونے کے باوجود مجموعی محصولات میں تناسب 0.1 فیصد ہے، وقت گزرنے کے ساتھ مجموعی اور صوبائی ٹیکسوں میں زرعی ٹیکسوںکا حجم مزید کم ہو رہا ہے۔

آئی ایم ایف نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں بڑے جاگیردار چھوٹے کاشت کاروں کو دی جانیوالی سہولت کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے زور دیا کہ زرعی اراضی کی پیداوار اور فصلوں کے ٹرن اوور کے اوسط کی بنیاد پر پریزمپٹیو (تخمینہ جاتی) ٹیکس عائد کیا جائے اور کم آمدن زراعت پیشہ گھرانوں کو سہولت دینے کیلیے معقول شرح مقرر کی جائے۔

پاکستان میں زرعی آمدن کے بجائے زرعی زمین پرٹیکس عائد ہے، 12.5 ایکڑ سے کم زمین کو ٹیکس چھوٹ حاصل ہے جبکہ 25 ایکڑ تک زمین پر 100 روپے، 26 تا 50 ایکڑ پر 250 اور 50 ایکڑ سے زائد زمین پرلازمی ریٹرن فائلنگ کے ساتھ 300 روپے فی ایکٹرٹیکس عائد ہے تاہم 90 فیصدزرعی زمین کے مالکان خود کو 12.5 ایکڑ زمین کے زمرے میں شمار کرتے ہیں جس سے زرعی آمدن کا بڑا حصہ ٹیکس ادا نہیں کرتا، صوبائی سطح پر پراپرٹی اور خدمات پر ٹیکس کا بھی یہی حال ہے، صوبوں میں جمع کردہ پراپرٹی ٹیکس جی ڈی پی کے 0.04 جبکہ خدمات پر جمع ہونے والا ٹیکس جی ڈی پی کا محض 0.6 فیصد ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیکسوں کی چھوٹ اور مراعات ٹیکس کلچر کیلیے تباہ کن نتائج کا سبب ہیں اور اس مد میں 2014 تک وسائل کا ضیاع جی ڈی پی کا 2فیصد یا مجموعی ٹیکس وصولیوں کا20فیصد ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی سفارشات میں کہا کہ پاکستان مربوط و جامع منصوبہ بندی کے تحت ٹیکس اصلاحات کے ذریعے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو دگنا کرسکتا ہے۔

اس کیلیے ٹیکس نظام کی کارکردگی بہتر، ٹیکس گزاروں میں اضافہ، قوانین پر عمل درآمد یقینی، ٹیکس مراعات و چھوٹ کا خاتمہ اور قابل ٹیکس آمدن کی حد و ٹیکسوں کی شرح میں کمی لانا ہو گی۔ آئی ایم ایف نے پراپرٹی کی حقیقی مالیت کے لحاظ سے ٹیکس وصولی کیلیے مرکزی ویلیوایشن ایجنسی کے قیام، فنانشل ایسیٹ پر کیپٹل گین ٹیکس کی شرح یکساں، ریئل اسٹیٹ کیلیے سی جی ٹی چھوٹ ختم، کارپوریٹ انکم ٹیکس نظام آسان و ریٹ کم کرنے پر زور دیا ہے۔