فرانس 2002 پاکستان 2015 رویے فرق؟؟؟

France

France

تحریر: شاہ بانو میر
یہ 2002 کا سال ہے فرانس جو سہولیات کے اعتبار سے طبی شعبے اور رفاحی اعتبار سے اپنی عوام کا پسندیدہ ملک ہے ـ جہاں بچے کی پیدائش سے پہلے بچے کو حکومت کی ذمہ داری کہہ کر اسکو ایک الگ مضبوط شناخت دی جاتی ہےـ نظام پر مبنی یہ ملک رشتوں کو جزبات سے بالکل الگ تھلگ رکھ کر اپنے بچوں کی پیدائش کے بعد سے بلوغت تک اور مرتے دم تک ہر ہر قدم پر ان کی مکمل نگہداشت کرتا ہے علاج معالجہ ہو یا تعلیمی سفر مکمل سہولیات کے ساتھ بلاخر انہیں کہیں نہ ،کہیں اپنے برق رفتار نظام میں اس قابل بنا دیتا ہے کہ زندگی کو پرسکون انداز میں کم سے کم پیسوں میں مناسب سہولیات کے ساتھ عمدہ ذہنی نشو نما حاصل کر کے ملک کیلیۓ ترقی کا موجب بنیں ـ یہ حکمتِ عملی ہم نے یہاں کامیاب ہوتے دیکھی اور نہ تو ان بچوں کو حب الوطنی کی نظمیں سنتے دیکھا نہ ہی ملی نغمے سنا کر ان کی وطن ے محبت کو اجاگر کرتے دیکھا ـ

لیکن جہاں کہیں آپ ان بچوں سے نوجوانوں سے سسٹم پر ملک کے نام پر کوئی غلط بات کریں آپ ان سادہ لوح بچوں کے لہجے کی مضبوطی دیکھیں کہ وہ کیسے اپنے ملک کو اس کے نظام کا دفاع کرتے ہیں ـ ایک ایک بچہ سپاہی ہے فرانس کیلیۓ ـ یہ سب کیسے ہوا؟ یہ ایک دن کا سبق نہیں یہ ایک ہفتے کا درس نہیں ـ یہ پیدائش سے پہلے سے لے کر مستحکم مالی معاشی حیثیت تک مختلف اداروں کے ان سے روابط ان کیلیۓ فکر ان سے مسلسل رابطہ اور بلآخر کسی حتمی معاشی حیثیت کا تعین جو ان کو معاشرے میں ان کی اہلیت کے مطابق عزت سے سکون سے رہنے کے قابل بنائے ـ اس ملک میں 2002 میں قیامت خیز گرمی پڑی ایسی گرمی کہ اولڈ ہومز میں موجود اور بڑی تعداد میں تنہا زندگی گزارنے والے بوڑھے لاغر لوگ نجانے کتنے روز پہلے مر گئے مقررہ وقت پر کسی ادارے کے ساتھ ان کے تعین شدہ وقت پر جب وہ رکن آیا تو انکشاف ہوا کہ وہ بوڑھا وجود تو نجانے کتنے روز پہلے سے زندگی کی قید سے آزاد ہو گیاـ

لگ بھگ 2000 بوڑھے افراد تھے جو شدید گرمی کا شکار ہو کر لقمہ اجل بنے یہ بہت بڑی تعداد تھی اور ایک ترقی یافتہ ملک کیلیۓ قابل مذمت یہاں بھی شور ہوا باتیں ہوئیں نیشنل اسمبلی میں اس پر سنجیدہ گفت و شنید ہوئیں لیکن بات تھی عوام کی لہٰذا اعلیٰ مہذب اقوام کی طرح اس کو “” سیاست “”” نہیں بنایا گیا نہ ہی اختلافات پیدا کر کے اپنی پارٹی کو اور خود کو نمایاں کیا گیاـ بلکہ پہلی بار ہسپتالوں میں پنکھوں اور اے سی کی ضرورت کو محسوس کر کے بڑے پیمانے پر نئے سرے سے بجلی کے نظام میں تبدیلی کر،کے اگلی بار ہونے والے اس انسانی المیے سے بچنے کیلیۓ فوری اقدامات کئے گئے ـ یہ ہے مہذب معاشرہ اور ترقی یافتہ ملک کا انداز اصلاح آج دکھ ہوتا ہے کراچی میں قدرتی آفت کی صورت گرمی کی شدت لو کیتپش نے غریب لوگوں کو جن کو بنیادی سہولیات میسر نہیں تھیں ـ وہ اس آفت کا سب سے زیادہ نشانہ بنے ـ

Responsibility

Responsibility

ایسے میں جب ملک انتہائی نامساعدحالات کا شکار ہے باوقار مہذب اور مسلمان قومیں تدبر سے تحمل سے صبر سے کسی بھی آفت کا مقابلہ کرتی ہیں اس کی بجائے ہم دیکھتے ہیں کہ تمام کی تمام ناکام سیاسی حکمت عملی صوبائی سطح پر ہو تو وہ وفاقی سطح پر ڈال کر اپنی ذمہداری سے سبکدوش ہو رہی ہے؟ کیا یہ ہے اندازِ حکومت ؟ اجتماعی سطح پر شرح اموات میں لواحقین کو مرکزی صوبائی حکومتوں کی جانب سے پرسہ چاہیے اور مستقبل میں بہترین کارکردگی کی امید یہاں کیا ہو رہا ہے ؟ جو جو سیاسی رہنما بجلی کی بندش کو موضوع بنا کر دوکانداری چمکا رہے ہیں اور موجودہ حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ کیا ان کو اگر اس ملک کی باگ ڈور تھما دی جائے تو وہ کس الہ دین کے چراغ سے بجلی کو بحال کر سکیں گے؟ مجھے مشرف کے دور میں ابتدائی بیان یاد آرہا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں کسی قسم کے ابہام میں آپکو مبتلا نہیں کرنا چاہتا ماضی میں جو برا حال اداروں کے ساتھ کیا گیا ہے اس کی وجہ سے ہمیں بجلی کی قیمت میں بہت زیادہ قیمت کو بڑہانا ہوگا ـ اور یہ بھی کہ بجلی کی امید کئی سال تک مت رکھیں ـ

ہر سیاسی جماعت جانتی ہے رینٹل پاور پلانٹ کی صورت اس ملک کے ساتھ کیا کیا گیا؟ بجلی کا محکمہ تباہ کیا گیا ہے ـ اس کی تباہی کسی گھر کی تباہی نہیں پورے ملک پر اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں اس وقت ہر کوئی سیاست کر رہا ہے نہیں یہ نا منظور ہے بجلی کے محکمے کو باقاعدہ از سر نو منظم کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ اس کی کامیابی اور ناکامی کا مدار اسی کے گرد گھومتا ہے ـ لہٰذا وہ خود فکر مند ہیں ـ جو لوگ دنیا سے چلے گئے ان کے لواحقین کو حوصلہ دیجیۓ نیا پاکستان بننے جا رہا ہے جہاں احتساب ہر جماعت ہر ادارے اور ہر انسان سے کیا جائے گا ـ ایسے دور میں مشکلات کا سامنا کریں گے تو ہی قربانیاں دے کر نیا پاکستان بنائیں گے ـ عوام ے پُرزور اپیل ہے بجلی کے نام پر جو سیاستدان بڑکیں ماریں ان کا گریبان تھام لیں اور انہیں کہیں کہ ابھی اسی وقت وہ جادوئی پیکج آپکو مہیا کریں جس سے بجلی یکا یک اس ملک کے تاریک گھروں کو منور کر دے اور آپ موجودہ حکومت سے نجات حاصل کر لیں ـ

یاد رکھئے شعور اور حکمت عملی سے چلنا ہے ماضی کی سیاسی ہنگامہ خیز سیاست اب ختم بجلی کا مسئلہ ہے اور سنجیدہ ہے اس میں وقت درکار ہے اس عوام نے ہمیشہ ہی خود کو قربان کیا ہے کیونکہ بڑے بڑے راشی اس پر براجمان تھے لیکن اب ایسا نہیں ہوگا احتساب سے ملک بدلے گا ادارے تبدیل ہوں گے بس اک ذرا انتظار فرانس 2002 میں جس المیہ سے دوچار ہوا آج پاکستان اسی کا شکار ہے لیکن رویے کا فرق ہے ـ ہمیں مستقبل میں اگر نظام اور ادارے فرانس جیسے چاہیے تو سیاست ہو یا معاشرت رویے غیر سیاسی کر کے عوامی مفاد عامہ کیلیۓ صرف باتیں نہیں عمل سے فرانس کی طرح ہسپتالوں کو جدید سہولیات سے مزین کرنا ہوگا ـ اور بجلی کے نظام پر مکمل توجہ مرکوز کر کے سیاست اور ووٹ کی بجائے انسانیت کو بچانے کیلیۓ فرانس کی طرح عملی اقدامات کرنے ہوں گے ـ جیسا ان کی عوام نے 2002 میں 2000 افراد کی گرمی سے اموات پر کیا تھا ـ

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر: شاہ بانو میر