پاکستان کی شہ رگ پر دشمن کی تلوار کی زد میں ہے

Kashmir

Kashmir

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
الاسٹیر لیمب اپنی کتاب’’کرائسز ا ن کشمیر‘‘میں لکھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر برطانیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جس نے برصغیر کے سکون کو تہہ و بالا کر کے رکھا ہوا ہے۔یہ بات ساری دنیا کے علم میں ہے کہ آزادی کے وقت ہندو ستان میں چھوٹی بڑی 562 ریاستیں موجود تھیں جن کو آزادی کا اختیارا قانونِ آزادیِ میں نہیں دیا گیا تھا۔بلکہ ہر ریاست کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ(1) آبادی (2) جغرافیہ اور (3) حکمرانو ں کے رائے کو مد نظر رکھ کر ہندوستان یا پاکستان میں شمولیت کا فصلہ کریں گی۔مگر ہندوستان کے پاکستان کو ناکام ریاست بنانے کے عزائم نے برِ صغیر کو آگ اور خون کے دریا میں بدل کر گذشتہ ستر سالوں سے رکھا ہوا ہے،جس نے دونوں ممالک کو تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کی رہرست سے نکلنے ہی نہیں دیا ہے۔

وادیِ کشمیر کا رقبہ لگ بھگ 140785 مربع کلو میٹر ہے۔ ڈوگرا حکمرانی سے قبل اُس وقت جب کشمیرکے 40,00,000 نفوس پر مشتمل وادیِ کشمیر کو جن میں 77% سے زیادہ مسلماں آبادی کے اس خطے کو ا نگریز نے ڈوگرا راجہ کے ہاتھوں 75,00,000 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا تھا۔یعنی جمو ں و کشمیر کی کل آبادی کو اور اس وقت اس کے ہر نفس کو سوا پانچ روپے میں اور ہر کلو میٹر کو 28.5 روپے میں فرخت کر کے گویا برطانیہ کے خزانے کو لبا لب بھر دیا تھا۔جہاں77%مسلمان آبادی کے علاوہ باقی آباد ی میں سکھ ہندو ،کرسچن اور دیگر مذاہب کے ماننے والے لوگ شامل تھے۔اس طرح ہندو آبادی کشمیر میں مشکل سے 10% بھی نہ تھی۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آزادی کے وقت کوئی ایک بھی راستہ ہندوستاں سے جموں و کشمیر میں داخلے کا نہ تھا۔

تمام کے تمام زمینی راستے کشمیر میں داخلے کے پاکستان سے ہی گذرتے تھے اور سب سے اہم بات یہ تھی کا کشمیر کے وزیر اعظم پنڈت کاک کی بھی یہ رائے تھی کہ ریاست جموں و کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کا ہی حصۃ ہوگی۔ درج بالا دیئے گئے ہر option پاکستا ن میں جموں وکشمیر کی شمولیت کا غماز تھا۔مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے تعصب کے زیر اثر رہتے ہوئے ہندو رہنماؤں کے ساتھ مل کر کشمیر کو پاکستان کا حصۃ نہ بننے دیا تھا۔

Kashmir Violence

Kashmir Violence

جموں وکشمیر میں ہندو مظالم کی ایک طویل داستان ہے۔ یہ وادی ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کی اکثریت کے باوجوداقلیتی غیر مسلموں کے تعصبات کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے۔جہاں سکھوں کے دورِ حکمرانی میں بھی وہی مظالم ڈھائے جاتے رہے تھے۔ جو ہندو اپنی ریاستوں میں مسلمانوں پر ڈھاتے رہے تھے اور آج ہندوستان کی نام نہاد سیکولر ریاست گذشتہ سات دہائیوں سے ڈھا رہی ہے۔آزادی کے بعد کشمیر کے لوگ اپنوں کی ہی خو د غرضیوں کی بھنیٹ چڑھائے جاتے رہے تھے ۔شیخ عبد اللہ جیسے خود غرضوں اور ضمیر فروشوں نے کشمیر کے مسلمانوں کا خوا بِ آزادی کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ ایسے اقتدار کے بھوکے لوگوں اور ان کے خاندانوں نے کشمیریوں کے لئے مستقل غلامی کے انتظامات کو آخری شکل دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہے۔

مگر ان ضمیر فروشوں کے ہوتے ہوے گذشتہ دو عشروں کے دوران کشمیریوں نے آذادی کی جنگ کو جب تیز کیا تو بنیئے کی سنگینوں نے ایک لاکھ سے زیادہ نہتے کشمیریوں کو اپنی سات لاکھ سے زیادہ جارح فوج کے ذریعے شہید کر کے اپنی سفاکی کا لوہاانسانی حقوق کے علمبردار مغربی ممالک سے بھی منوالیا ہے۔مگر مجال ہے کسی انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار ملک نے ایک معمولی بھی سسکی یا آواز نکالی ہو!!!ہر چند ماہ کے بعد ہندو غاسب کی سفاکی مقبوضہ جموں و کشمیر میں عود کر آتی ہے اقوام متحدہ سمیت کسی بھی ادارے کو اس ظالمانہ ہندو رویئے پر آواز اٹھانے کی جرا ء ت نہیں ہوتی ہے۔

کشمیر کی آزادی کے متولے ایک نوجوان برہان وانی کو ہندو سفاکیت کا نشانہ بنا کرہندو درندوں نے مقبوضہ واد ی میں ایک مرتبہ پھر آگ اور خون کی ہولی کھیلنا شروع کردی ہے۔ گذشتہ تین چار دنوں میں ہندو سفاکیت میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے۔ انسانیت کانپ اٹھی ہے۔ہندوستانی فوجیوں کی نہتے کشمیری نوجوانوں پر پتھروں کے مقابلے میں جدید ہتھیاروں سے سفاکی نے40 سے زیادہ شہادتوں اور 500 سے زیادہ زخمیوں کی ساری مہذب دنیا کو نوید سُنا کر یہ بات واضح کردی ہے کہ ظالم کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

Indian Army

Indian Army

یہ ہی نہیں بلکہ ہندو فوجیوں نے لوگوں کو ہسپتالوں تک رسائی سے بھی روکنے کی بھر پور کوششیں کیں ،کتے بلی کے حقوق دلانے والے انسانیت کے حقوق کے آواز اُٹھاتے ہوے شرماتے دکھائی دے رہے۔خارجہ پالیسی کے حولے سے ہمارے حکمرانوں کے بودے پن نے ہمارے دشمن کو ہم پر حاوی ہونے کے مواقع فراہم کر دیئے ہیں۔ ہمارے سفارت کاری ساری دنیا میں ہونے کے باوجود ان کامظلوموں کی آواز ساری دینا کو نہ پہنچنا ایک اہم سوال بن چکا ہے۔صرف ہندوستانی سفارت کار کو وزارتِ خارجہ طلب کر کے اس کے ہاتھ میں احتجاجی مراسلہ تھا دینا۔

کشمیریوں کے ذخموں پر مرہم نہیں بن سکتا ہے۔وزیر اعظم صاحب ہندوستان سے دوستی کی آپ لاکھ کوششیں کرلیں ۔ مگر آپ چانکیہ ذہنیت کو نہیں بدل سکتے ہیں….کشمیری گذشتہ سات عشروں سے ہماری جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمنے دنیا کے اورخاص طور پر امریکہ کے دباؤ میں آکر انہیں کٹی پتنگ کی طرح فضاؤں میں ہچکولے کھانے کیلئے چھوڑا ہوا ہے۔

ہمیں اپنی خارجہ پالیسی قائد اعظم محمد علی جناح کے اس قول کے مطابق بنانی ہو گی جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی ملک اپنی شہ کو دشمن کی تلوار کے نیچے نہیں دے سکتا ہے‘‘آج ہمار شہ رگ دشمن کی تلوار کی زد میں ہے۔ جس کی حفاظت ہر پاکستان کا فرض ہے۔

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbirahmedkarachi@gmail.com