پاکستانی معیشت حکومتی دعووں کا ایک جائزہ

Pakistan

Pakistan

تحریر: شفیق شاہ
آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑاملک ہے ،ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی 189,289,000 ھے ۔ بظاہرملکی معیشت بہتری کی جانب جاتی نظر آ رہی ہے ۔ پاکستانی افراد صلاحیتوں کے اعتبار سے دنیا کے بہترین افراد میں سے ہیں۔ دنیا بھرمیں پاکستان کے محنت کش افراد اپنی قابلیت اوراہلیت کی وجہ سے ڈیمانڈ میں ھیں ۔ مگر دوسری جانب ملک کو عجیب و غریب صورت حال کا سامنا ھے ۔ ٹیکس آمدن بڑھانے کے اقدامات میں سست روی کے باعث وفاقی حکومت اخراجات پورے کرنے کے لیے کمرشل بینکوں سے خوب قرضے لے رہی ہے ۔رواں مالی سال کے پہلے 3 ماہ میں حکومتی قرضے 4 گنا بڑھ گئے ۔ سٹیٹ بینک کے جاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا ستمبر 2015 حکومت کمرشل بینکوں سے 400 ارب روپے سے زائد کے قرضے لے چکی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے میں ان قرضوں کا حجم 110 ارب روپے تک محدود تھا۔حکومت نے بینکوں سے قرضے لینے کا ریکارڈ تو بنایا ہی تھا ،، نوٹ چھاپنے کے بھی اگلے پچھلے سب ریکارڈ توڑدئیے ہیں،،

ہر ہفتے اوسطًا 23 ارب 48 کروڑ روپے مالیت کے نئے نوٹ جاری کیے جا رہے ہیں،،نوٹوں کی بھرمار نے مہنگائی کی نئی لہرپیدا کی ہے ۔رواں مالی سال کے پہلے 16 ہفتوں کے دوران حکومت نے تقریبا 376 ارب روپے مالیت کے نئے نوٹ جاری کیے ہیں،، جس کے بعد ملک میں زیر گردش نوٹوں کا مجموعی حجم ملکی تاریخ میں پہلی بار 31 کھرب 2 ارب 14 کروڑ روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ،، رواں مالی سال حکومت نے صرف سولہ ہفتوں میں جتنے نوٹ چھاپے ،، گزشتہ پورے مالی سال میں اتنے نوٹ جاری کیے گئے تھے ،،نوٹ پرنوٹ چھاپنے کی پالیسی سے حکومت کی گاڑی توجیسے تیسے آگے بڑھ رہی ہے مگرغریب کا چولہا ٹھنڈا ہورہا ہے ،۔

،جس کے پاس جسم وجاں کارشتہ برقراررکھنے کے لئے بھی وسائل کم پڑتے جارہے ہیں،،اندھا دھند نوٹ چھاپنے سے بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ،،سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال کے دوران دال چنا کی قیمت میں 61فیصد اضافہ ہوا،دال ماش 43فیصد،دال مسور 10 فیصد اوردال مونگ 8 فیصد مہنگی ہوئی،،سرخ مرچ اورنمک کی قیمت بھی 6 فیصد اوپرگئی اس دوران آٹے کی قیمت بھی بڑھتی رہی ایک طرف حکومت آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کے حصول کے لئے اندھا دھند اس کی شرائط پرعمل کررہی ہے ،،رواں مالی سال کے دوران اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت نئے نوٹ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اب تک کمرشل بینکوں سے 481 ارب 58 کروڑ روپے قرض بھی لے چکی ہے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان قرضہ پروگرام کے تحت دبئی میں کامیاب مذاکرات ہو ئے ۔ جس کے ضمن میں آئی ایم ایف کی جائزہ ٹیم آئی ایم ایف بورڈ پاکستان کو 502 ملین ڈالر قرضہ کی نئی قسط جاری کرنے کی سفارش کرے گی۔ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ہیرالڈ فنگر نے دبئی مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کیا۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 14 یا 15 دسمبر کو ہوگا جس میں 502 ملین ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دی جائے گی۔

Asian Development Bank

Asian Development Bank

انہوں نے کہا کہ نومبر میں عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی طرف سے 900 ملین ڈالر پاکستان کو موصول ہونگے ۔ عالمی بنک 12 نومبر کو پاکستان کو 500 ملین ڈالر جاری کرنے کی منظوری دے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بنک 400 ملین ڈالر دے گا۔ اس کی منظوری 20 یا 21 نومبر کو متوقع ہے ۔ وزیرخزانہ نے اعتراف کیاکہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر نے ریونیو کی وصولی کا 40بلین روپے کا ہدف پورا نہیں کیا ۔ کم ریونیووصول کیا ہے جبکہ مالی خسارہ بھی ہدف سے 23 بلین روپے زائد ہوا ہے ۔یہ تو ملکی صورت حال ھے ۔ دوسری جانب یہ بین الاقوامی مالیاتی ادرہ یا دیگر ادارے جو قرض دیتے ھیں اس کے خرچ کا بھی سن لیں کہ وہ کہا خرچ ھوتے ھیں آئیں دیکھتے ھیں۔

بین الاقوامی ادارے آئی ایم ایف کی امداد اور قرضے امریکہ کی شرائط پر ملتے ہیں۔ پاکستان کو یہ امداد اور قرضے بنیادی طور پر ڈونرز یعنی امداد دینے والے ممالک کے ہاں سے خریداری کیلئے ملتے ہیں نہ کہ ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کیلئے یعنی موخرالذکر بالخصوص پانی، بجلی، گیس وغیرہ۔ شرط یہ ہوتی ہے کہ امداد وصول کرنیوالے ممالک مشینری، پرزے اور خام مال وغیرہ ڈونیشن دینے والے ممالک سے ان کی من مانی شرائط پردرآمدکریں گے ۔ ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ ان قرضوں اور امداد کا انتظام اور نگرانی امداد دینے والے ممالک کے ماہرین ہی کریں۔ یوں امداد کا ایک حصہ ان کے معاوضے کے طور پر واپس انہی کو چلا جاتا ہے ۔ کم و بیش ہی حصہ امداد وصول کرنیوالے ممالک کے ہاتھ آتا ہے ۔ لیکن پورے قرضوں کی ادائیگی انہیں اپنے زرمبادلہ سے کرنا پڑتی ہے ۔ مزید برآں آزادانہ درآمدات کی وجہ سے مقامی سرمایہ کاری، پیداوار اور برآمدات کے مواقع ضائع ہوتے ہیں۔ یہ گلوبلائزیشن ہے ۔

اسکے برعکس پاکستان نے بنیادی صنعتوں کی نیشنلائزیشن کی وجہ سے بھی کافی نقصان اٹھایاہے ، لیکن نیشنلائزیشن ہو یا آزاد معیشت، نتیجہ وہی ہے جو بقول آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب ڈومنیق سٹراس کاہن کے کہ 148 بے روزگاری اور سماجی بے راہ روی نے سیاسی عدم استحکام کو جنم دیاھے147 ۔ دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے پاکستان میں دس فیصد غریب ترین طبقے کو قومی آمدنی میں سے صرف چار فیصد حصہ ملتا ہے جبکہ دس فیصد امیر ترین طبقے کو ستائیس فیصد!فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کی 57 فیصد متوازی معیشت ہے جس پر ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ ملک کی مجموعی سالانہ آمدنی تقریباً 2492.5 کھرب روپے ہے ۔ اگر اس 57 فیصد معیشت پر ٹیکس ادا کیا جائے تو آمدنی تقریباً 4 کھرب روپے ہوسکتی ہے جو پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضوں اور امداد کی مجموعی سالانہ رقم 38 ارب روپے سے کہیں زیادہ ہے ۔ 2007

Malaysia and India

Malaysia and India

سے آج تک قرضوں کی ادائیگی نہیں کی جاسکی جس کی وجہ سے قرضے کی کل رقم4.7کھرب روپے سے بڑھ کر 17 کھرب روپے تک پہنچ گئی ہے ۔ اب تو امداد دینے والے ممالک نے بھی کہنا شروع کردیاہے کہ امداد لینے والے ممالک اولاً اپنے وسائل پر انحصار کریں۔دوسری طرف آزاد معیشت کے نام پر پاکستان سمگلنگ، انڈر انوائسینگ اور ٹیکس چوری کی جنت ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ھے کہ ملک میں دستیاب وسائل کو استعمال کرتے ھوئے ملکی معیشت میں جاری جمود کو توڑا جائے اور ملائیشیا اور انڈیا کی طرح کی تجارتی پالیسی اپنائی جائے ۔آذادی کے بعد سے ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں صورتحال بالکل مختلف رہی ہے ۔

بانی رہنما نہرو کے زمانے سے انڈیا اس پالیسی پر کاربند ہے کہ جو اشیائانڈیا میں پیدا ہوتی ہیں وہ درآمد نہیں کی جا سکتیں۔ حال ہی میں جب انڈیا کی معیشت دنیا بھر میں متقابل ہوئی ہے تو اسکے وزیراعظم من موہن نے کچھ چھوٹ دی ہے ۔ انڈیا نام نہاد امداد اور قرضوں کے حق میں بھی نہیں۔ ملائیشیا کی صورت حال بھی ایسی ہی ہے ۔ اس نے اپنے ہی وسائل پر انحصار کیا اور بین الاقوامی ادارے یعنی آئی ایم ایف کی مدد قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح وہ عالمی طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہے ۔ پاکستان تیل، گیس، کوئلے ، تانبے ، چاندی اور سونے جیسی معدنیات سے مالا مال ہے ۔ ان ذخائر کو دریافت کرنے اور ان سے مستفیض ہونے کیلئے خاطر خواہ کوشش درکار ہے ۔ یہ ذخائر اتنے ہیں کہ نہ صرف مقامی ضروریات پورا کر سکتے ہیں بلکہ وافر مقدار میں برآمد بھی کئے جا سکتے ہیں۔

Shafiq Shah

Shafiq Shah

تحریر: شفيق شاه
shafiqshah1@gmail.com