پاکستان چین اور روس پر مشتمل طاقت امریکہ بھارت کا توڑ ہے

China Pakistan and Russia

China Pakistan and Russia

تحریر : محمد اشفاق راجا
امریکی صدر باراک اوبامہ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات میں اس امر پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر دونوں ملک ایک دوسرے کا فوجی نظام بھی استعمال کر سکیں گے۔ اس سلسلہ میں معاہدے کی دستاویز پر جلد دستخط ہو جائینگے جس کے بعد امریکہ بھارت کے فوجی اڈے اور سمندری و فضائی حدود بھی استعمال کر سکے گا۔ دفاعی ماہرین کے مطابق ایک دوسرے کے فوجی اور دفاعی نظام کے استعمال کے معاہدے کی صورت میں امریکہ کی خطے میں مداخلت میں اضافہ ہوگا جبکہ بھارت کو خطے میں اپنی چودھراہٹ دکھانے کا موقع ملے گا۔ اس معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان ممکنہ طور پر چین کو ہو سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اوبامہ اور مودی نے دوران ملاقات پاکستان سے ممبئی حملوں اور پٹھانکوٹ ایئربیس پر حملے کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا جبکہ وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ میں اوبامہ اور مودی نے القاعدہ’ داعش’ جیش محمد’ لشکر طیبہ’ ڈی کمپنی اور دوسری شدت پسند تنظیموں کیخلاف تعاون میں مزید مضبوطی لانے کے عزم کا اظہارکیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اوبامہ نے پاکستان سے ممبئی اور پٹھانکوٹ حملے کے ملزموں کیخلاف کارروائی عمل میں لانے کا تقاضا کیا۔ دریں اثناء بھارتی وزیراعظم مودی نے امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ جیسی عظیم جمہوریت دنیا بھر میں جمہوریت کو مضبوط بناتی ہے۔امریکہ نے ممبئی حملوں کے وقت ہمارے ساتھ یگانگت کا اظہار کیا اور دکھ کی اس گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا جبکہ اب امریکہ بھارت ایٹمی سویلین ڈیل نے باہمی تعلقات کو نئی جہت دی ہے۔ ہماری بہت سی جمہوری روایات یکساں ہیں اور ہم قدرتی دفاعی اتحادی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سب سے زیادہ عسکری مشقیں امریکہ کے ساتھ کرتا ہے’ اب اپنے مشترکہ آئیڈیلز پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہشتگردی کی بھارت کے پڑوس میں پرورش کی جا رہی ہے۔

یہ طرفہ تماشا ہے کہ جو بھارت 70 کی دہائی کے اختتام تک اس وقت کی دوسری سپرپاور سوویت یونین کا فطری دفاعی اتحادی بن کر اس کیخلاف امریکہ کی سرد جنگ میں اس کے معاون کی حیثیت امریکہ کی کمر توڑنے کی حکمت عملی طے کرتا نظر آتا تھا’ وہی بھارت آج امریکہ کا کلمہ پڑھتے ہوئے اس کا فطری دفاعی اتحادی ہونے کا داعی ہے اور امریکہ نے بھی اس کو اپنے مخلص اور قابل اعتبار دوستوں کی صف میں شامل کرلیا ہے جبکہ بغض معاویہ پر مبنی اس اتحاد کا چین اور پاکستان دونوں ٹارگٹ ہیں۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ شروع دن سے مخاصمت ہے اور وہ پاکستان کو خدانخواستہ صفحہ? ہستی سے مٹانے کے ایجنڈا کی تکمیل چاہتا ہے جبکہ مہابھارت والے اسکے توسیع پسندانہ عزائم 60 کی دہائی میں اروناچل پردیش میں چین کے ساتھ بھی اسکی مڈبھیڑ کی نوبت لاچکے ہیں جہاں سے اسے منہ کی کھا کر واپس لوٹنا پڑا تھا۔

Pakistan

Pakistan

جبکہ پاکستان پر اس نے تین جنگیں مسلط کرکے اسے دولخت کرنے کا اپنے تئیں کریڈٹ لے لیا اور اب وہ باقیماندہ پاکستان کی سالمیت کے بھی درپے ہے اور پاک چین دوستی کے تناظر میں وہ چین کو اپنے ان عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے چنانچہ اپنی ایٹمی دفاعی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ چین اور پاکستان دونوں کو ضرب لگانے کی مذموم منصوبہ بندی رکھتا ہے جس کا اظہار سابق بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ نے یہ بڑ مار کر کیا تھا کہ بھارت 96 گھنٹے میں بیک وقت بیجنگ اور اسلام آباد کو ”ٹوپل” کر سکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ امریکہ کا چین کے ساتھ ہے کیونکہ پاکستان کے تعاون سے سرد جنگ میں سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد امریکہ اپنے تئیں دنیا کی واحد سپرپاور بن بیٹھا اور اسی تناظر میں وہ اس خطہ میں چین پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جو سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد فطری طور پر دنیا کی دوسری سپرپاور بن چکا ہے۔ امریکہ کو چین پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے اس خطہ میں کسی ملک کے تعاون کی ضرورت تھی اور چین کے ساتھ پائیدار دوستی کے ناطے پاکستان امریکہ کی لابی میں شامل ہونے کے باوجود اس معاملہ میں امریکہ کا معاون نہیں ہو سکتا تھا چنانچہ بھارت پر اسکی نگاہیں جمیں جو سردجنگ کے خاتمہ تک اسکے دشمنوں میں شمار ہوتا تھا۔

اسی طرح بھارت کو پاکستان چین دوستی کے ناطے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں مشکلات پیش آرہی تھیں چنانچہ اسے بھی چین کیخلاف امریکی عزائم کو بھانپ کر اپنا وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈالنے کا موقع مل گیا اور اس طرح ماضی کے ایک دوسرے کے دشمن اب ایک دوسرے کے ”فطری” اتحادی بن گئے ہیں جن کا مشترکہ ایجنڈا پاکستان چین دوستی کے حصار کو توڑنے کا ہے جبکہ پاکستان اور چین نے اقتصادی راہداری اور ایٹمی ری ایکٹرز میں باہمی تعاون کے ذریعے دوستی کے حصار کو مستحکم کرکے اسے باہمی دفاعی حصار میں تبدیل کرلیا ہے جس پر امریکہ اور بھارت دونوں مضطرب ہیں اور…ع ”آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں” کے مصداق واشنگٹن میں اوبامہ اور مودی نے پاک چین دوستی کا توڑ کرنے کیلئے ہی حکمت عملی سوچی ہے جس کیلئے امریکہ کو غیرمعمولی اقدامات کے تحت بھارت کے ساتھ ایک دوسرے کے فوجی نظام تک کو بروئے کار لانے کے معاہدے کا بھی سوچنا پڑا۔

اس سے امریکہ کو یہ فائدہ ہوگا کہ کل کو چین کے ساتھ جنگ کی نوبت آنے کی صورت میں وہ بھارت کے ایئربیسز چین پر فضائی حملے کیلئے استعمال کر سکے گا اور اسکی فوجی معاونت بھی حاصل کر سکے گا جبکہ بھارت کو امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد کی بدولت پاکستان کی سالمیت پر وار کرنے کی بھی سہولت حاصل ہوگی اور وہ چین کے علاقے اروناچل پردیش تک رسائی کے اپنے دیرینہ خواب کو بھی شرمندہ تعبیر کرنے کی پوزیشن میں آجائیگا اور دونوں ممالک کے یہی مفادات باہمی انہیں فطری دفاعی اتحادی بنانے میں معاون ہوئے ہیں۔

China

China

اس تناظر میں اب یقیناً بین المملکتی تعلقات پر نظرثانی کرکے انکی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کو اس صورتحال کا پہلے ہی بخوبی ادراک ہے چنانچہ وہ پاک چین دوستی میں کسی قسم کی دراڑ پیدا نہیں ہونے دینا چاہتا اور وہ سی پیک کو پاکستان سے بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی بنیاد پر چین نے سی پیک کی مخالفت سے متعلق بھارتی عزائم اور منصوبوں کے توڑ کی بھی حکمت عملی طے کی ہوئی ہے جس کے تحت مودی کے دورہ? بیجنگ کے دوران چینی صدر انہیں باور کراچکے ہیں کہ بھارت کا اقتصادی راہداری منصوبے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں چین پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے ہر بھارتی منصوبے کی مخالفت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرانے کی بھارتی سازشیں چین نے اسکی قرارداد ویٹو کرکے ناکام بنائیں جبکہ اب وہ اسی تناظر میں بھارت کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اور اسے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل کرانے کی امریکی کوششوں کی بھی ڈٹ کر مخالفت کررہا ہے کیونکہ مضبوط پاکستان چین کی ضرورت ہے جس کیخلاف آج امریکہ بھارت گٹھ جوڑ ہوا ہے تو چین یہ گٹھ جوڑ اپنے خلاف بھی سمجھتا ہے۔

اس صورتحال میں ہمیں اپنی سفارتکاری کی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے جس کے تحت چین اور روس کے ساتھ اقتصادی’ دفاعی اور تجارتی تعلقات مزید مستحکم کرکے اس خطے میں طاقت کا ایک نیا منبع قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جہاں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ سے اس خطے میں بگڑنے والا طاقت کا توازن درست ہوگا وہیں بھارت کے علاقے کی تھانیداری والے عزائم اور امریکہ کے واحد سپرپاور بننے کے عزائم پر اوس پڑیگی۔ چنانچہ آج امریکہ اور بھارت کے معاملہ میں مصلحت و مفاہمت کے بجائے دوٹوک پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت حیلے بہانے سے پاکستان کے ہائی کمشنر کی سرکاری تقریبات میں شمولیت روک رہا ہے جیسا کہ اس نے ناگپور میں ہونیوالی ایک تقریب میں پاکستانی ہائی کمشنر کی بطور مہمان خصوصی شمولیت کا دعوت نامہ جاری کرکے انہیں وہاں جانے کی اجازت نہیں دی تو اس کا جواب ہماری جانب سے بھی بھارتی ہائی کمشنر پر پابندیاں عائد کرکے دیا جانا چاہیے۔

امریکہ نے چونکہ اب اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے تو اب اس کا فرنٹ لائن اتحادی بنے رہنے کا کوئی جواز نہیں رہا اس لئے اب اس معاملہ میں بھی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرلی جائے۔ ہم اپنی بہتر سفارتکاری سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے بھارتی جنونی عزائم پر بھی دنیا کو اپنے حق میں قائل کرسکتے ہیں جس کیلئے پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کے معاملہ میں دفتر خارجہ کی جانب سے غیرملکی سفیروں کو بریفنگ دینے کا درست قدم اٹھایا گیا ہے۔ اسی طرح ہم اپنی سفارتکاری کو بروئے کار لا کر امریکی کانگرس کے 18′ ارکان کے اس تقاضے کو بھی اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں کہ مودی کے ساتھ بھارت میں مذہبی عدم برداشت کا معاملہ بھی اٹھایا جائے۔ اس حوالے سے بھارت کا مذہبی انتہاء پسندی والا جنونی چہرہ دنیا کے سامنے آئیگا تو اس سے بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ پر واشنگٹن انتظامیہ پر بھی عالمی دبائو بڑھے گا۔ بہتر یہی ہے کہ چین’ پاکستان اور روس مل کر اس خطے میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا توڑ کریں جس کیلئے ان تینوں ممالک میں ہر فیلڈ میں باہمی تعاون شرطِ اول ہے۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا