پاکستان عوامی تحریک کا آج اور کل

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

تحریر : اویس علی
یہ بات سچ ہے کہ پاکستان عوامی تحریک (PAT) نے جتنی مرتبہ بھی انتخابات میں حصہ لیا کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ جبکہ اس کے برعکس سٹیٹس کو کی حامی جماعتیں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتی رہیں۔2012 ء میں پیٹ (PAT) نے پہلی بار سٹیٹس کو کے خلاف ایک موثر طریقے سے آواز اٹھائی۔ اور یہی وقت تھا جہاں سے اس تحریک کی سیاسی کامیابیوں کا دور شروع ہوتا ہے۔23 دسمبر 2012 ء کو مینار پاکستان کے سبزہ زار میں PAT اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابی اصلاحات کا ایک تفصیلی پیکیج پیش کیا۔ نہ صر ف انتخابی اصلاحات بلکہ عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے بھی تجاویز پیش کیں۔وہ سب باتیں جو ڈاکٹر طاہر القادری نے اس جلسے میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے کیں۔ وہ 1973 ء سے ہی آئین ِ پاکستان میں موجود تھیں۔ لیکن کبھی اسطرح سے زیرِبحث نہیں لائی گئیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل62 اور63 جن سے کئی نامور سیاستدان بھی واقف نہ تھے۔

ڈاکٹر قادری کی موثر آواز اور کوششوں سے ایک ریڑھی والے کوبھی یہ دو آرٹیکل از بر ہو گئے۔جنوری 2013 ء کا دھرنا شروع ہوا۔ پاکستانی عوام کی شعور کی آنکھ کھلنے لگی۔دھرنے کے دوران ڈاکٹر قادری آرٹیکلز 62 اور63 کے ساتھ آرٹیکلز37 ، 38 ، اور40 بھی عوام کو بتاتے رہے۔ یہاں تک کہ اکثر یت کو یہ ازبر ہو گئے۔اگر چہ 2013کا دھرنا انتخابی اصلاحات کے لیے تھا لیکن احتساب کی بات بھی کی گئی۔ پاکستان عوامی تحریک کا روزِ اول سے یہ موقف رہا ہے کہ پہلے احتساب، پھر اصلاحات اور پھر انتخابات کروائے جائیں۔ان کے اس مطالبے کو تمام سیاسی جماعتوں نے 2013 ء کے دھرنے میں شرکت نہ کر کے رد کر دیا۔ تبدیلی کا نام لینے والی تحریک انصاف بھی اُس وقت سٹیٹس کو کی حامی جماعتوں کے ساتھ کھڑی تھی۔2013 کے دھرنے تک PAT کی یہ ایک بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی کہ ہر ذی شعور کو 62 اور63 کا علم ہو گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر محلے، دکان، اورچوراہے پر سیاست زیر بحث آنے لگی۔

ایک عام آدمی بھی چاہے وہ سموسے ، پکوڑے بیچنے والا یا سرکاری جاب کرنے والا سیاست میں دلچسپی لینے لگا۔ سیاست کے اتار ، چڑھائو کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔دوسری طرف 2013 کے انتخابات میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ امیدواروں کی سکروٹنی کے وقت 62 اور63 کو مدِنظر رکھا گیا۔ حالانکہ سورہ اخلا ص، کلمے، نماز اور دعائے قنوت سن کر ان آرٹیکلز اور شعائر ِاسلام کا مذاق اُڑایا گیا۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ پہلی مرتبہ انتخابات میں اِن دو آرٹیکلز کو مدِ نظر رکھا گیا۔ تحریک انصاف اب تک سٹیٹس کو کی حامی جماعتوں کے ساتھ کھڑی تھی۔PAT نے 2013 ء کے انتخابات کو مکمل بائیکاٹ کیا اور الیکشن ڈے (11 مئی) پر کئی شہروں میں دھرنے دئیے۔ ان کا یہ موقف تھا کہ انتخابات دھن، دھونس اور دھاندلی کے علاوہ کچھ نہیں۔

PPP and PTI

PPP and PTI

ان انتخابات کے نتیجے میں PML-N حکمران جماعت بنی۔ PPP اور PTI دوسری اور تیسری جماعت بن کر سامنے آئیں۔حیران کن بات ہے کہ انتخابات سے پہلے تک PAT کے موقف کو رد کرنے اور اُن کے دھرنے کی مخالفت کرنے والی جماعت تحریک انصاف اب یہ کہنے پر مجبور ہو گئی تھی کہ ” ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے۔یہ PAT کی بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی کہ جہاں الیکشن کمیشن کو 62 اور 63 کو مد نظر رکھتے ہوئے امیدواروں کی سکروٹنی پر مجبور کر دیا ۔ وہیں تحریک انصاف اُن کا یہ موقف سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو گئی کہ انتخابات دھاندلی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ آرٹیکلز37 ، 38 ، اور 40 کا بڑے پیمانے پر عوامی شعور اجا گرہونا! یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔انتخابات کے بعد PAT نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ مختلف مواقع پر کرپشن ، لوٹ مارکرنے والوں اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں کو بے نقاب کرتے رہے۔

اگست2014 ء میں پھر دھرنا شروع ہوا۔ 2013 ء میں مخالفت کرنے والی اور ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت 2014 ء کے دھرنے میں PAT کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔اِس موقعہ پر PAT کا مطالبہ وہی تھا ” پہلے احتساب پھر اصلاحات اور پھر انتخابات ” لیکن PTI کا موقف یکسر مختلف تھا۔ ایک جوڈیشل کمیشن کا قیام اور مڈ ٹرم الیکشن۔PAT کے بار بار یقین دھانی کے باوجود بھی کہ ” اگر احتساب اورا صلاحات کے بغیر 100 بار بھی الیکشن کروا لیے جائیں تو نتیجہ وہی ہوگا جوپچھلے چالیس سال سے ہوتا آرہا ہے۔ ” PTI اپنے موقف پر بضد رہی”۔ڈاکٹر قادری نے پہلے ہی روز کہہ دیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن سے حکمران جماعت اور ان کے اتحادیوں کو کلین چٹ مل جائے گی۔ اور پھر وقت نے اُن کی یہ بات بھی درست ثا بت کی۔

حکمرانوں کو کلین چِٹ مل گئی۔یہ جہاں تحریک انصاف کی سیاسی ناکامی تھی وہیں PATکی سیاسی بالیدگی کا شاندار مظاہرہ تھا۔ ڈاکٹر قادری کی ساری باتیں سچ ثا بت ہوئیں۔ان دنوں دھرنوں نے عوام کو آئینی اور سیاسی شعور دیا۔ ہر گھر، محلے اور چوراہے پر آئین اور سیاست زیر بحث آنے لگی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بھر پور اظہار رائے کیا جانے لگا۔ ہر گھر میں ووٹ تقسیم ہو گئے۔ یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی تھی کہ دونوں دھرنوں نے ایک عام آدمی کو بھی سیاسی جرات کا پیکر بنا دیا۔کسان پارٹی ہو یا کوئی بھی دوسری سیاسی یا مذہبی پارٹی، نرسنگ سٹاف کا دھرناہو یا کسی طلبہ یونین کا، سب لوگ صوبائی اور وفاقی ایوانوں کے دروازے پر پہنچ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔2014 ء کے آخر تک PTI کا مطالبہ مڈ ٹرم الیکشن ہی رہا۔

PAT Protest

PAT Protest

جبکہ PAT کا وہی مطالبہ تھا ” پہلے احتساب، پھر اصلاحات اور پھر انتخابات”۔ وقت گزرتا گیا۔ 2016 ء کا سورج طلوع ہوا ۔ پھر سے جلسوں اور دھرنوں کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔ یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ دھرنوں کا مقصد صرف بیٹھنا نہیں بلکہ عوام کو آئینی اور سیاسی شعور دینا ہوتا ہے۔ اُن کے اندر بات کرنے اور اپنا حق لینے کی جرات و ہمت پیدا کی جاتی ہے۔2016 ء میں PAT نے وہ سیاسی کامیابیاں حاصل کیں۔ جو اب تک نہ کر سکی تھی۔ 2013 ء کے انتخابات سے لے کر 2016 ء تک مڈٹرم الیکشن کی بات کرنے والی تحریک انصاف ۔ PAT کا یہ موقف بھی ماننے پر مجبور ہو گئی کہ ” پہلے احتساب، پھر اصلاحات اور پھر انتخابات ” یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے 07 اگست سے تحریک احتساب چلانے کا اعلان کر دیا۔

دوسری طرف یہ بھی PAT کی ایک قابلِ ذکر سیاسی کامیابی ہے کہ 2014 کے دھرنے کے وقت سٹیٹس کو کی حامی جماعتیں، جو اُس وقت اِس استحصالی نظام کو بچانے میں مصروف تھیں، آج PAT کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئیں۔31 جولائی 2016 ء کو پاکستان عوامی تحریک کے سیکریٹریٹ میں ہونے والی قومی مشاورتی کانفرنس میں 25 سیاسی و مذہبی جماعتوں نے شرکت کی۔ اعلامیہ میں نہ صرف جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنائی گئی بلکہ تمام تر تحریک کو متفقہ طور پر چلانے پر اتفاق کیا گیا۔

Imran Khan and Tahir ul Qadri

Imran Khan and Tahir ul Qadri

یہ PAT کی بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی کہ نہ صرف PTI نے اِس کے اِس موقف کی حمایت کر دی کہ پہلے احتساب، پھر اصلاحات اور پھر انتخابات۔ بلکہ اکثر و بیشتر سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی PAT کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئیں۔پس منظر اور پیش منظر یہ بتا رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان عوامی تحریک ایک عظیم سیاسی قوت بننے والی ہے۔ جس کی قیادت میںاس ظالمانہ اور استحصالی نظام کے خلاف ایک موثر اور فیصلہ کن تحریک کا آغاز ہونے والا ہے۔دعاہے کہ یہ باتیں نعروں سے نکل کر عملی طور پر سامنے آئیں اور جو بھی جماعت ملک میں اقتدار کی طاقت حاصل کرے اس کی قیادت کے فیصلے مضبوط اور ملک پاکستان کیلئے بہتر ہوں۔

تحریر : اویس علی